اگرچہ بہتر روزگار کی تلاش میں امیگریشن آج کے عالمگیریت کے دور میں زندگی کی ایک حقیقت بن چکی ہے لیکن حالیہ عرصے کے دوران پاکستان سے بڑی تعداد میں تعلیم یافتہ اور ہنر مند افراد کے جاری انخلا نے بہت سے سوالات کو جنم دیا ہے۔
روزگار کے مواقع میں کمی، عدم استحکام اور مہنگائی سے متاثرہ سات لاکھ پینسٹھ ہزار پاکستانی گزشتہ سال ملک چھوڑ کر گئے ہیں اور بعض ماہرین کے مطابق یہ رجحان رواں سال بھی جاری دکھائی دے رہا ہے۔
گزشتہ سال ملک چھوڑنے والے پاکستانیوں کی تعداد 2020 اور 2021 کے سالوں سے تقریباً تین گنا زیادہ ہے اور بیرون ملک رخ کرنے والے لوگوں میں بہت سے انجینئرز، ڈاکٹرز اور آئی ٹی کے ماہرین شامل ہیں۔
ماہرین اقتصادیات کے مطابق منصوبہ بندی کے تحت بہتر مواقع کی تلاش میں افراد اور خاندانوں کی امیگریشن کے کچھ فوائد بھی ہیں لیکن اچانک بڑی تعداد میں اعلی تعلیم یافتہ لوگوں کا ملکی حالات کی وجہ سے بیرونِ ملک جانا پاکستان کو درپیش معاشی چیلنجز کو مزید گھمبیر کر سکتا ہے۔
ماہرین نے اس خدشے کا بھی اظہار کیا ہے کہ تعلیم یافتہ لوگوں کے ملک چھوڑ کر جانے کے نتیجے میں پیدا ہونے والے برین ڈرین سے معیشت کی بحالی کی رفتار کو بھی سست روی کا سامنا ہو سکتا ہے۔
اندازوں کے مطابق ایک کروڑ کے قریب پاکستانی پہلے ہی کئی مشرقی اور مغربی ممالک میں مقیم ہیں جہاں وہ ان ملکوں کی ترقی میں اہم کردار ادار کرنے کے علاوہ پاکستان میں ترسیلات کی شکل میں بڑی رقوم بھیج کر اپنے آبائی ملک کی ترقی کو تیز تر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کے ساتھ طویل عرصے تک منسلک رہنے والے ماہر اقتصادیات ڈاکٹر عاصم حسین کہتے ہیں کہ اس وقت دنیا میں ہنرمند لوگوں کی امیگریشن کی دو بڑی وجوہات ہیں۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کووڈ نائنٹین کے بعد کی دنیا میں کئی ترقی یافتہ ممالک میں ورک فورس کی کمی ہے جب کہ بیشتر ترقی پزیر ممالک اقتصادی چلینجز سے بری طرح متاثر ہیں اور ملازمتوں کے مواقع سکڑتے جارہے ہیں۔ایسے میں ترقی پزیر ممالک سے لوگ مغربی اور ایشیا ئی امیر ممالک کا رخ کر رہے ہیں جو لیبر لینے کو تیار ہیں۔
ان کے بقول، "جہاں تک پاکستان کا سوال ہے تو ایسا لگتا ہے کہ کووڈ کے بحران کے دوران بین الااقوامی سفر تقریباً رک جانے سے اور امیگریشن کے سست ہونے کے بعد اب ملک چھوڑنے والے لوگوں کی تعداد میں یکدم اضافہ ہوگیا ہے۔ میرے لیے یہ کوئی حیرت انگیز بات نہیں ہے۔"
ڈاکٹر عاصم کہتے ہیں غور طلب بات یہ ہے کہ کیا لوگ صرف بہتر ذریعہ معاش کے لیے ملک سے باہر جارہے ہیں یا اس کی اور بھی وجوہات ہیں، اگر لوگ سیاسی وجوہ کی بناد پر ملک چھوڑ رہے ہیں تویہ بہت تشویش ناک ہے۔
ان کے خیال میں بڑی تعداد میں پاکستانیوں کےانخلا کے پیچھے بہت سے اندرونی اور بیرونی عوامل کارفرما ہو سکتے ہیں جن میں سیاسی عدم استحکام، ڈیفالٹ کے خدشات، روپے کی قیمت میں کمی، ملازمتوں کے مواقع اور بیرون ممالک میں جاب مارکیٹ کی دستیابی شامل ہیں۔
عالمی بینک کے سابق ماہرِ اقتصادیات اور ترقیاتی امور کے محقق ڈاکٹر طارق حسین کہتے ہیں کہ تعلیم یافتہ افراد کا ملک سے جانا سن 1971 کے معاشی بحران سے بھی زیادہ خطرناک ثابت ہو سکتا ہے کیوں کہ ترقی کی راہ میں ہنر مند افراد ہی سب سے بڑا قوم کا سرمایہ ہیں۔ "مجھے خدشہ ہے کہ یہ برین ڈرین پاکستان کے لیے بہت نقصان دہ ہوگا۔"
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ لوگ نہ صرف معاشی مشکلات کی وجہ سے ملک چھوڑ رہے ہیں بلکہ انہیں لگتا ہےکہ بہت سے لوگ ایک بڑی سیاسی پارٹی یعنی پی ٹی آئی کے خلاف کریک ڈاؤن سے بد دل ہوکر بھی بھاگ رہے ہیں اور شاید مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے یا تعلیم یافتہ لوگ کبھی بھی پاکستان نہ لوٹیں۔
طارق حسین، جو ورلڈ بینک کی جانب سے ایران میں بھی کام کر چکے ہیں، کہتے ہیں کہ بہت سے اعلیٰ تعلیم یافتہ اور ہنرمند ایرانی انقلاب کے بعد ملک سے کوچ کرگئے تھے۔ لیکن ایران میں اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد کی تعداد آبادی کے تناسب کے لحاظ سے بڑی تھی اس لیے ملک میں رہ جانے والے ہنرمندوں نے ملکی معیشت کو سنبھال لیا تھا۔
ان کےبقول، پاکستان کے معاملے میں ایسا نہیں ہے۔ کیوں کہ ملک کے دگرگوں حالات میں تعلیم یافتہ اور جدید شعبوں میں مہارت رکھنے والے لوگوں کا اس وقت ملک چھوڑنا پاکستان کے لیے بہت بڑی قیمت چکانے کے برابر ہوگا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ جدید دور میں معاشی ترقی کا دارو مدار تحقیق اور اقتصادی تنوع پر ہے ۔ یہا ں تک کہ قدرتی وسائل سے مالا مال ملکوں کو اپنے وسائل کو قابل استعمال بنانے یعنی ان میں ویلیو ایڈیشن کے لیے بھی انجینئرنگ اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبوں میں مہارت رکھنے والے افراد کی ضرورت ہوتی ہے۔
مشرق وسطی پر نظر رکھنے والے ماہرین کے مطابق تیل کے بڑے ذخائر ہونے کے باوجود خلیجی ممالک کو ان ذخائر کی دریافت، استعمال اور پھر ان کو برآمد کے قابل بنانے کے لیے مغربی ماہرین پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ دوسری طرف ایران اپنے تیل کے ذخائر کی ڈویلپمنٹ کے لیے اپنے ہی ماہرین اور ہنر مندوں کی خدمات سے مستفید ہوتا ہے اور مشکل ترین حالات میں بھی اس نے کئی شعبوں میں ترقی کی ہے۔
دنیا میں کسی ملک کی جدید خطوط پر ترقی اور اقتصادی بحالی کی ایک بنیاد ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ سے منسلک افراد کی دستیابی ہے۔اس وقت جنوبی کوریا، جس نے موجودہ دور میں حیرت انگیز ترقی کی ہے، میں ہر دس لاکھ افراد میں 7500 تحقیق اور انوویشن سے وابستہ ماہرین ہیں۔ امریکہ میں یہ تعداد ہر دس لاکھ افراد میں 4000 ہے، چین میں 1200، ایران میں 700 جب کہ پاکستان میں یہ تعداد 350 ہے۔
ڈاکٹر طارق حسین کہتے ہیں "آپ خود ہی سوچیں کہ اگر پاکستان میں اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد کی اتنی کم شرح ہوتے ہوئے اگر لوگ ملک چھوڑ کر چلے جائیں تو اس کا معیشت کی بحالی پر کیا اثر ہوگا۔"
ڈاکٹر عاصم حسین کے مطابق فوری طور پر برین ڈرین سے ملک کو نقصان ہوگا لیکن اگر بڑے تناظر میں امیگریشن کو دیکھا جائے تو تارکین وطن ، جیسا کہ آئی ٹی کے شعبے میں بہت سے پاکستانی امریکی ہیں ، پاکستان میں سرمایہ بھیج کر اپنے آبائی ملک کو فائدہ پہنچا سکتے ہیں۔
لیکن برین ڈرین کو روکنے اور تعلیم یافتہ اور ہنر مند افراد کی مہارت سے ملکی ترقی کو تیز تر کرنے کے لیے پاکستان کو کیا کرنا ہوگا؟ اس سوال پر طارق حیسن کہتے ہیں، "پاکستان کو اپنے لوگوں کو جدید تعلیم دینا ہوگی اور ایسے موزوں حالات پیدا کرنا ہوں گے جو اس کے اپنے ہنر مند افراد کو ترقی کے مواقع فراہم کریں تاکہ ملک اپنے ہی ہیومن کیپٹل سے اقتصادی بحران سے اپنے آپ کو نکال سکے۔"