رسائی کے لنکس

بھارت میں اقوامِ متحدہ کی خصوصی کمیٹی کا اجلاس، انسدادِ دہشت گردی کے امور پر تبادلۂ خیال


 سلامتی کونسل کی کمیٹی برائے انسدادِ دہشت گردی (سی ٹی سی) کا بھارت میں دو روزہ اجلاس ممبئی اور نئی دہلی میں ہوا۔ اس دوران اجلاس کے شرکا نے بھارت کی صدر سے بھی ملاقات کی۔
سلامتی کونسل کی کمیٹی برائے انسدادِ دہشت گردی (سی ٹی سی) کا بھارت میں دو روزہ اجلاس ممبئی اور نئی دہلی میں ہوا۔ اس دوران اجلاس کے شرکا نے بھارت کی صدر سے بھی ملاقات کی۔

بھارت کی میزبانی میں سلامتی کونسل کی کمیٹی برائے انسدادِ دہشت گردی (سی ٹی سی) کا اجلاس ممبئی اور نئی دہلی میں جمعے اور ہفتے کو منعقد ہوا، جس میں سلامتی کونسل کے تمام 15 رکن ممالک کے مندوبین نے شرکت کی اور ڈیجیٹل دہشت گردی سے مقابلے پر زور دیا ہے۔

اجلاس میں رکن ممالک کے مندوبین کے علاوہ اقوامِ متحدہ کے عہدے دار، سول سوسائٹی اور پرائیویٹ سیکٹر کے نمائندوں اور محققین نے بھی شرکت کی۔ دہشت گرد گروہوں کی جانب سے ٹیکنالوجی کے استعمال پر تشویش کا اظہار کیا گیا۔ اس حوالے سے دہلی میں ہونے والے اجلاس کے بعد ایک اعلامیہ بھی جاری کیا گیا۔

اعلامیہ میں دہشت گردوں کی جانب سے ڈرونز اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے استعمال اور آن لائن فنڈنگ جیسے امور پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ان چیلنجز سے نمٹنے کے لیے رہنما ہدایات مرتب کرنے کے سلسلے میں بھی تبادلۂ خیال کیا گیا۔

اعلامیہ میں انسانی حقوق کی اہمیت اور دہشت گردی سے نمٹنے میں پبلک پرائیویٹ شراکت داری اور سول سوسائٹی کے اشتراک کا بھی ذکر کیا گیا اور اس کا جائزہ لیاگیا ہے کہ ڈیجیٹل دہشت گردی کے چیلنجز کے مقابلے کے لیے کیا اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ اس نے سی ٹی ای ڈی (کمیٹی کے سیکریٹریٹ) سے کہا ہے کہ وہ تمام شراکت داروں کے ساتھ وسیع تر تبادلۂ خیال کے بعد رہنما ہدایات تیار کرے۔

اعلامیے کے مطابق تمام رکن ممالک نے اس سے اتفاق کیا کہ رہنما ہدایات اور اقدامات انسانی حقوق سے متعلق عالمی قوانین پر مبنی ہوں۔

کمیٹی کے ارکان کی جانب سے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے استعمال جیسے کہ فنڈز کے حصول کے لیے ٹیکنالوجی کے استعمال اور دہشت گرد کارروائیوں کے لیے ڈرونز کے استعمال کو ناکام بنانے کے لیے سفارشات مرتب کی جائیں گی۔

خیال رہے کہ اجلاس میں تین امور پر خصوصی توجہ دی گئی۔ پہلا دہشت گرد گروہوں کی جانب سے انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے استعمال کو روکنا کیوں کہ دہشت گرد گروہ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے ذریعے غلط پروپیگنڈا کرکے نوجوانوں کو گمراہ کر رہے ہیں۔

دوسرا مسئلہ جس کو زیرِ بحث لایا گیا کہ دہشت گردی کے لیے فنڈنگ اور اس کے لیے نئے نظام کے استعمال کو روکنا تھا۔ عمومی طور پر خیال کیا جاتا ہے کہ دہشت گردوں نے ایسی ٹیکنالوجی حاصل کر لی ہے جن کا پتا لگانا مشکل ہوتا جا رہا ہے البتہ بین الاقوامی امور کے تجزیہ کار اور سی ٹی سی کی مشاورتی کمیٹی کے سابق رکن اسد مرزا کہتے ہیں کہ اب یہ اتنا مشکل نہیں ہے۔

اسد مرزا 2016 سے 2018 تک سی ٹی سی کی مشاورتی کمیٹی کے رکن رہے ہیں۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ امریکہ اور بعض دیگر مغربی ممالک کے پاس ایسی ٹیکنالوجی ہیں جن سے ان کا پتا لگایا جا سکتا ہے۔

تیسرا اہم معاملہ جو زیرِ بحث آیا وہ دہشت گردی کے لیے ڈرونز کے استعمال کا تھا۔

اجلاس میں دہشت گرد گروہوں کی جانب سے ڈرونز کے استعمال پر قدغن لگانے پر زور دیا گیا۔

حالیہ دنوں میں دنیا کے مختلف خطوں میں حملوں کے لیے عسکری گروہوں نے ڈرونز استعمال کیے ہیں۔

اس حوالے سے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں اسد مرزا کا کہنا تھا کہ سی ٹی سی کے اجلاس سے ایک روز قبل امریکہ نے اپنی نیشنل سیکیورٹی اسٹریٹجی کا اعلان کیا تھا جس میں ان تینوں موضوعات کو بھی شامل کیا گیا ۔ ان کے مطابق خاص طور پر سائبر حملوں اور اس طرح کی دیگر کارروائیوں، منشیات اور منی لانڈرنگ کی روک تھام جیسے مسائل بھی اس میں شامل کیے گئے۔

انہوں نے مزید کہا کہ یہ اجلاس کئی لحاظ سے اہم تھا۔ سلامتی کونسل کی انسدادِ دہشت گردی کمیٹی نے پہلی بار کسی ترقی پذیر ملک سے اس قسم کااعلامیہ جاری کیا۔

ان کے خیال میں بھارت نے چوں کہ دہشت گردی کے خلاف کافی اہم اقدامات کیے ہیں، جن کو عالمی برادری نے سراہا بھی ہے۔ اس کے علاوہ وہ اس وقت سلامتی کونسل کا چیئرمین ہے، اس لیے یہ اجلاس بھارت میں کیا گیا۔

بھارتی میڈیا میں اس اجلاس کو بڑی اہمیت دی گئی ۔ میڈیا نے بھارت کے وزیرِ خارجہ ایس جے شنکر کے اس بیان کو نمایاں انداز میں شائع کیا ہے جس میں انہوں نے دہشت گردی کے سلسلے میں اشاروں کنایوں میں پاکستان پر تنقید کی تھی۔

جے شنکر نے اپنے خطاب میں کہا تھا کہ انسدادِ دہشت گردی سے متعلق اقوامِ متحدہ کی قرارداد سے ان ممالک پر دباؤ میں اضافہ ہوا ہے جنہوں نے دہشت گردی کو ’اسٹیٹ فنڈیڈ انٹرپرائز‘ بنا لیا ہے۔

بھارت پاکستان پر دہشت گردی کو اپنی خارجہ پالیسی کا حصہ بنانے کے الزامات لگاتا آیا ہے۔ اس کا یہ بھی الزام ہے کہ پاکستان نے ممبئی حملوں کے ماسٹر مائنڈز کے خلاف خاطر خواہ کارروائی نہیں کی۔ اسلام آباد بھی بھارت پر پاکستان میں دہشت گردی کا الزام لگاتا رہا ہے۔

پاکستان کی جانب سے بھارت کے الزامات کی بار بار تردید کی جاتی رہی ہے۔ اسلام آباد کا کہنا ہے کہ اس نے ممبئی حملوں کے ذمہ داروں کے خلاف عدالتی کارروائی کی ہے اور عدالتوں سے ان کو سزائیں بھی سنائی گئی ہیں، جس کی وجہ سے حافظ سعید، ذکی الرحمٰن لکھوی اور ساجد میر وغیرہ جیلوں میں ہیں۔ دوسری طرف نئی دہلی پاکستان کے الزامات کی تردید کرتا رہا ہے۔

سی ٹی سی کے اجلاس میں جے شنکر کے بیان پر پاکستان نے سخت ردِ عمل ظاہر کیا۔

پاکستان کی وزارِت خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ پاکستان اجلاس کے دوران بھارت کے بے بنیاد پروپیگنڈے کو واضح طور پر مسترد کرتا ہے۔ یہ بہت افسوسناک ہے کہ اس نے دہشت گردی مخالف اقدامات کے سلسلے میں پاکستان کے کردار پر عالمی برادری کو گمراہ کرنے کے لیے اس فورم کا استعمال کیا۔ اس کے مطابق بھارت کے بے بنیاد الزامات کی وجہ سے کمیٹی کے مقاصد کو نقصان پہنچا ہے۔

دہشت گردی کے لیے مالی معاونت روکنے سے متعلق عالمی ادارے ’فنانشل ایکشن ٹاسک فورس‘ (ایف اے ٹی ایف) نے انسدادِ دہشت گردی کے سلسلے میں پاکستان کے اقدامات کو منظور کرتے ہوئے حالیہ دنوں میں اسے اپنی گرے لسٹ سے نکال دیا ہے۔

ادھر اسد مرزا کہتے ہیں کہ اسلام آباد چاہتا تھا کہ سی ٹی سی کا اجلاس پاکستان میں منعقد ہو لیکن وہ بھارت کے شہروں ممبئی اور نئی دہلی میں ہوا۔

بعض دیگر مبصرین کے مطابق بھارت چوں کہ سلامتی کونسل کا چیئرمین ہے اس لیے اس کی انسدادِ دہشت گردی کمیٹی کا اجلاس بھارت میں ہوا۔بھارت کے پاس سلامتی کونسل کی صدارت کے صرف دو ماہ باقی ہیں لہٰذا وہ سی ٹی سی کے اجلاس میں دہشت گردی کے خلاف جو ماحول بنا ہے اس کو آگے بھی قائم رکھنے کی کوشش کر رہا ہے۔

بھارت 18 اور 19 نومبر کو ’نو منی فار ٹیرر‘ یعنی دہشت گردی کی فنڈنگ کو روکنے کے سلسلے میں ایک عالمی کانفرنس کی میزبانی کرے گا۔

بھارت 15 اور 16 دسمبر کو انسدادِ دہشت گردی کی عالمی کوششوں پر سلامتی کونسل کی اسپیشل بریفنگ کی بھی میزبانی کرے گا۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG