پاکستان کی جیلوں میں گنجائش سے زائد قیدیوں کی موجودگی کی خبریں تو سامنے آتی رہتی ہیں، لیکن انسداد دہشت گردی کے قومی ادارے 'نیکٹا' نے ایک تازہ رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ یہ تعداد جیلوں کی گنجائش سے 57 فیصد سے بھی زائد ہے۔
نیکٹا نے یہ رپورٹ ’انٹرنیشنل کمیٹی آف ریڈ کراس‘ اور ایک غیر سرکاری تنظیم 'کرسر ڈویلپمنٹ اینڈ ایجوکیشن پاکستان' کے اشتراک سے مرتب کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ گنجائش سے زائد قیدیوں کی موجودگی ان افراد اور جیل کے عملے کی صحت کے لیے بہت سے مسائل کا سبب بھی رہی ہے۔
رپورٹ میں قیدیوں کے لیے پینے کے صاف، حفظان صحت کے اصولوں کے مطابق خوراک اور بیت الخلا کی مناسب تعداد اور قیدیوں کے لیے کھلی فضا تک رسائی جیسی سہولتوں کو یقینی بنانے پر زور دیتے ہوئے سفارشات بھی پیش کی گئیں۔
نیکٹا کے رابطہ کار احسان غنی کا کہنا تھا کہ جیلوں میں ایک بڑی تعداد میں ایسے لوگ بھی قید ہیں جن کے مقدمات دہائیوں سے چل رہے ہیں اور وہ فیصلے کے انتظار میں یہاں بند ہیں؛ اور ان کے بقول، ایسے قیدیوں کی شرح 66 فیصد کے لگ بھگ ہے۔
قیدیوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے ایک موقر غیر سرکاری تنظیم 'شارپ' کے ڈائریکٹر مدثر جاوید اس بات سے تو اتفاق کرتے ہیں کہ ملک کی جیلوں میں گنجائش سے زائد قیدی موجود ہیں۔ لیکن، وہ ان کے خیال میں اصل شرح رپورٹ میں بتائی گئی شرح سے کہیں زیادہ ہے۔
بدھ کو ’وائس آف امریکہ‘ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ جیلوں میں گنجائش سے زائد قیدیوں کی موجودگی کی وجوہات میں مختلف عوامل کارفرما ہیں جن پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ان کے بقول، بہت سے ایسے واقعات بھی دیکھنے میں آئے ہیں جن میں معمولی تنازعات کی بنا پر لوگ ایک دوسرے پر جھوٹے مقدمات درج کروا دیتے ہیں اور جب تک ان کے مقدمے کا فیصلہ نہیں ہوتا تو ملزم کو جیل میں رہنا پڑتا ہے۔
مدثر جاوید نے بتایا کہ ایسے قیدیوں کی بھی ایک بڑی تعداد جیلوں میں بند ہے جو اپنی سزا تو پوری کر چکے ہوتے ہیں۔ لیکن، خود پر عائد ہونے والے جرمانے کی رقم ادا نہ کرنے کی وجہ سے یہ قید مزید طویل ہو جاتی ہے۔
اُن کے الفاظ میں، "لوگوں کو یہ بتایا جائے کہ وہ خواہ مخواہ کے مقدمے نہ کریں، عدلیہ مناسب وقت میں ہر مقدمے کا فیصلہ کرے۔۔۔پھر تنازعات کے حل کے لیے وضع کیے گئے متبادل طریقہ کار کو بھی فعال کیا جانا چاہیے۔۔۔ بہت سے سارے قیدی جو جرمانے ادا نہ کرنے کی وجہ سے جیل میں پڑے ہیں ان کے لیے حکومت کوئی فنڈ مقرر کرے یا جو لوگ یا تنظیمیں اس ضمن میں معاونت کرتی ہیں ان کے ساتھ کوئی ضابطہ کار طے کیا جائے۔"
مدثر جاوید کا مزید کہنا تھا کہ اس ضمن میں پرانے قوانین میں تبدیلی پر بھی توجہ دی جانی چاہیے۔