رسائی کے لنکس

یورپی یونین کی ہائی رسک ممالک کی فہرست سے پاکستان خارج؛ کیا اب برآمدات میں اضافہ ممکن ہے؟


فائل فوٹو
فائل فوٹو

یورپی پارلیمنٹ اور کونسل نے اب اس فہرست کو اختیار کرنے کا اعلان کر دیا ہے جس سے تین ماہ قبل پاکستان کو تجارت کے لحاظ سے ہائی رسک ممالک کی فہرست سے نکال دیا گیا تھا۔

اس متعلق کام کرنے والے یورپی کمیشن نے تجویز گزشتہ سال دسمبر میں دی تھی جسے اب پارلیمنٹ کی توثیق حاصل ہوئی ہے۔

ماہرین کا خیال ہے کہ اس عمل سے پاکستان سے اپنی مصنوعات یورپی یونین میں فروخت کرنے والے تاجروں اور اداروں کو آسانی پیدا ہوگی اور اس سے فریقین کے درمیان تجارتی حجم کو مزید بڑھایا جاسکے گا۔

یہ خبر ایک ایسے موقع پر سامنے آئی ہے جب پاکستان شدید معاشی مشکلات کا شکار ہے۔ آئی ایم ایف سے اسے قرض پروگرام کی نئی قسط حاصل کرنے کے لیے کڑی شرائط کا سامنا ہے۔

ملک میں مہنگائی پانچ دہائیوں کی تاریخی بلند سطح پر پہنچ چکی ہے جب کہ برآمدات، قرضوں کے حجم سمیت زیادہ تر معاشی اندازے مزید خرابی کے اشارے دے رہے ہیں۔

یورپی یونین کے اس فیصلے پر وزیرِ اعظم محمد شہباز شریف نے ایک بیان میں کہا ہے کہ یونین کے ہائی رسک ممالک کی فہرست سے پاکستان کا نکلنا اہم کامیابی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس سے ملک میں کاروبار کو فروغ ملے گا جب کہ افراد اور اداروں کوسہولیات میسر ہوں گی۔

وزیرِا عظم کا مزید کہنا تھا کہ اس کامیابی سے منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کے مالی ذرائع کے خلاف پاکستان کے عزم کی عکاسی ہو رہی ہے۔

معروف تاجر اور کراچی چیمبر آف کامرس کے سابق صدر جنید ماکڈا کا کہنا ہے کہ یورپی یونین کی جانب سے پاکستان کو ہائی رسک ممالک کی فہرست سے نکالنا یقینا حوصلہ افزا اقدام تو ہے لیکن اس کا تعلق گزشتہ سال پاکستان کو فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی گرے لسٹ سے نکالنے سے ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس اقدام سے پاکستانی تاجروں اور کمپنیوں کو اپنی مصنوعات یورپی ممالک میں برآمد کرنے میں مزید آسانی ہوگی اور اس طرح پاکستان کو اپنی مصنوعات بیچ کر زرِ مبادلہ کے ذخائر بڑھانے میں مدد ملے گی جس کی اس وقت پاکستان کو سخت ضرورت ہے۔

جنید ماکڈا کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے پاکستان کو یورپی یونین سے اپنا جی ایس پی (جنرلائزڈ سسٹم آف پریفرنس) درجہ بحال رکھنے کے لیے مزید چھ کنونشنز کی توثیق بھی کرنا ہوگی جب کہ اس سے قبل 27 عالمی کنونشنز کی توثیق پاکستان کرچکا ہے۔

انہوں نے کہا کہ وہ حکومت کو اس بات کے لیے قائل کر رہے ہیں کہ ان چھ عالمی کنونشنز کی بھی جلد پارلیمان اور کابینہ سے توثیق کرالی جائے تاکہ تاجروں کو ڈیوٹی فری اور کوٹے کی پابندیوں کے بغیر اپنی مصنوعات یورپ بھیجنے کا عمل جاری رکھنے میں آسانی ہو جس سے ملک کو قیمتی زرِ مبادلہ کے ساتھ روزگار کے مواقع میسر آتے ہیں۔

پاکستان کو یورپی یونین سے حاصل جی ایس پی کا درجہ رواں سال کے آخر میں ختم ہورہا ہے اور اس کی تجدید کے لیے یونین کی جانب سے فراہم کیے گئے عالمی کنونشنز کی توثیق کے ساتھ ملک میں انسانی حقوق، اظہارِ رائے کی آزادی، جبری گمشدگیوں سے متعلق صورتِ حال، صحافت پر پابندیوں سمیت دیگر عوامل کو جانچنے اور ان پر بحث کے بعد ہی یہ درجہ برقرار رہ سکتا ہے۔

ماہر اور معاشی تجزیہ کار علی خضر کے خیال میں ہائی رسک ممالک کی فہرست سے پاکستان کو نکالنے سے بھی پاکستان کو کوئی خاص فائدہ نہیں ہو گا۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت پاکستان کو اپنی برآمدات بڑھانے پر زور دینے کی ضرورت ہے جس میں گزشتہ کئی دہائیوں سے کوئی خاص اضافہ نہیں دیکھا گیا جب کہ دوسری جانب ویت نام، بنگلہ دیش اور ان جیسے دیگر چھوٹے چھوٹے ملک کی برآمدات میں کئی گنا اضافہ ہوچکا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس مقصد کے لیے سیاسی استحکام اور ایک مستحکم حکومت کی ضرورت ہے جو ملک میں معاشی استحکام، برآمدات بڑھانے اور دیگر امور پر کوئی طویل المدت منصوبوں پر کام کرسکے۔

اعداد و شمار کے مطابق یورپی یونین میں شامل ممالک، امریکہ کے بعد پاکستان کے دوسرے بڑے تجارتی شراکت دار ہیں۔

یورپی یونین کی جانب سے پاکستان کو سال 2013 میں جی ایس پی پلس اسکیم دینے سے دونوں کے درمیان تجارتی حجم میں 78 فی صد کا بڑا اضافہ ہوا ہے۔

صرف سال 2021 ہی میں یورپی یونین کے ممالک کے لیے پاکستان کی برآمدات میں 86 فی صد اضافے سے چھ ارب یورو سے تجاوز کرگئی تھی اور بعض تو ایسے ممالک بھی ہیں جن کو پاکستانی برآمدات میں 100 فی صد سے بھی زائد کا اضافہ دیکھا گیا۔

درآمدات میں بھی 69 فی صد اضافے کے ساتھ یہ پانچ ارب یورو سے زائد ہوگئی ہے۔ ان ممالک کو پاکستان کی جانب سے بھیجی گئی برآمدات میں 80 فی صد حصہ ٹیسکٹائل اور کپڑوں کا ہے جب کہ پاکستان اپنی مصنوعات کا 20 فی صد حصہ یورپی یونین کے ممالک کو برآمد کرتا ہے۔ پاکستان یورپی یونین کے ممالک سے مشینری اور ٹرانسپورٹ کے علاوہ بڑی تعداد میں مختلف کیمیکلز بھی درآمد کرتا ہے۔

تاہم دوسری جانب سے دیکھا جائے تو 2020 کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان یورپی یونین کا 42 واں بڑا تجارتی پارٹنر ہے اور یونین کی کُل تجارت میں پاکستانی مصنوعات کا حصہ محض 0.3 فیصد ریکارڈ کیا گیا۔

  • 16x9 Image

    محمد ثاقب

    محمد ثاقب 2007 سے صحافت سے منسلک ہیں اور 2017 سے وائس آف امریکہ کے کراچی میں رپورٹر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ وہ کئی دیگر ٹی وی چینلز اور غیر ملکی میڈیا کے لیے بھی کام کرچکے ہیں۔ ان کی دلچسپی کے شعبے سیاست، معیشت اور معاشرتی تفرقات ہیں۔ محمد ثاقب وائس آف امریکہ کے لیے ایک ٹی وی شو کی میزبانی بھی کر چکے ہیں۔

XS
SM
MD
LG