سعودی عرب نے کہا کہ اس نے بحرین کے دو شہریوں کو پیر کے روز سزائے موت دے دی ۔ ان پر ایک عسکریت پسند گروپ سے تعلق رکھنے کا الزام تھا ۔ یہ گروپ مشرق وسطی کی دو ریاستوں کو غیر مستحکم کرنا چاہتا تھا۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ان کے مقدمے کو ،انتہائی غیر منصفانہ، قرار دیتے ہوئے تنقید کی تھی۔
سرکاری سعودی پریس ایجنسی نے ، سعودی وزارت داخلہ کا اعلان جاری کرتے ہوئے ، ان افراد کی شناخت جعفر سلطان اور صادق ثمر کے نام سے کی ہے
ایمنسٹی نے پچھلے سال بتایا تھا کہ ، ان افراد کو مئی 2015 میں حراست میں لیا گیا اور انہیں ساڑھے تین ماہ تک خفیہ رکھا گیا تھا۔
سعودی بیان میں کہا گیا ہے کہ خصوصی فوجداری عدالت نے دو افراد کو ایک عسکریت پسند گروپ سے تعلق رکھنے کے الزام میں سزا سنائی – گروپ کی سربراہی بحرینی حکام کو مطلوب ایک شخص کر رہا تھا ، جو افراتفری پھیلانے اور سعودی عرب کے اندر استعمال ہونے والے دھماکہ خیز مواد کی سمگلنگ میں ملوث تھا۔ بیان میں گروپ یا ان کے رہنما کی شناخت نہیں کی گئی۔
تاہم ایمنسٹی نے ان کے اکتوبر 2021 کے مقدمے کی سماعت اور سزا پر تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ انہیں بحرین میں حکومت مخالف مظاہروں میں شرکت،کے الزامات کا بھی سامنا تھا
حقوق گروپ نے مئی 2022 میں ایک بیان میں کہا تھا کہ جعفر اور صادق کو ان کی پری ٹرائل حراست اور پوچھ گچھ کے دوران قانونی نمائندگی تک رسائی نہیں تھی، عدالتی دستاویزات کے مطابق، انھوں نے عدالت کو بتایا تھا کہ انھیں تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور ان کے نام نہاد اعترافات جبر کے تحت لیے گئے۔
یہ سزائے موت سعودی عرب کے شیعہ اکثریتی مشرقی صوبے میں دی گئی۔
بحرین، خلیج فارس میں ایک جزیرہ نما ملک ہے جو سعودی عرب کے بالکل قریب ہے لیکن اس نے فوری طور پر پھانسییوں کے بارے میں کچھ نہیں بتایا۔۔ بحرین نے 2011 کی عرب اسپرنگ نامی تحریک کے دوران مظاہرین کے خلاف کریک ڈاؤن کیا تھا لیکن اسے بعد میں عسکریت پسند گروپوں کی طرف سے کسی بڑی شورش کا سامنا نہیں کرنا پڑا
سعودی عرب موت کی سزائیں دینے میں دنیا میں سب سے آگے ہے اور وہاں عام طور پر موت کی سزا پانے والے قیدیوں کے سر قلم کر دیے جاتے ہیں۔
خبر کا کچھ مواد ایسوسی ایٹڈ پریس سے لیا گیا