نامور استاد اور ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے سابق سربراہ، ڈاکٹر مہدی حسن انتقال کرگئے ہیں۔ وہ طویل عرصے سے علیل تھے۔ان کی عمر 85 برس تھی۔
اُنہیں پاکستان کے سیاسی حالات اور تجزیہ میں مہارت حاصل تھی۔بطور اُستاد ، ڈاکٹر مہدی حسن مختلف جامعات میں پڑھاتے رہے۔ اِس کے ساتھ وہ پاکستان میں مختلف ٹی وی چینلز، اخبارات اور ریڈیو کے مختلف پروگراموں میں بطور مبصر شریک ہوتے رہے۔
پاکستان میں انسانی حقوق کی غیر سرکاری تنظیم ہومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے جنرل سیکرٹری حارث خلیق نے اُن کی خدمات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر مہدی حسن پاکستان کے اُن عوامی دانشوروں میں سے تھے جنہوں نے اپنی ساری زندگی اصولوں کے تحت گزاری۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے حارث خلیق نے کہا کہ ''ڈاکٹر مہدی حسن جمہوریت اور سیکولرزم کے قائل تھے اور آخری وقت تک قائل رہے۔ اور اس بارے میں ان کے ہاں کسی قسم کا معذرت خواہانہ رویہ نہیں تھا۔ کسی قسم کاابہام نہیں تھا''۔
اُنہوں نے مزید کہا کہ ہمارے جیسے معاشروں اختلاف رائے کرنے والوں کی گردن زنی کر دی جاتی ہے؛ لیکن وہ جرات سے اپنی بات کیا کرتے تھے اور اپنے خیالات اور افکار پر ہمیشہ قائم رہے۔
اُنہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر مہدی حسن امن پسند انسان تھے۔ اُنہوں نے شدتِ جذبات میں کبھی کسی کے ساتھ کوئی بدتہذیبی نہیں کی۔ ہر چند کہ انہوں نے اپنے اصولی موقف سے کبھی رو گردانی نہیں کی ۔
ڈاکٹر مہدی حسن سنہ 1960ء سے پاکستان ٹیلی ویژن اور ریڈیو پاکستان کے پروگراموں میں بطور تجزیہ کار شریک ہوتے رہے۔ ڈاکٹر صاحب وائس آف امریکہ سمیت مختلف عالمی نشریاتی اداروں کے مباحثوں میں شامل ہوتے تھے۔
وہ شعبہ صحافت سے وابستہ تھے۔ اُنہوں نے بطور رپورٹر اپنی صحافتی زندگی کا آغاز کیا جس کے بعد وہ ساٹھ کی دہائی میں ہی پاکستان پریس انٹرنیشنل کے سب ایڈیٹر رہے۔ ڈاکٹر مہدی حسن متعدد بار پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے رکن بھی منتخب ہوئے۔
ڈاکٹر مہدی حسن نے نوے کی دہائی میں جامعہ پنجاب سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی جس کی بعد انہوں نے امریکہ کی یونیورسٹی آف کولوراڈو سے بطور اسکالر اپنا تحقیقی مقالہ لکھا جس کا موضوع تھا امریکی ذرائع ابلاغ میں تیسری دنیا کے ملکوں کی کوریج۔ اِسی دوران ڈاکٹر مہدی حسن کے پاکستان اور امریکہ میں کئی تحقیقی مقالے شائع ہوئے ۔
وہ پاکستان میں انسانی حقوق کی ایک معتبر آواز سمجھتے جاتے تھے۔ بطور ترجمان انسانی حقوق وہ مختلف ملکی اور عالمی سطح پر پاکستان کی نمائندگی بھی کر چکے ہیں۔
ہیومن رائٹس کمیش آف پاکستان کے حوالے سے اُن کی خدمات کے بارے حارث خلیق نے کہا کہ وہ دو مرتبہ ایچ آر سی پی کے چیئرمین رہے۔ اِس وقت بھی وہ ایچ آر سی پی کی کونسل کے رکن تھے۔ اُنہوں نے کہا کہ ڈاکٹر مہدی حسن کے چلے جانے سے اس ادارے کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔ گزشتہ سال آئی اے رحمان، کامران عارف، زمان خان، سلیم ہاشمی کا انتقال ہوا اور اَب ڈاکٹر مہدی حسن نہیں رہے جو کہ ایک بہت بڑا سانحہ ہے۔
حارث خلیق سمجھتے ہیں کہ ڈاکٹر مہدی حسن کا انتقال صرف ایچ آر سی پی کا نقصان نہیں ہے بلکہ یہ پاکستان کا نقصان ہے، خاص طور پر پاکستان کا روشن خیال طبقہ اور معاشرہ اُن کی کمی کو بہت زیادہ محسسوس کرےگا۔
ڈاکٹر مہدی حسن بطور اُستاد اپنے شاگردوں میں بہت زیادہ مقبول تھے۔ڈاکٹر مہدی حسن بطور معلم جامعہ پنجاب سے تین دہائیوں تک منسلک رہے۔ اِس دوران کئی معروف صحافی، سیاستدان اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد اُن کے شاگرد رہے۔ ان کی ایک سابقہ شاگرد طاہرہ حبیب کہتی ہیں کہ اُستاد توبہت سے ہوتے ہیں لیکن ڈاکٹر مہدی حسن بطور اُستاد فرض سمجھ کر پڑھاتے تھے اور اپنے شاگردوں کو عملی طور پر گائیڈ کرتے رہتے تھے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے طاہر حبیب نے کہا کہ بطور اُستاد ڈاکٹر مہدی حسن یہ سمجھتےتھے کہ استاد اپنے شاگردوں کو صحیح او ر غلط کے بارے تصورات پر رہنمائی کرے۔ اپنی گفتگوجاری رکھتے ہوئے اںہوں نے کہا کہ وہ اپنے سیاسی نظریات کسی پر زبردستی نہیں ڈالتے تھے لیکن جمہوریت کے ایک بڑے مداح تھے۔
ڈاکٹر مہدی حسن نے تاریخ، صحافت ،پاکستان کے سیاسی نظام اور سیاسی جماعتوں پر بہت سی کتابیں لکھیں۔ اِن کی کتاب دا پولیٹیکل ہسٹری آف پاکستان جامعہ پنجاب کے نصاب میں شامل ہے۔ پاکستان میں شعبہ صحافت میں ان کی خدمات اور کردار پر حکومتِ پاکستان نے سنہ 2012ء میں اُنہیں صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی سے نوازا تھا۔