گیارہ نومبر کو چیف جسٹس پاکستان کی زیرِ صدارت لا اینڈ جسٹس کمیشن کی پولیس ریفارمز کمیٹی کا اجلاس ہواتھا ۔ جس میں ملک کے تمام انتظامی حصوں کے سیکریٹری داخلہ اور انسپکٹرز جنرل پولیس نے بھی شرکت کی۔
اس اجلاس میں جہاں چیف جسٹس نے ملک بھر میں امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورتِ حال اور بڑھتے ہوئے جرائم پر تشویش کا اظہار کیا گیا، وہیں تمام آئی جیز نے بھی اپنے صوبوں میں امن و امان کی صورتِ حال سے آگاہ کیا۔
آئی جی سندھ مشتاق احمد مہر نے اجلاس کو بتایا کہ جدید تیکنیکی سہولیات کے فقدان اور پولیس کے معاملات میں سیاسی مداخلت کی وجہ سے سندھ پولیس دیے گئے مینڈیٹ کے مطابق کارکردگی نہیں دکھا پا رہی۔
اس پر چیف جسٹس گلزار احمد نے پولیس کی خراب کارکردگی پر گہری تشویش کا اظہار کیا اور اس خواہش کا اظہار کیا کہ سندھ پولیس کو دیگر محکموں سے توقعات رکھنے کے بجائے خود اپنی کارکردگی بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔
اجلاس میں چیف جسٹس نے پنجاب، خیبر پختونخوا، بلوچستان اور گلگت بلتستان پولیس کی کارکردگی کی جہاں تعریف کی تو وہیں اسلام آباد اور سندھ پولیس کو اپنی کارکردگی بہتر بنانے کے ساتھ مجرموں کو سزائیں دلوانے پر بھی زور دیا۔
سندھ میں پولیس کی خراب کارکردگی پر عدالتوں ہی سے آوازیں نہیں آ رہیں بلکہ اس پر سول سوسائٹی اور متاثرہ شہری بھی ایسی ہی شکایات کرتے نظر آتے ہیں۔
صحافی عزیز میمن اور ناظم جوکھیو قتل کیس کے علاوہ دادو میں تہرے قتل کے الزام میں دو اراکینِ اسمبلی کے نامزد ہونے کے معاملے پر بھی پولیس پر سیاسی دباؤ اور ملزمان کو بچانے کی کوششوں کی شکایات عام ہوئی تھیں۔
دادو واقعے کی مدعی اور ایک مقتول کی بیٹی اُم رباب نے سندھ کی بڑی سیاسی جماعت پر اپنے والد، دادا اور چچا کے قتل کا الزام عائد کیا تھا۔ وہ سرداری اور جاگیردارانہ نظام کو اپنے پیاروں کا اصل قاتل قرار دیتی ہیں۔ ان تمام واقعات میں پولیس پر سیاسی اثر و رسوخ اور اصل ملزمان کی گرفتاری اور انصاف ملنے کے عمل میں غیر معمولی تاخیر پر مقتولین کے ورثاء صوبائی حکومت اور صوبائی پولیس ہی کو ذمہ دار قرار دیتے آئے ہیں۔
علاوہ ازیں صحافیوں پر انتقامی کارروائیوں کے تحت گزشتہ دو سے تین سال میں انسداد دہشت گردی قوانین کے تحت درجنوں مقدمات قائم کیے گئے جن میں سے اکثر عدالتوں میں جھوٹے اور من گھڑت ثابت ہو چکے ہیں۔
صحافتی تنظیمیں برسرِ اقتدار جماعت پیپلز پارٹی اور سندھ پولیس سے اس پر کئی بار تحفظات کا اظہار کر چکی ہیں۔
سندھ پولیس کے اپنے اہلکار کئی مواقع پر چھٹی نہ ملنے، تبادلے کرنے یا تبادلے رکوانے یا اس جیسے معمولی کاموں کے لیے محکمے کے افسران کو رشوت دینے کی شکایات کرتے نظر آئے ہیں۔ لیکن ایسے افسران کے خلاف کیا کارروائی ہوئی اس کی تفصیلات کم ہی سامنے آئی ہیں۔
انسانی حقوق کمیشن بھی اپنی متعدد رپورٹس میں سندھ میں قانون کی حکمرانی میں خلل اور صوبے میں آئی جی پولیس کی تقرری پر وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے درمیان اختلافات سے پولیس کے شعبے میں پیدا ہونے والی غیر یقینی صورتِ حال پر تشویش کا اظہار کر چکی ہے۔
انسانی حقوق کمیشن کے مطابق نہ صرف یہ بلکہ سیکیورٹی ایجنسیز نے گزشتہ سال اکتوبر میں انسپکٹر جنرل سندھ پولیس کو اغوا کر کے ان پر مسلم لیگ (ن) کے رہنما کیپٹن (ر) صفدر کی گرفتاری کے لیے غیر ضروری دباو ڈالا گیا تھا۔
کمیشن کے مطابق یہ بھی حقیقت ہے کہ سندھ پولیس کے کئی افسران اور اہلکار دہشت گردوں، جرائم پیشہ افراد اور ڈاکوؤں سے لڑتے ہوئے فرض کی ادائیگی میں جانوں کا نذرانہ بھی پیش کر چکے ہیں۔
صوبے میں پولیس پر کوئی سیاسی دباؤ نہیں، مکمل آپریشنل خود مختاری حاصل ہے؛ صوبائی حکومت
دوسری جانب ترجمان حکومت سندھ اور مشیر برائے وزیر اعلیٰ سندھ مرتضیٰ وہاب اس بات سے اتفاق کرتے نظر نہیں آتے کہ صوبے کی پولیس پر کسی قسم کا کوئی سیاسی دباؤ ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ سندھ میں تین سال میں ایک آئی جی تبدیل ہوا جب کہ پنجاب میں سات آئی جیز تبدیل ہو چکے ہیں۔
اُن کے بقول جو لوگ پولیس کے کاموں میں سیاسی مداخلت کی بات کرتے ہیں ہم انہیں حقائق بتا رہے ہیں۔ اگر مداخلت ہوتی تو سندھ میں بھی چھ سات آئی جیز تبدیل ہو چکے ہوتے۔
مرتضی وہاب کہتے ہیں کہ آئی جی جب بھی محکمہ داخلہ کی اسٹینڈنگ کمیٹی کے ساتھ اجلاس میں شریک ہوتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم نے صوبے میں امن و امان کی صورتِ حال کو مثالی بنا دیا ہے۔ مجھے سمجھ نہیں آتا کہ وہ ہمارے سامنے کہتے ہیں کہ صورتِ حال بہترین ہے اور کسی اور ادارے کے سامنے کچھ اور بات کرتے ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ لوگوں کو اپنی ذمہ داری کو سمجھنا چاہیے اور جو ان کا کام ہے وہ انہیں کرنا چاہیے۔ اگر کام ہوتا ہے تو وہ عہدوں پر رہیں اگر کام نہیں ہوتا تو یہ نہ کہیں کہ ہمارے پاس وسائل نہیں ہیں۔
"سندھ میں پولیس کے معاملے میں سیاسی مداخلت حقیقت اور افسوسناک ہے"
سندھ میں نئے پولیس قانون کے تحت بنائے گئے پرونشل پبلک سیفٹی اینڈ کمپلینٹ کمیشن کے آزاد ممبر کرامت علی کا کہنا ہے کہ 14 ماہ ہو چکے ہیں کمیشن کا کوئی اجلاس نہیں بلایا گیا۔
ان کا کہنا ہے کہ یہ خود اس قانون کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے۔ وزیر اعلیٰ سندھ بطور وزیر داخلہ کمیشن کے چئیرمین ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ قانون میں صاف لکھا ہے کہ ہر ماہ میں کمیشن کا کم از کم ایک اجلاس ضروری ہے اور ایمرجنسی میٹنگ بلانے پر بھی اجلاس گھنٹے میں ہونا چاہیے۔
کرامت علی کا کہنا تھاکہ قانون کے تحت صوبے کے ہر ضلع میں اس کا دفتر بننا تھا تاکہ پولیس کے بارے میں شکایات کا فوری ازالہ ممکن بنایا جائے۔ لیکن ایسا اب تک ممکن نہیں ہو سکا۔