سپریم کورٹ آف پاکستان نے 'راوی اربن ڈویلپمنٹ منصوبہ' کالعدم قرار دینے کا لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ معطل کرتے ہوئے پنجاب حکومت کو منصوبے پر کام جاری رکھنے کی اجازت دے دی ہے۔
عدالت نے پیر کو اپنے فیصلے میں قرار دیا کہ جن زمینوں کی مالکان کو ادائیگی ہوچکی ہے ان پر کام جاری رکھا جا سکتا ہےاور جن زمینوں کے مالکان کو ادائیگی نہیں ہوئی وہاں کام نہیں ہو سکتا۔
عدالت نے حکومتی اپیلوں پر فریقین کو نوٹس جاری کرتے ہوئے کہا کہ جائزہ لیا جائے گا کہ آیا فیصلےکے خلاف انٹراکورٹ اپیل بنتی ہے یا نہیں۔
سپریم کورٹ نے فیصلے میں کہا کہ اگر انٹراکورٹ اپیل بنتی ہے تو کیس لاہور ہائی کورٹ کو واپس بھیج دیا جائے گا۔
دورانِ سماعت جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ لاہور ہائی کورٹ نے امریکی آئین کا حوالہ دیا ہے، امریکہ اور پاکستان کے حالات اور آئین مختلف ہیں۔
واضح رہے کہ لاہور ہائی کورٹ کے جج جسٹس شاہد کریم نے 25 جنوری کو راوی اربن ڈویلپمنٹ منصوبےسے متعلق محفوظ درخواستوں پر فیصلہ سناتے ہوئے کہا تھا کہ منصوبے کے لیے قانونی تقاضے پورے نہیں کیے گئے اور اس کا کوئی ماسٹر پلان بھی مرتب نہیں کیا جا سکا۔ لہذٰا ماسٹر پلان کے بغیر بنائی گئی کوئی بھی اسکیم غیر قانونی ہوتی ہے۔
ہائی کورٹ نے راوی اربن پراجیکٹ سے متاثرہ افراد کی درخواستوں پر گزشتہ سال دلائل مکمل ہونے پر 21 دسمبر کو فیصلہ محفوظ کیا تھا۔
راوی اربن منصوبہ ہے کیا؟
پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان نے 15 ستمبر 2020 کو شیخوپورہ کے علاقے کالا خطائی کے مقام پر راوی ریور اربن پراجیکٹ کا سنگِ بنیاد رکھا تھا۔ جس پر جاری ترقیاتی کاموں پر وہ وقتاً فوقتاً حکام سے بریفنگ بھی لیتے رہتے تھے۔
وزیرِ اعظم عمران خان اس منصوبے میں خاصی دلچسپی لیتے رہے ہیں۔منصوبے کے تحت دریائے راوی کی گزر گارہ میں 46 کلومیٹر طویل جھیل بننا تھی اور ایک بڑے پیمانے پر مصنوعی جنگل بھی اِس منصوبے کا حصہ ہے۔ منصوبے کے تحت 12مختلف مخصوص شہر بسائے جانے تھے۔ منصوبے کے تحت مختلف صنعتی زون اور آئی ٹی زون بھی بننا تھے۔
راوی اربن پراجیکٹ کے لیے زمین کے حصول کے لیے مقام لوگوں نے متعدد بار منصوبے کے خلاف احتجاج کیا۔ جن کا کہنا تھا کہ اُن سے زبردستی اِس منصوبے کے لیے زمینیں حاصل کی جا رہی ہیں۔ منصوبے کے خلاف مختلف ماحول دوست تنظیموں نے بھی عدالت سے رجوع کر رکھا تھا۔
وزیرِاعلٰی پنجاب عثمان بزدار بھی اِس منصوبے کے حوالے سے جاری کاموں کا جائزہ لیتے رہتے ہیں۔ منصوبے کے لیے ابتدائی طور پر 44 ہزار ایکٹر زمین کا انتخاب کیا گیا ہے۔ جن میں سے چھ ہزار ایکٹر اراضی پر انڈسٹریل زون بننا تھے جب کہ تین بیراج بھی اِس منصوبے کا حصہ ہیں۔
ماضی میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت میں بھی اِس منصوبے پر کام کے حوالے سے متعدد اجلاس ہوتے رہے ہیں۔