گذشتہ ایک ماہ سے امریکی ایوانِ نمائندگان کی قیادت کا بحران جاری ہے، اور توقع کی جا رہی ہے کہ اس کا حل اِسی ہفتے اُس وقت نکل آئے گا جب ریبلکین پارٹی کے رکن پال رائن اسپیکر منتخب ہوجائیں گے۔
رائن، جان بینر کی جگہ لیں گے، جنھوں نے گذشتہ ماہ کانگریس سے مستعفی ہونے کا اعلان کیا، جس سے قبل کئی برسوں سے وہ ریپبلیکن کاکس کے اندر متحارب دھڑوں کو متحد کرنے کی ناکام کرشش کرتے رہے۔
رائن کے بقول، ’یہ وہ عہدہ نہیں ہے جس کا میں خواہاں رہا ہوں‘۔ جدید امریکی تاریخ میں، وہ ایوان کے پہلے اسپیکر ہیں جو عہدے پر فائز ہونے سے ہچکچاہٹ کا شکار ہیں۔
قومی سطح پر سامنے آنے والے وہ نئے شخص نہیں ہوں گے، چونکہ وہ سنہ 2012 میں ریپبلیکن پارٹی کے نائب صدر رہ چکے ہیں۔ اور، کانگریس کی کارروائی کے حوالے سے، وہ نئے نہیں ہیں، جنھوں نے سنہ 2013میں وفاقی اخراجات کو محدود کرنے سے متعلق مالی معاہدے کو تحریر کرنے میں حصہ لیا۔
وہ کم عمر، ذہین اور سرگرم قانون داں ہیں، رائن ریپبلیکن اصولوں کے امین ہیں، جو رجائیت پسند، وفادار اور جذبے میں یکتا ہیں۔
رائن نے گذشتہ ہفتے کہا کہ، ’میں اب بھی یہ سمجھتا ہوں کہ ہمارا ملک برتر درجہ رکھتا ہے، اس کے لوگ غیرمعمولی استعداد کے مالک ہیں، اور یہ ایسا جمہوریہ ہے جس کے لیے تگ و دو کی جانی چاہیئے۔‘
بقول اُن کے، ’اب بھی وقت ہے کہ امریکی نصب العین کو بچایا جاسکے۔ تاہم، وقت تیزی سے گزر رہا ہے‘۔
چند ہی روز قبل، بینر نے کہا تھا کہ ’میں سمجھتا ہوں کہ پال رائن ایک اچھے اسپیکر ثابت ہوں گے‘۔
بقول بینر، ’وہ محنتی، بہت ذہین ہیں، اور میرے خیال، میں اُن کے سب کے ساتھ، جماعت کے سارے حلقوں کے ساتھ، اچھے تعلقات ہیں‘۔
رائن نے کہا ہے کہ وہ تبھی اسپیکر کے طور پر فرائض انجام دے سکیں گے، اگر ریپبلیکن پارٹی کے تمام ارکان اُن کا ساتھ دیں۔