رسائی کے لنکس

 نیو یارک کی اعلیٰ ترین اپیل کورٹ کا 'ہش منی' کیس میں ٹرمپ کی سزا روکنےسے انکار


 ٹرمپ ہش منی کیس کے لیے 30 مئی کونیویارک کی فوجداری عدالت میں پہنچنے پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے، فوٹو رائٹرز
ٹرمپ ہش منی کیس کے لیے 30 مئی کونیویارک کی فوجداری عدالت میں پہنچنے پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے، فوٹو رائٹرز

  • نیو یارک کی اعلی ترین عدالت نے ڈونلڈٹرمپ کے ہش منی کیس میں جمعے کو ہونے والی سزا کو روکنے سے سے انکار کر دیا ہے۔
  • سماعت کو روکنےکے لیے منتخب صدر کے لیے امریکی سپریم کورٹ آخری ممکنہ راستہ ہے ۔
  • ان کے ڈپٹی اٹارنی، جان سوئر نے لکھا، ٹرمپ کو اب سزا دینا ایک شدید ناانصافی ہو گی۔
  • نیو یارک کے ججوں کا کہنا ہےکہ ٹرمپ کی سزاؤں کا تعلق سرکاری اقدامات کی بجائے ذاتی معاملات سے ہے ۔

نیو یارک کی اعلی ترین عدالت نے جمعرات کو ڈونلڈٹرمپ کے ہش منی کیس میں آئندہ ہونے والی سزا کو روکنے سے سے انکار کر دیا ہے۔

اب جمعے کو سزا کی سماعت کو روکنےکے لیے منتخب صدر کے لیے امریکی سپریم کورٹ آخری ممکنہ راستہ ہے ۔

نیو یارک کی اپیل کورٹ کے ایک جج نے ٹرمپ کی لیگل ٹیم کو اس معاملے پر سماعت کی منظوری سے انکار پر مبنی ایک مختصر حکم جاری کیا ۔

ٹرمپ نے، جو 20 جنوری کو دوسری بار اپنے عہدہ صدارت کا حلف اٹھائیں گے، سپریم کورٹ میں جمعے کو دی جانے والی سزا کی منسوخی کی درخواست کر چکے ہیں۔

ان کے وکلاء نے بدھ کو اس کےبعد ملک کی اعلیٰ ترین عدالت سےرجوع کیا جب نیو یارک کی عدالتوں نے جج ہوان ایم مرشان کی جانب سے دی گئی سزا کو ملتوی کرنے سے انکار کردیا۔

مرشان نے گزشتہ مئی میں ٹرمپ پر بزنس ریکارڈز میں جعلسازی کے 34 الزامات پر مقدمے اور سزاکی سماعت کی صدارت کی تھی۔

واضح رہے کہ ٹرمپ نے کسی بھی غلط کام کرنے سے انکارکیا ہے۔

نیو یارک کی اعلیٰ ترین عدالت میں ٹرمپ کے وکلاء نے کہا کہ مرشان اور ریاست کی درمیانے درجےکی اپیل کورٹ دونوں سزا کو روکنے میں ’’ غلطی سے ناکام ‘‘ ہوئے تھے ۔

اگرچہ مرشان یہ نشاندہی کر چکے ہیں کہ وہ ٹرمپ پرجیل کی سزا ، جرمانے یا پروبیشن نافذ نہیں کریں گے تاہم ٹرمپ کے وکلا کی دلیل ہے کہ مجرم ٹھہرانے کے بھی ناقابل برداشت ضمنی اثرات ہوں گے جن میں منصب صدارت سنبھالنے کی تیاریوں سے ممکنہ طور پر ان کی توجہ ہٹانا شامل ہے ۔

ٹرمپ کے وکلاء یہ دلیل دےچکے ہیں کہ مین ہیٹن کے مقدمے نے گزشتہ موسم گرما میں سپریم کورٹ کے اس فیصلے کی خلاف ورزی کی تھی جس میں ٹرمپ کو ان اقدامات کی وجہ سے، جو انہوں نے صدر کے طور پر کیے ، پروسیکیوشن سے وسیع استثنیٰ دیا گیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ ان کی سزا کو کم از کم اس وقت تک موخر کرد یا جانا چاہیے جب تک استثنی کےمسئلے پر ان کی اپیلوں کی سماعت نہیں ہو جاتی۔

نیو یارک کے ججوں کا کہنا ہےکہ ٹرمپ کی سزاؤں کا تعلق سرکاری اقدامات کی بجائے ذاتی معاملات سے ہے ۔

ٹرمپ کے وکلاء نے اس کیس کو سیاسی محرک پر مبنی قرار دیا اور انہوں نے کہا کہ سزا سے ری پبلکن صدارتی منتقلی میں خلل پڑ سکتاہے جب کہ وہ صدارتی منصب پر واپسی کی تیاری کر رہے ہیں۔

ان کے ڈپٹی اٹارنی جان سوئر نے لکھا کہ ٹرمپ کو اب سزا دینا ایک شدید ناانصافی ہو گی۔ سوئر ٹرمپ کے آئندہ کے سولسٹر جنرل کا انتخاب بھی ہیں جو ہائی کورٹ میں حکومت کی نمائندگی کرتا ہے ۔

امریکی سپریم کورٹ کو ہنگامی سماعت کی رخواست نیویارک سے ہنگامی اپیلوں کی سماعت کرنے والی جسٹس سونیا سوٹومئیر کو پیش کی گئی تھی۔

واضح ہو کہ گزشتہ برس مئی میں نیویارک کی ایک جیوری نے ٹرمپ پر سابق پورن اسٹار اسٹورمی ڈینیئل کو رقم کی ادائیگی سے متعلق 34 الزامات میں فردِ جرم عائد کی تھی۔

ٹرمپ پر الزام تھا کہ انہوں نے 2016 کے صدارتی انتخابات کے دوران پورن اسٹار کو مبینہ جنسی تعلقات پر خاموشی اختیار کرنے کے لیے ایک لاکھ 30 ہزار ڈالر دیے تھے۔

ڈینئل کا دعویٰ تھا کہ ٹرمپ نے ان کے ساتھ جنسی تعلقات قائم کیے تھے۔ تاہم ٹرمپ اس دعوے کی تردید کرتے رہے ہیں۔

ٹرمپ بارہا کہتے رہے ہیں کہ اداکارہ کی کہانی جھوٹ پر مبنی ہے اور انہوں نے کچھ غلط نہیں کیا۔

مین ہیٹن عدالت کے جج ہوان مرشان نے صدارتی استنثنیٰ کی بنیاد پر کیس کو ختم کرنے اور فیصلہ واپس لینے کی ٹرمپ کی کوششوں کو مسترد کر دیا تھا۔

جج نے فیصلے میں لکھا کہ اس معاملے کو منطقی انجام تک پہنچانے سے انصاف کے تقاضے پورے ہوں گے۔

(اس رپورٹ کا مواد اے پی سے لیا گیاہے)

فورم

XS
SM
MD
LG