کرکٹ پاکستان کا قومی کھیل تو نہیں لیکن گزشتہ 75 برس میں اگر کسی کھیل میں پاکستان نے تواتر سے کامیابیاں حاصل کی ہیں تو وہ یہی کھیل ہے۔
قیامِ پاکستان کے پانچ سال بعد ہی پاکستان کو ٹیسٹ اسٹیٹس ملنا، ہر لحاظ سے ایک نئے ملک کے لیے بڑی کامیابی تھی جس کے پاس اسٹیڈیم اور تجربے کی کوئی کمی نہیں تھی۔
ٹیسٹ کرکٹ میں پہلی پوزیشن حاصل کرنا ہو یا ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل کا ورلڈ کپ جیتنا، پاکستان کرکٹ ٹیم نے ہر میدان کو فتح کرکے اس کھیل کو مقبول بنایا۔یہاں اُن 10 فتوحات پر نظر ڈالتے ہیں جن کی اہمیت وقت گزرنے کے باوجود فراموش نہیں کی جا سکتی۔
انگلینڈ کو اس کی سرزمین پر ٹیسٹ میچ میں شکست
اوول میں 1954 میں کھیلے گئے اس میچ میں ایک طرف مضبوط انگلش ٹیم تھی اور دوسری جانب صرف دو سال قبل ٹیسٹ کرکٹ میں داخل ہونے والی پاکستان ٹیم تھی۔ لیکن عبد الحفیظ کاردار کی کپتانی میں اس نوزائیدہ ٹیم نے وہ کارکردگی دکھائی جس کی کسی کو توقع نہیں تھی۔
جب سیریز کا چوتھا اور آخری ٹیسٹ میچ کھیلا جا رہا تھا تو پاکستان کے مقابلے میں انگلینڈ کی ٹیم کو چار میچوں کی سیریز میں ایک صفر کی برتری حاصل تھی۔
مشکل وکٹ پر پاکستان نے پہلی اننگز میں 133 اور دوسری میں 164 رنز بنائے۔
کپتان عبدالحفیظ کاردار 36 رنز کے ساتھ ٹاپ اسکورر تھے تو دوسری اننگز میں وزیر محمد کے 43 ناٹ آؤٹ نے پاکستان کو مشکلات سے نکالا۔
انگلش کپتان سر لین ہٹن کی قیادت میں اسٹارز سے بھری ٹیم پہلی اننگز میں 130 اور دوسری اننگز میں 143 رنز پر ڈھیر ہوئی۔
پاکستانی بالر فضل محمود نےمجموعی طور پر 12 کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا۔ یوں پاکستان نے انگلش ٹیم کو انہی کی سرزمین پر شکست دے کر تاریخ رقم کی۔
ورلڈ چیمپئن بھارت یقینی فتح سے محروم
اپریل 1986 میں آسٹرل ایشیا کپ کھیلا گیا جس میں بھارت، سری لنکا اور پاکستان کے علاوہ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کی ٹیمیں مدِ مقابل تھی۔
پہلے آسٹرل ایشیا کپ کا فائنل روایتی حریف بھارت اور پاکستان کے درمیان ہی نہیں تھا بلکہ یہ میچ دو ایسی ٹیموں کے مابین تھا، جن میں ایک اس وقت کی ورلڈ چیمپئن تھی جب کہ دوسری جانب کسی بھی قسم کی ٹرافی نہ جیتنے والی ٹیم تھی۔
سنیل گواسکر کے 92 جب کہ سری کانتھ اور وینگسارکر کی نصف سینچریوں کی بدولت بھارت نے پاکستان کو کامیابی کے لیے 246 رنز کا ہدف دیا، جس کے تعاقب میں پاکستان کو آغاز سے ہی مشکلات کا سامنا تھا۔
ایسے میں جاوید میانداد کی دھواں دار اننگز نے پاکستان کو نہ صرف مشکلات سے نکالا بلکہ جب میچ کی آخری گیند پر چار رنز درکار تھے تو فاسٹ بالر چیتن شرما کی گیند پر ایسا چھکا مارا جس کی گونج آج تک سنائی دیتی ہے۔
انہوں نے صرف 114 گیندوں پر 116 رنز کی شاندار اننگز کھیل کر پاکستان کو پہلی مرتبہ کسی انٹرنیشنل ٹورنامنٹ میں فتح دلائی۔
اس کامیابی کے بعد فتوحات کا ایک ایسا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوا جو آج بھی جاری ہے۔
پاکستان کی بھارت میں پہلی بار ٹیسٹ سیریز میں کامیابی
پاکستان نے ٹیسٹ کرکٹ میں بھارت کے خلاف بھارت ہی میں کامیابی تو اپنی پہلی ہی ٹیسٹ سیریز میں حاصل کرلی تھی البتہ بھارت میں اس کو ٹیسٹ سیریز میں شکست دینے کے لیے اسے 40 برس انتظار کرنا پڑا۔
سال 1987 میں جب دونوں ممالک کی ٹیمیں بنگلور میں سیریز کے پانچویں اور آخری ٹیسٹ میں مدمقابل تھیں تو سیریز ڈرا کی جناب گامزن تھی ۔
دونوں کپتان عمران خان اور کپیل دیو کی کوشش تھی کہ میچ جیت کر سیریز اپنے نام کرلیں۔
ایسے میں پاکستان کا لیگ اسپنر عبدالقادر کو ڈراپ کرکے لیفٹ آرم اسپنر اقبال قاسم کو ٹیم میں شامل کرنے کا فیصلہ فائدہ مند ثابت ہوا۔
آف اسپنر توصیف احمد کے ساتھ مل کر ان دونوں نے پاکستان کو فتح سے ہم کنار کرانے اور بھارت میں پہلی سیریز جتوانے میں اہم کردار ادا کیا۔
دونوں اسپنرز نے پہلی اننگز میں پانچ پانچ اور دوسری اننگز میں چار چار وکٹیں حاصل کرکے بھارت کی مضبوط ٹیم کو ہوم گراؤنڈ میں شکست سے دو چار کیا۔
یہ میچ بھارتی لیجنڈری بلے باز سنیل گواسکر کے کیریئر کا آخری ٹیسٹ میچ تھا، جس میں ان کی 96 رنز کی اننگز بھی بھارت کو شکست سے نہ بچاسکی۔
عمران خان کی آل راؤنڈ کارکردگی اور نہرو کپ میں فتح
بھارت کے پہلے وزیرِ اعظم جواہر لعل نہرو کی پیدائش کی 100 سالہ تقریبات کے سلسلے میں 1989 میں بھارت میں نہرو کپ کھیلا گیا۔
نہرو کپ میں میزبان بھارت کے علاوہ پاکستان، انگلینڈ، ویسٹ انڈیز، آسٹریلیا اور سری لنکا کی ٹیموں نے شرکت کی۔
ایونٹ کا فائنل کلکتہ کے ایڈن گارڈنز میں پاکستان اور ویسٹ انڈیزکے درمیان کھیلا گیا۔
ویسٹ انڈیز نے ڈیسمنڈ ہینز کے 107 رنز کی بدولت پاکستان کو ٹائٹل جیتنے کے لیے 274 رنز کا ہدف دیا تھا۔
پاکستان نے یہ ہدف میچ کے آخری اوور میں آخری گیند سے ایک گیند قبل حاصل کیا۔
میچ کی خاص بات عمران خان کی نا قابلِ شکست نصف سنچری اور تین وکٹیں تھیں۔
میچ کے آخری اوور میں جب پاکستان کو فتح کے لیے دو گیندوں پر تین رنز درکار تھے، وسیم اکرم نے ویو رچرڈز کی گیند پر چھکا مار کر پاکستان کو میچ جتوا دیا۔
یہ پاکستان کی بھارت میں کسی بھی ون ڈے ٹورنامنٹ میں پہلی کامیابی تھی، جس میں دو سے زیادہ ٹیموں نے شرکت کی۔ اس فتح کے بعد پاکستان کرکٹ ٹیم کو وہ حوصلہ ملا جس کی وجہ سے انہوں نے اپنی نظریں ورلڈ کپ پر جمالیں۔
انگلینڈ کو شکست، 1992 میں پاکستان ورلڈ چیمپئن
جب بھی پاکستان کرکٹ کی تاریخ لکھی جائے گی، اس میں سب سے پہلے 1992 میں کھیلے جانے والے ورلڈ کپ کا تذکرہ ضرور آئے گا۔
جب 1992 میں کرکٹ ورلڈ کپ آسٹریلیا میں منعقد ہوا، تو پاکستان کے فائنل میں پہنچنے پر سب ہی کو حیرانی ہوئی تھی کیوں کہ ٹیم کے پاس نہ تو وقار یونس تھے، نہ سعید انور اور نہ ہی عبدالقادر، جو انجری کا شکار تھے۔
ایسے میں میلبرن کے مقام پر اس کا مقابلہ تھا آل راؤنڈرز سے بھری انگلش ٹیم سے تھا جس میں این بوتھم سرفہرست تھے۔
سب سے بڑے میچ میں پاکستان نے عمران خان کے 72 اور جاوید میانداد کے 58 رنز کی بدولت250 رنز کا ٹارگٹ دیا۔
جواب میں نیل فیئربرادر کے 62 اور ایلن لیمب کے 31 رنز کی بدولت انگلینڈ نے مقابلہ تو خوب کیا البتہ جب وسیم اکرم نے ایک کے بعد ایک پہلے لیمب اور پھر کرس لیوس کو بولڈ کیا تو پاکستان کی فتح یقینی ہو گئی۔
جب عمران خان کی گیند پر ٹیل اینڈر رچرڈ النگورتھ آؤٹ ہوئے تو انگلینڈ کی ٹیم فتح سے 22 رنز دور تھی اور یوں پاکستان نے ورلڈ کپ جیت کر تاریخ میں جگہ بنالی۔
وسیم اکرم کی قیادت میں سہ ملکی سیریز میں کامیابی
ورلڈ کپ کے پانچ برس بعد دسمبر 1996 اور جنوری 1997 میں پاکستان، ویسٹ انڈیز اور آسٹریلیا کے درمیان آسٹریلیا ہی میں سہ ملکی سیریز کھیلی گئی۔
اس سیریز میں تینوں ٹیموں نے آٹھ آٹھ میچ کھیلے تھے جب کہ پاکستان اور ویسٹ انڈیز زیادہ پوائنٹس کے سبب بیسٹ آف تھری فائنل میں پہنچے تھے۔
بیسٹ آف تھری فائنل میں پہلا میچ پاکستان جیت چکا تھا۔ جب پاکستان کی ٹیم نے میلبرن کے مقام پر اپنا دوسرا فائنل کھیلا، تو اس کے پاس نہ تجربہ کار جاوید میانداد تھے، نہ ہی عمران خان تھے جب کہ سامنے ویسٹ انڈیز کی مضبوط ٹیم تھی۔
ایسے میں پاکستان کے پاس سیریز کا پہلا فائنل جیتنے کی وجہ سے ایک صفر کی برتری موجود تھی، اس کے ساتھ ساتھ ٹیم میں نوجوان کھلاڑیوں کی بھرمار تھی، جن کی شاندار کارکردگی کی وجہ سے میزبان آسٹریلوی ٹیم فائنل سے باہر ہوگئی تھی۔
ایونٹ کے بیسٹ آف تھری کے دوسرے فائنل میں پاکستان نے اعجازاحمد کے 45 اور محمد وسیم کے41 رنز کی بدولت ویسٹ انڈیز کو فتح کے لیے 165 رنز کا ہدف دیا تھا۔
جواب میں شاہد نذیر اور وسیم اکرم کی نپی تلی بالنگ کے سامنے ویسٹ انڈین بلے باز بے بس نظر آئے۔
دونوں کھلاڑیوں نے تین تین وکٹیں حاصل کرکے مخالف ٹیم کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا تھا۔
کرٹلی ایمبروز نے 31 رنز بنا کر کچھ مزاحمت تو کی البتہ پوری ٹیم صرف 103 رنز ہی بناسکی۔
یوں وسیم اکرم کی قیادت میں پاکستان کرکٹ ٹیم ایک بار پھر میلبرن سے فاتح بن کر وطن واپس لوٹی اور تین ملکی سیریز کی ٹرافی حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی۔
یونس خان کی قیادت میں ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں فتح
ٹی ٹوئنٹی کرکٹ کی آمد کے بعد ون ڈے کرکٹ پر اسے ترجیح دی جانے لگی، جس کی وجہ سے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کی اہمیت بڑھ گئی۔ جب 2009 میں اس کا دوسرا ایڈیشن کھیلا گیا تو پاکستان وہ واحد ٹیم تھی جس نےمسلسل دوسری بار فائنل تک رسائی حاصل کی تھی۔
ایسے میں جب پاکستان اور سری لنکا کی ٹیمیں فائنل میں آمنے سامنے آئیں، تو ہر کوئی طاقتور سری لنکا کو ناتجربہ کار پاکستان کی جگہ فیورٹ قرار دے رہا تھا۔
سری لنکا کے کپتان کمار سنگاکارا کے ناقابلِ شکست 64 رنز نے سری لنکا کو فائنل میں 138 کے اسکور تک تو پہنچا دیا تھا البتہ تلکرتنے دلشان، سنتھ جے سوریا اور مہیلا جے وردھنے کو خاموش کرنے والے عبد الرزاق اور محمد عامر نے پاکستان کی کامیابی کی بنیاد رکھی۔
شاہد آفریدی کی دھواں دار نصف سنچری کی بدولت پاکستان نے مطلوبہ ہدف دو وکٹ کے نقصان پر 19ویں اوور میں حاصل کیا۔
یوں لارڈز کے مقام پر یونس خان کی قیادت میں گرین شرٹس نے پہلی مرتبہ ٹی ٹوئنٹی چیمپئن ہونے کا اعزاز حاصل کیا۔
مصباح الحق کی قیادت میں پہلی بار ٹیسٹ میس کا حصول
’ٹیسٹ میس‘ کو ٹیسٹ کرکٹ میں وہی مقام حاصل ہے، جو ون ڈے میں ورلڈ کپ کرکٹ کی ٹرافی کو۔
سال 2016 میں جب پاکستان ٹیم نے مصباح الحق کی قیادت میں سیزن کا اختتام آئی سی سی کی نمبر ون رینکنگ پر کیا، تو انہیں ٹیسٹ میس دی گئی۔
پاکستان کو ٹیسٹ میس حاصل کرنے کے لیے انگلینڈ، بنگلہ دیش اورسری لنکا کو ان کی سرزمین پر جب کہ انگلینڈ، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کو متحدہ عرب امارات میں شکست دینی پڑی اور ان تمام ہی میچز میں پاکستان کی قیادت مصباح الحق نے کی تھی۔
اس کامیابی کی خاص بات پاکستان کا اپنی سرزمین پر ایک بھی میچ نہ کھیلنا تھا، جہاں 2009 سے 2019 کے درمیان سیکیورٹی خدشات کی وجہ سے انٹرنیشنل کرکٹ نہیں کھیلی گئی۔
پاکستان کی ویسٹ انڈیز کو پہلی بار سیریز میں شکست
مصباح الحق کی قیادت میں پاکستان کی فتوحات کا سلسلہ ٹیسٹ میس کے حصول کے بعد بھی جاری رہا۔
کپتان مصباح الحق نے ساتھی کھلاڑی یونس خان کے ساتھ مل کر اپنے آخری ٹیسٹ میچ کو ایک شاندار فتح سے یادگار بنایا جو برسوں تک یاد رہے گا۔
یہ میچ 2017 میں پاکستان اور ویسٹ انڈیز کے درمیان ونڈزر پارک میں کھیلا گیا، جس میں کامیابی سے پاکستان نے ویسٹ انڈیز کے خلاف پہلی بار ٹیسٹ سیریز میں فتح حاصل کی۔
میچ کے آخری دن جب یاسر شاہ اپنی آخری گیند پھینکنے جا رہے تھے تو ان کا سامنا ویسٹ انڈین نمبر 11 شینن گیبرئیل کررہے تھے، اگر وہ بال روکنے میں کامیاب ہو جاتے تو اگلا اوور اِن فارم روسٹن چیز کو کھیلنا تھا، جو اس وقت 101 رنز پر ناٹ آؤٹ تھے۔
یاسر شاہ نے اپنی آخری گیند پر ویسٹ انڈین ٹیل اینڈر کو بولڈ کرکے پاکستان کو 101 رنز سے فتح دلانے میں اہم کردار ادا کیا۔
یہ اننگز میں یاسر شاہ کی پانچویں اور مجموعی طور پر میچ میں آٹھویں وکٹ تھی، جس نے پاکستان کو اس تاریخی فتح سے ہم کنار کیا۔
سرفراز احمد کی قیادت میں چیمپیئز ٹرافی کا تاج
آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی کا انعقاد آخری بار 2017 میں ہوا تھا جس کے فائنل میں پاکستان کی فتح کئی کھلاڑیوں کے کیریئر کا آغاز ثابت ہوئی۔
فائنل میچ پاکستان اور بھارت کے درمیان کھیلا گیا۔ یہ میچ اس لیے بھی اہمیت کا حامل تھا کیوں کہ اسی ٹورنامنٹ کے لیگ میچ میں بھارت نے پاکستان کو باآسانی شکست دی تھی، جس کی وجہ سے ان کے کھلاڑیوں کے حوصلے بلند تھے۔
تاہم سرفراز احمد کی قیادت میں پاکستان ٹیم ایک نئے روپ میں نظر آئی۔ احمد شہزاد کی جگہ ٹیم میں آنے والے فخر زمان اور اظہر علی نے 23 اوورز میں 128 رنز جوڑ کر ٹیم کو زبردست اوپننگ اسٹینڈ فراہم کیا۔
بھارتی بالر جسپریت بھمرا کی ایک نوبال پر آؤٹ ہونے والے فخر زمان نے اس موقعے کا بھرپور فائدہ اٹھایا۔ انہوں نے 106 گیندوں پر 114 رنز کی اننگز کھیلی۔
ان کے آؤٹ ہونے کے بعد بابر اعظم اور محمد حفیظ کی دھواں دار بلے بازی نے پاکستان کا اسکور چار وکٹ پر 338 رنز تک پہنچا دیا تھا۔
محمد عامر کی جارحانہ بالنگ نے بھارتی بلے بازوں کو کھل کر کھیلنے کا موقع نہیں دیا۔
اوپنر روہیت شرما، شیکھر دھون اور وراٹ کوہلی کو کم رنز پر آؤٹ کرتے ہی انہوں نے بھارتی بیٹنگ لائن اپ کی کمر توڑ دی تھی، جس کو مزید نقصان حسن علی کی تین وکٹوں سے پہنچا۔
مبصرین کے مطابق پاکستان نے بھارت کو 158 رنز پر آؤٹ کرکے نہ صرف ٹورنامنٹ کے آغاز میں دی گئی شکست کا بدلہ لیا بلکہ پہلی مرتبہ آئی سی سی چیمپیئز ٹرافی کا اعزاز بھی اپنے نام کیا۔