امریکی محکمہ انصاف کے پراسیکیوٹرز نے جمعرات کو درخواست کی کہ سابق صدر ٹرمپ کے خلاف 2020 کے انتخابات کے، جس میں وہ ڈیمو کریٹ جو بائیڈن سے شکست کھا گئے تھے، نتائج غیر قانونی طور پر الٹانے کی سازش کے فوجداری مقدمے کی سماعت کے لیے دو جنوری کی تاریخ طے کی جائے۔
واشنگٹن میں امریکی ڈسٹرکٹ جج تانیہ چٹکن سے اس درخواست میں اسپیشل کونسل جیک سمتھ کے دفتر نے کہا کہ ٹرمپ کے خلاف شہادت پیش کرنے میں اسے چار سے چھ ہفتے سے زیادہ عرصہ نہیں لگے گا جبکہ اس سے پہلے جیوری کا انتخاب دسمبر میں ہو جائے گا۔
اگر یہ ٹائم فریم طے ہو جاتا ہے تو ٹرمپ کو 2024 کے اوائل میں ہفتے کے عام دن عدالت میں گزارنے پڑیں گے جبکہ یہ وہ وقت ہے جب ریپبلکنز کی جانب سے صدارتی امیدوار نامزد کرنے کے لیے انتخابی عمل شیڈیول کیا گیا ہے۔ اس سلسے میں پارٹی کاکس 15 جنوری کو وسط مغربی امریکی ریاست آئیووا میں ہوگا۔
اگرچہ ٹرمپ کے وکلاء کو تاریخ کے بارے میں اپنی ترجیح سے جج کو آئندہ ہفتے تک آگاہ کرنا ہے تاہم وہ پوری کوشش کریں گے کہ مقدمے کی سماعت کی تاریخ جنوری سے کہیں آگے لے جائیں۔
ایک اور مقدمے میں جو سمتھ نے جنوبی ریاست فلوریڈا میں درج کیا اور جس کے مطابق ٹرمپ پر الزام ہے کہ انہوں نے انتہائی خفیہ دستاویزات، غیر قانونی طور پر مار آ لاگو میں اپنی رہائش گاہ پر جمع کیں، ٹرمپ کے وکلاء نے درخواست کی تھی کہ سماعت کی تاریخ آئندہ سال صدارتی انتخابات کے بعد رکھی جائے مگر امریکی ڈسٹرکٹ جج آئلین کینن نے اس کے لیے مئی کے آخر کی تاریخ طے کردی تھی۔
ٹوئٹر پر جرمانہ
امریکہ کی وفاقی اپیل کورٹ کی جانب سے بدھ کو جاری کردہ سربمہر فیصلے میں انکشاف ہوا تھا کہ عدالت نے سوشل میڈیا کمپنی ٹوئٹر کو سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اکاؤنٹ کا ڈیٹا ، 6 جنوری 2021 کے واقعات کی تحقیقات کرنے والے خصوصی وکیل کے حوالے کرنےکا حکم دیا ہے۔
عدالتی دستاویزات کے مطابق ٹرمپ کی ٹوئٹس مقررہ ڈیڈ لائن تک خصوصی وکیل کے حوالےکرنے میں ناکامی پر کمپنی پر ساڑھے 35 لاکھ ڈالر کا جرمانہ کر دیا گیا۔
کیپل ہل حملہ کیس کی تحقیقات کرنے والے خصوصی وکیل جیک اسمتھ کی ٹیم نے رواں برس جنوری میں سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ٹوئٹر اکاؤنٹ کے ریکارڈز کے لیے سرچ وارنٹ حاصل کیا تھا۔
نئی تفصیلات کو واشنگٹن میں وفاقی اپیل کورٹ کے ایک فیصلے میں شامل کیا گیا ہے جو سرچ وارنٹ سے متعلق مہینوں سے جاری قانونی جنگ کے بارے میں ہے۔
ٹوئٹس کا معاملہ کیا ہے؟
ماتحت عدالت کے جج بیرل اے ہاویل نے مارچ میں فیصلہ سنایا تھا کہ ٹوئٹر کو( جس کا نام اب تبدیل کر کے X رکھ دیا گیا ہے) وکیل جیک اسمتھ کی جانب سے درخواست کردہ سرچ وارنٹ کی تعمیل کرنا ہوگی اور ناکامی کی صورت میں اسے ساڑھے تین لاکھ ڈالر ادا کرنا ہوں گے۔
جیک اسمتھ کی ٹیم نے بار بار ٹرمپ کی ٹوئٹس کا تذکرہ پچھلے ہفتے 2020 کے صدارتی انتخابات کے نتائج تبدیل کرنے سے متعلق فردِ جرم کی کارروائی کے دوران کیا تھا۔
سابق صدر ٹرمپ کو 2020 کے صدارتی انتخابات میں اپنے مخالف امیدوار جو بائیڈن سے شکست کے بعد بائیڈن کی جیت کی کانگریس کی جانب سے تصدیق میں رکاوٹ ڈالنے، امریکہ کو دھوکہ دینے کی سازش سمیت دیگر الزامات کا سامنا ہے۔
ٹرمپ نے اس کیس میں عدالت سے الزامات میں قصوروار نہ ہونے کی استدعا کی ہے۔
ٹرمپ نے بدھ کے روز اپنے ٹروتھ سوشل پلیٹ فارم پر پوسٹ کیا کہ محکمۂ انصاف نے ان کے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر 'خفیہ طور پر حملہ' کیا، اور انہوں نے اس تحقیقات کو 2024 میں وائٹ ہاؤس پر دوبارہ دعویٰ کرنے کی اپنی کو شش کو "نقصان"پہنچانے کی کوشش سے تعبیر کیا۔
یہ واضح نہیں ہے کہ وکیل جیک اسمتھ ٹرمپ کے اکاؤنٹ کےبارے میں کیا معلومات حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ امکان یہ ہے کہ وہ جاننا چاہتے ہیں کہ ٹرمپ کی جانب سے پوسٹس کب اور کہاں تحریر کی گئیں، انگیجمینٹ کیا تھی، اور اسی طرح ان دوسرے اکاؤنٹس کی شناخت جنہوں نےٹرمپ کے مواد کو دوبارہ پوسٹ کیا۔
یہ سرچ وارنٹ تحقیقات کی وسعت اور اسمتھ کو اپنے کیس کی تشکیل کے لیے ثبوت حاصل کرنے کی کوشش کی نشاندہی کرتا ہے۔ اسمتھ ٹیم کی تفتیش جاری رہنے کی ایک حالیہ علامت، نیویارک کے سابق پولیس کمشنر برنی کیرک سے پیر کو ٹیم کے تفتیش کاروں سے ملاقات ہے۔
سرچ وارنٹ کا پس منظر
استغاثہ نے 17 جنوری کو سرچ وارنٹ حاصل کیا تھا جس میں ٹوئٹر کو ،اس کے بعد ، ٹرمپ کے اکاؤنٹ کے بارے میں معلومات فراہم کرنے کی ہدایت کی گئی تھی جب عدالت کو "کرمنل جرائم" کے ثبوت کے لیے اکاؤنٹ کا جائزہ لینے کی ممکنہ وجہ مل گئی تھی۔"
فائلنگ میں کہا گیا ہے کہ حکومت نے ایک "nondisclosure" سمجھوتہ بھی حاصل کیا تھاجو ٹوئٹر کو سرچ وارنٹ کا انکشاف کرنے سےروکتا ہے۔
فائلنگ سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ جج ہاول کے پاس یہ باور کرنے کی وجہ موجود تھی کہ سرچ وارنٹ کو عام کیا جائے تو ٹرمپ رکاوٹ ڈالنے والے طرز عمل میں ملوث ہو سکتے ہیں یا قانونی چارہ جوئی سے فرار ہو سکتے ہیں۔
فائلنگ میں کہا گیا ہے کہ عدالت کو پتا چلا تھاکہ وارنٹ کا انکشاف کرنے سے یہ خطرہ ہو سکتا ہے کہ ٹرمپ اس کی وجہ سے "شواہد کو تباہ کرنے، طرز عمل کو تبدیل کرنے" یا اپنے اتحادیوں کو مطلع کرنے کا موقع دے کر جاری تحقیقات کو خطرے میں ڈال سکتے ہیں۔
ٹوئٹر کا استد لال
عدالت کی رولنگ کے مطابق ٹوئٹر نے"Nondisclosure" یا عدم انکشاف کے معاہدے پر اعتراض کرتے ہوئے،تعمیل کی ڈیڈ لائن کے چار دن بعد کہاتھاکہ وہ اکاؤنٹ کی کوئی بھی معلومات پیش نہیں کرے گا۔
فیصلےمیں ججوں نے تحریر کیاکہ ٹوئٹر نے "سرچ وارنٹ کے جائز ہو نے پر سوال نہیں اٹھایا" لیکن دلیل دی کہ عدم انکشاف کےمعاہدے نے ٹرمپ کے ساتھ بات چیت کرنے کے اس کے" پہلی ترمیم" کے حق کی خلاف ورزی کی ہے۔وارنٹ میں ٹوئٹر کو 27 جنوری تک ریکارڈ فراہم کرنے کا حکم دیاگیا تھا۔
ایک جج نے سات فروری کو عدالتی سماعت کے بعد ٹوئٹر کو توہین کا مرتکب پایا، لیکن کمپنی کو اس شام 5 بجے تک دستاویزات حوالے کرنے کا موقع دیا۔ تاہم، ٹویٹر نے اس دن صرف کچھ ریکارڈحوالے کیا۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ انہوں نے 9 فروری تک آرڈر کی مکمل تعمیل نہیں کی تھی۔
ایکس نے 'اے پی' کی جانب سے تبصرے کی درخواست کا ایک آٹو میٹک جواب بھیجا، جس میں کہا گیا ہے کہ وہ جلد ہی جواب دے گا۔
ٹرمپ کے خلاف مرکزی مقدمے میں ان کی قانونی ٹیم نے اشارہ دیا ہے کہ وہ یہ دلیل دے گی کہ ٹرمپ 2020 میں وکلاء کے مشورے پر بھروسہ کر رہے تھے اور ان کے پاس ایسے انتخاب کو چیلنج کرنے کا حق تھا جس میں ان کے خیال میں دھاندلی ہوئی تھی۔
اس رپورٹ میں کچھ معلومات' ایسو سی ایٹڈ پریس' سے لی گئی ہیں۔
فورم