رسائی کے لنکس

امریکی محکمہ خارجہ کا کشمیر پر بیان خطے کی متنازع حیثیت کے برعکس ہے، پاکستان


اسلام آباد میں وزارت خارجہ کی عمارت کا ایک منظر، فائل فوٹو
اسلام آباد میں وزارت خارجہ کی عمارت کا ایک منظر، فائل فوٹو

پاکستان نے امریکی محکمہ خارجہ کے جموں و کشمیر سے متعلق اس بیان کو خطے کی متنازع حیثیت کے برعکس قرار دیا ہے جس میں بھارتی زیر انتظام کشمیر کے لیے 'بھارت کا وفاقی علاقہ' کی اصطلاح استعمال کی گئی ہے۔

یادر ہے کہ بدھ کو معمول کی بریفنگ کے دوران امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے بھارت کے زیر انتظام جموں و کشمیر کا حوالہ 'بھارتی وفاقی علاقے' کے الفاظ سے دیا، لیکن ساتھ ہی یہ واضح کیا کہ اس خطے کے بارے میں امریکہ کی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی ہے۔

امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے بریفنگ کے دوران پاکستان اور بھارت کے درمیان متنازع علاقے جموں و کشمیر سے متعلق پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ان کے بقول ہم بھارت کی جمہوری اقدار کے مطابق جموں و کشمیر کے 'وفاقی علاقے' کی اقتصادی اور سیاسی صورت حال کو پوری طرح معمول پر لانے کے اقدامات کا خیر مقدم کرتے ہیں۔

اگرچہ امریکہ کا یہ موقف رہا ہے کہ جموں و کشمیر ایک متنازع علاقہ ہے اور واشنگٹن اسلام آباد اور نئی دہلی پر زور دیتا آ رہا ہے کہ وہ یہ معاملہ دو طرفہ بات چیت کے ذریعے حل کریں۔

لیکن گزشتہ ماہ نئی دہلی کی طرف سے اس متنازعہ علاقے میں 'جی فور' انٹرنیٹ سروس بحال کرنے کے اقدام کا خیر مقدم کرتے ہوئے امریکی محکمہ خارجہ کے جنوبی و وسط ایشیا سے متعلق بیورو نے ایک ٹوئٹ میں اس متنازع علاقے کو 'بھارت کا جموں و کشمیر' قرار دیا۔

اس وقت پاکستان کے دفتر خارجہ کے ترجمان زاہد حفیظ نے اس ٹوئٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے امریکہ کو باور کرایا تھا کہ یہ ٹوئٹ ان کے بقول خطے کی متنازع حیثیت سے مطابقت نہیں رکھتی ہے۔

بھارت کے یوم جمہوریہ پر سری نگر میں عام ہڑتال کا ایک منظر۔ فائل فوٹو
بھارت کے یوم جمہوریہ پر سری نگر میں عام ہڑتال کا ایک منظر۔ فائل فوٹو

جب کہ جمعرات کو معمول کی بریفنگ کے دوران پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان چودھری نے نیڈ پرائس کے تازہ بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم پہلے ہی امریکہ کو آگاہ کر چکے ہیں کہ جموں و کشمیر کے بارے امریکی دفتر خارجہ کا بیان خطے کی متنازع حیثیت کے برعکس ہے، جسے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں اور بین الاقوامی برداری تسلیم کرتی ہے۔

ترجمان کے بقول کشمیر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ایجنڈے پر حل طلب مسئلے کے طورپر ایک طویل عرصے سے موجود ہے۔

پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان زاہد حفیظ نے مزید کہا کہ کہ جموں و کشمیر کے عوام کی سیاسی و اقتصادی ترقی ان کے بقول اقوام متحدہ کی قراردادوں کے تحت ان کے حق خودارادیت کے حصول سے منسلک ہے۔

دوسری جانب امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے اپنی بریفنگ میں یہ بھی کہا ہے کہ ہم جموں و کمشیر میں ہونے والی پیش رفت کو قریب سے دیکھ رہے ہیں اور ان کے بقول خطے کے بارے میں ہماری پالیسی تبدیل نہیں ہوئی ہے۔

لیکن جب ترجمان نیڈ پرائس سے پوچھا گیا کہ امریکی وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن کی اپنے بھارتی ہم منصب سے ہونے والے والی بات چیت میں کیا جموں و کشمیر کا معاملہ زیر بحث آیا تھا، تو انہوں نے کہا کہ ایک دو بار بلنکن کو اپنے بھارتی ہم منصب سے بات چیت کا موقع ملا جس میں ان کے بقول دو طرفہ امور اور 'کواڈ' پر تبادلہ خیال ہوا۔ یادر ہے کہ کواڈ سیکیورٹی معاہدے میں امریکہ، آسٹریلیا اور جاپان بھی شامل ہیں۔

'خوش ہیں کہ اب گولیاں نہیں برسیں گی'
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:47 0:00

پاکستانی وزارت خارجہ کے ترجمان کا کہنا ہے کہ نیڈ پرائس نے یہ کہا تھا کہ امریکہ کشمیر اور دیگر معاملات پر براہ راست بات چیت کی حمایت کرتا ہے۔ ان کے بقول امریکہ تسلسل کے ساتھ لائن آف کنڑول پر تناؤ میں کمی اور دونوں ممالک کے درمیان 2003 میں طے پانے والے جنگ بندی کے معاہدے پر قائم رہنے پر زور دیتا آ رہا ہے۔

امریکہ کے بھارت اور پاکستان کے ساتھ تعلقات کے بارے میں بات کرتے ہوئے نیڈ پرائس نے کہا کہ امریکہ کے نہ صرف بھارت بلکہ پاکستان کے ساتھ بھی اہم تعلقات ہیں، اور ان کے بقول دونوں ممالک کے ساتھ امریکہ کے تعلقات کی اپنی الگ نوعیت ہے۔

ترجمان کا کہنا تھا کہ ہمارے دونوں ممالک کے ساتھ تعمیری اور مفید تعلقات ہیں اور ان کے بقول ایک ملک کے ساتھ امریکہ کے تعلقات دوسرے ملک کے تعلقات پر اثر انداز نہیں ہوتے۔

ان کے بقول جہاں تک بھارت کی بات ہے، بھارت کے ساتھ ہماری ایک عالمی جامع اسٹریٹجک شراکت داری ہے، لیکن دوسری طرف جہاں تک پاکستان کی بات ہے، خطے میں ہمارے ان کے ساتھ مشترکہ مفادات ہیں اور ان مشترکہ مفادت کے لیے ہم پاکستانی حکام سے مل کر کام جاری رکھیں گے۔

XS
SM
MD
LG