افغانستان کے ساتھ دو طرفہ تجارت، سیاسی اور سفارتی تعلقات میں مزید بہتری کے لیے پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان نے ایک خصوصی کمیٹی تشکیل دینے کی ہدایت کی ہے۔
وزیرِ اعظم نے یہ فیصلہ اسلام آباد میں ایک اعلیٰ سطح کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے ایسے وقت میں کیا ہے، جب افغانستان کے ساتھ چمن اور طورخم کی دونوں مصروف سرحدی گزرگاہوں پر کشیدگی پائی جاتی ہے۔
چمن میں مقامی قبائل سرحدی گزرگاہ پر ماضی کی طرح آزاد نقل و حرکت کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ جب کہ طورخم میں افغان حکام گزرگاہ کی دونوں جانب دیوار کی تعمیر پر اعتراض کر رہے ہیں۔
طورخم کی سرحدی گزرگاہ پر حالیہ کشیدگی کے بارے میں صحافی ابوذر آفریدی نے وائس آف امریکہ کو تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ منگل کی صبح جب پاکستان کے حکام نے باڑ کی جگہ دیوار تعمیر کرنی شروع کی تو اس پر افغان حکام نے اعتراض کیا جس کے بعد دو طرفہ آمد و رفت اور تجارت معطل ہو گئی۔
ان کے بقول پاکستان نے سیکیورٹی فورسز کے جدید ہتھیاروں سے لیس اہلکاروں کو الرٹ کر دیا۔ دونوں جانب سیکیورٹی اہلکار بھی مورچہ زن ہو گئے۔ تاہم اعلیٰ حکام نے مذاکرات شروع کیے اور کشیدگی ختم ہوئی۔
ابوذر آفریدی کا کہنا تھا کہ اب بھی دیوار کی تعمیر کا سلسلہ جاری ہے اور دو طرفہ آمد و رفت اور تجارت کا سلسلہ بھی بحال ہو گیا ہے۔
چمن میں دو روز قبل سیکیورٹی اہلکاروں اور مقامی قبائل کے درمیان تصادم کے نتیجے میں دو افراد ہلاک اور 12 زخمی ہوئے تھے۔ بعد ازاں مقامی قبائلیوں نے کوئٹہ میں میتوں کے ہمراہ احتجاجی دھرنا دیا جس کے بعد حکام نے چمن کو دوبارہ دو طرفہ آمد و رفت اور نقل و حرکت کے لیے کھولنے کا اعلان کیا۔
مبصرین کے مطابق 2018 میں اقتدار میں آنے کے بعد سے عمران خان کی کوشش ہے کہ افغانستان سے دو طرفہ تجارت کو فروغ ملے۔ اور اسی مقصد کے لیے اگست 2019 سے طورخم کی سرحدی گزرگاہ کو 24 گھنٹے آمد و رفت اور دو طرفہ تجارت کے لیے کھولا گیا۔ البتہ اس کے باوجود دو طرفہ تجارت میں خاص پیش رفت نہیں ہو سکی۔
خیبر پختونخوا کے چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز کے سابق صدر زاہد اللہ شینواری کہتے ہیں کہ ایک مستقل کمیٹی بننے سے روزانہ کی بنیاد پر سامنے آنے والے مسائل اور معاملات فوری طور پر حل ہوں گے۔ کیوں کہ اعلیٰ سطح کے اجلاس طلب کرنا اور وہاں تک رسائی طویل اور مشکل کام ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس خصوصی کمیٹی کے ذریعے بہت زیادہ مسائل بر وقت حل ہونے میں مدد ملنے کا امکان ہے۔
زاہد اللہ شینواری کہتے ہیں کہ گزشتہ دو ماہ میں ماضی کی نسبت افغانستان سے دو طرفہ تجارت میں اضافہ ہوا ہے۔
واضح رہے کہ سرحدی گزرگاہوں پر بجلی اور انٹرنیٹ کی سہولیات نہ ہونے اور افرادی قوت کی کمی کے باعث تاجر اور دیگر کاروباری افراد کو عمومی طور پر مشکلات پیش آتی ہیں۔