امریکی محکمۂ دفاع نے حال ہی میں لیک ہونے والی خفیہ دستاویزات کو قومی سلامتی کے لیے 'سنگین خطرہ' قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ اس ضمن میں ہونے والے نقصان کو کم کرنے کے لیے حکام اقدامات کر رہے ہیں۔
انٹرنیٹ پر حال ہی میں یوکرین جنگ سے متعلق امریکی محکمۂ دفاع کے جائزوں سمیت انتہائی خفیہ دستاویزات لیک ہوئی ہیں۔
وائٹ ہاؤس کا کہنا ہے کہ یہ خدشات موجود ہیں کہ مزید تفصیلات لیک ہوسکتی ہیں۔
امریکی وزیرِ دفاع کے معاون کرس میہر نے پیر کو صحافیوں کو بتایا ہے کہ وزیر دفاع لائڈ آسٹن کو پہلی مرتبہ جمعرات کو اس بات کا علم ہوا کہ یوکرین جنگ میں امریکی فوجی کوششوں اور دیگر ممالک کی شامل انٹیلی جنس کی تفصیلات فراہم کرنے والی خفیہ بریفنگ سلائڈز لیک ہوگئی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ خفیہ دستاویزات کے لیکس ہونے کے بعد وزیرِ دفاع اتحادیوں کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہیں اور انہوں نے نقصان کا اندازہ لگانے کے لیے روزانہ اجلاس کیے ہیں۔
کرس میہر کے مطابق محکمۂ دفاع اس بات کا جائزہ لے رہا ہے کہ "اس قسم کی معلومات کس طرح اور کسے پہنچائی گئی ہیں۔"
ان کے بقول، لیکس دستاویزات کے معاملے پر ایک گروپ تشکیل دیا ہے جو نہ صرف معلومات کے لیک ہونے کے نقصان کا جائزہ لے گا بلکہ یہ جائزہ بھی لے گا کہ اس تک کسے رسائی حاصل ہے۔
لیک ہونے والی سلائڈز میں یوکرین کی حمایت کے لیے امریکی تربیت اور سازو سامان کا شیڈول، نقصانات کا اندازہ، امریکہ اپنے اہم اتحادیوں اور شراکت داروں پر کیا نگرانی کر رہا ہے اور ان تعلقات کو کمزور کرنے کے لیے روس کیا اقدامات لے سکتا ہے، جیسی تفصیلات شامل ہیں۔
امریکی وزیرِ دفاع کے معاون کے مطابق محکمۂ انصاف بطور مجرمانہ تفتیش معاملے کی تحقیقات کر رہا ہے۔ ان کے بقول، " جیسے کہ یہ دستاویزات آن لائن پھیل رہی ہیں وہ قومی سلامتی کے لیے ایک سنگین خطرہ ہیں اور یہ غلط معلومات پھیلانے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔"
کرس میہر نے مزید کہا کہ انتہائی حساس مواد کا افشا ہونا نہ صرف قومی سلامتی پر سنگین اثر ڈال سکتا ہے بلکہ اس سے لوگوں کی جانیں بھی جاسکتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ محکمۂ دفاع اور امریکی حکومت اس معاملے کو انتہائی سنجیدگی سے دیکھ رہی ہے اور یہ ہماری اولین ترجیح ہے۔
خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' کے مطابق ایک دفاعی عہدے دار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ پینٹاگان نے اب ان لوگوں کی تعداد کم کرنے کے لیے اقدامات کیے ہیں جن کی ان بریفنگ تک رسائی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پینٹاگان روزانہ رسائی والی فہرستوں کا جائزہ لے رہا ہے تاکہ یہ معلوم ہوسکے کہ کسے یہ جاننے کی ضرورت ہے اور کسے خفیہ مواد تک رسائی حاصل ہے۔
نہیں معلوم کہ لیکس کے پیچھے کون ہے: وائٹ ہاؤس
ادھر وائٹ ہاؤس کے قومی سلامتی کونسل کے ترجمان جان کربی سے جب پوچھا گیا کہ کیا امریکہ مزید آن لائن ریلیز کے لیے تیار ہے۔ تو ان کا کہنا تھا کہ سچ یہ ہے کہ ہمیں نہیں معلوم۔
انہوں نے کہا کہ " ہمیں نہیں معلوم کہ اس کے پیچھے کون ہے۔ ہم نہیں جانتے کہ اس کا مقصد کیا ہے۔"
جان کربی نے کہا کہ حکام آن لائن پوسٹ کی گئی دستاویزات کو دیکھ رہے ہیں۔ وہ اب بھی ان کے درست ہونے کا تعین کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ لیکن یہ پتا چلا ہے کہ کم از کچھ کاغذات میں "رد و بدل" کیا گیا ہے۔
ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق ان دستاویزات میں سے کم از کم ایک میں یوکرین جنگ میں روسی فوجیوں کی ہلاکت کا اندازہ پیش کیا گیا ہے جو امریکی حکام کی جانب سے عوام کے سامنے دیے گئے اعداد و شمار سے نمایاں طور پر کم ہے۔
"مجموعی تخمینہ شدہ نقصانات" کے عنوان سےسیکشن کی ایک دستاویز میں 16 سے ساڑھے 17 ہزار روسیوں کی ہلاکتیں اور 71 ہزار یوکرینیوں کی ہلاکتیں بتائی گئی ہیں۔
البتہ امریکہ کے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف جنرل مارک ملی نے گزشتہ برس نومبر میں کہا تھا کہ روس نے ایک لاکھ اہلکاروں سے 'زیادہ' نقصان اٹھایا ہے جب کہ یوکرین نے بھی بہت سے لوگ کھو دیے ہیں۔ اور یہ اندازے حالیہ مہینوں میں بڑھتے رہے ہیں۔
امریکی محکمۂ خارجہ کے ترجمان ویدنت پٹیل نے پیر کو صحافیوں کو بتایا تھا کہ اس معاملے پر امریکی حکام اتحادیوں اور شراکت داروں کے ساتھ اعلیٰ سطح پر بات چیت کر رہے ہیں۔
انہوں نے بتایا تھا کہ اس بات چیت میں انہیں انٹیلی جنس کے تحفظ اور شراکت داری کو محفوظ بنانے کے عزم کے بارے میں یقین دلانا بھی شامل ہے۔
خفیہ دستاویزات 'ڈس کورڈ' پر مہینوں گردش کرنے کا شبہ
صحافتی تنظیم بیلنگ کیٹ سمیت سوشل میڈیا پر نظر رکھنے میں مہارت رکھنے والے تفتیش کاروں کا کہنا ہے کہ ہوسکتا ہے کہ دستاویزات 'ڈس کورڈ' پلیٹ فارم پر پرائیویٹ انٹرنیٹ چیٹس میں مہینوں سے گردش کر رہی ہوں۔
اس حوالے سے جب کرس میہرسے پوچھا گیا کہ آیا پینٹاگان نے 'ڈس کورڈ' سے رابطہ کیا ہے، تو انہوں نے اس معاملے پر محکمۂ انصاف سے پوچھنے کا کہا جو ان لیکس پر مجرمانہ تحقیقات کا آغاز کرچکا ہے۔
لیکس ہونے والی دستاویزات ٹوئٹر پر بھی زیرِگردش ہیں۔
اس خبر میں شامل بعض معلومات خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' سے لی گئی ہیں۔