امریکہ میں بے روزگاری کی شرح ستمبر 1969 کے بعد نچلی ترین سطح پر آگئی ہے۔ امریکی محکمہ محنت کے جمعرات کو جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ ہفتے بے روزگاری الاوئنس کے لیے درخواست دہندہ افراد کی تعداد 184,000 سے کم ہو کر 43,000 ہوگئی ہے۔
یوں چار ہفتوں کے دوران بے روزگاری الاونس حاصل کرنے والوں کی اوسط تعداد کم ہو کر 219,000 تک ریکارڈ کی گئی جو کہ مارچ 2020 میں عالمی وبا کے امریکہ میں پھیلاو کے آغاز کے بعد کی نچلی ترین سطح ہے۔
اسٹیفن اسٹینلے، جو کہ ایمہرسٹ پیئرپونٹ سیکیورٹیز کے اعلیٰ ترین معیشت دان ہیں، کہتے ہیں کہ موسمی اتار چڑھاؤ نے ممکنہ طور پر گزشتہ ہفتے کی بے روزگاری کی شرح میں کمی لانے میں اہم کردار ادا کیا۔
انہوں نے خبر رساں ادارے ایسو سی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ محکمہ لیبر نے چھٹیوں کے دوران ملازمت کے بازار کے اتار چڑھاو کو ظاہر کرنے کے لیے تعداد کو ایڈجسٹ کیا۔ اس موسمی رد و بدل سے قبل بے روزگاری کا الاوئنس حاصل کرنے والے لوگوں کی تعداد درحقیقت تقریباً 64,000 سے بڑھ کرتقریباً 281,000 ہو گئی تھی۔
پھر بھی اسٹینلے ایک تحقیق میں کہتے ہیں کہ بنیادی رجحان کمی کا ہے اور اس رجحان کو عالمی وبا کے پھوٹنے سے پہلے کے مقابلے میں کم ہونا چاہئے۔
وہ کہتے ہیں کہ کارکنوں کی مانگ پوری نہیں ہو رہی اور یہ عالمی وبا کے پہلے کی سطح سے کہیں زیادہ ہے اور دوسری طرف اس وقت کی نسبت برطرفیاں بھی نمایاں طور پر کم دکھائی دیتی ہیں۔
مجموعی طور پر بیس لاکھ سے بھی کم امریکی27 نومبر کو ختم ہونے والے ہفتے میں بے روزگاری کا الاوئنس حاصل کر رہے تھے۔
یاد رہے کہ بےروزگاری کی شرح اس سال جنوری کے ایک ہفتے میں نو لاکھ کی تعداد میں سب سے زیادہ رہی۔ اس کے بعد سے اس میں مسلسل کمی آرہی ہے۔
اب بے روزگاری کی شرح دو لاکھ بیس ہزار فی ہفتہ کی کرونا بحران کے مارچ 2020 سے پہلے کی سطح پر ہے۔
کرونا وائرس سے لاحق ہونے والے مرض کووڈ نائنٹین نے لوگوں کو گھروں میں محصور کردیا تھا جس کے باعث کاروباری سرگرمیوں میں کمی آئی اور کاروباروں نے کارکنوں کے کام کرنے کے دورانیے کم کردیے اور بہت سوں کو برطرف بھی کردیا۔ اس کے علاوہ بہت سے کاروبار بند بھی کردیے گئے۔
گزشہ سال صرف مارچ اور اپریل کے مہینوں میں روزگار کے دو کروڑ چوبیس لاکھ مواقع ختم ہو گئے تھے۔
ان حالات سے نمٹنے کے لیے حکومت نے امدادی پروگرام کا آغاز کیا اور بڑی تعداد میں کووڈ نائنٹین سے بچاو کی ویکسین کی دستیابی کو یقینی بنایا۔
ان اقدامات کی بدولت امریکی معیشت بحالی کی طرف گامزن ہو گئی اور روزگار کے مواقع بھی واپس لوٹ آئے۔ یہ پیش رفت امریکی کاروباروں اور صارفین کے لیے اعتماد افزا ثابت ہوئی اور لوگوں نے اشیا کی خوب خریداری کی۔ زیادہ تر خریداری آن لائن کی گئی۔ بڑے پیمانے پر فروخت ہونے والے سامان میں فرنیچر اور کافی میکرز شامل تھے۔
پچھلے سال اپریل سے اب تک امریکی مارکیٹ میں ایک کروڑ پچاسی لاکھ روزگار کے مواقع بحال ہو چکے ہیں۔
لیکن امریکی معیشت میں اب بھی وہ انتالیس لاکھ روزگار کے مواقعے دستیاب نہیں ہیں جو گزشتہ سال فروری میں کرونا بحران کے آغاز میں موجود تھے۔
اس وقت بھی امریکی معیشت کو کرونا وائرس کی امکرون جیسی نئی اقسام کا سامنا ہے۔
گزشتہ ہفتے لیبر ڈیپارٹمنٹ نے اعلان کیا تھا کہ کاروباروں نے پچھلے ایک ماہ کے دوران دو لاکھ دس ہزار روزگار کے نئے مواقع پیدا کیے۔ اس تعداد کو مایوس کن قرار دیا گیا تھا۔
لیکن ساتھ ہی لیبر ڈیپارٹمنٹ کی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ بے روزگاری کی شرح اکتوبر کی سطح سے 4.6 فیصد سے کم ہوکر میں 4.2 فیصد ہوگئی جوکہ عالمی وبا کے دوران کم ترین سطح ہے۔
لیبر ڈیپارٹمنٹ نے بدھ کو اعلان کیا تھا کہ کاروباری مالکان نے اکتوبر کے مہینے میں ایک کروڑ دس لاکھ روزگار کے مواقع پیدا کیے۔
ڈیپارٹمنٹ نے یہ بھی کہا کہ بیالیس لاکھ لوگوں نے اپنی ملازمتیں چھوڑ دیں۔ ورکرز کا روزگار کے مواقع چھوڑنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ اپنے لیے بہتر مواقع حاصل کرنے کے سلسلے میں پر اعتماد ہیں۔
خیال رہے کہ 6 ستمبر تک، وفاقی حکومت نے بے روزگاری الاوئنس میں 300 ڈالرز کی اضافی ادائیگی اور کارکنوں کو فوائد فراہم کرکے ریاستی بے روزگاری انشورنس پروگراموں کو مکمل کیا تھا۔
یہ اضافی امداد ان ورکرز کو دی گئی تھی جو کم از کم چھ ہفتے بے روزگار رہے تھے۔
امریکہ میں جون 2020 میں تین کروڑ اور تیس لاکھ افراد نے سب سی بڑی تعداد میں بے وفاقی امداد کے ساتھ بے روزگاری الاوئنس حاصل کیا تھا۔