رسائی کے لنکس

پاکستان میں غیر ملکی این جی اوز کی بندش پر مغربی ممالک کا اظہارِ تشویش


اسلام آباد میں غیر سرکاری تنظیم 'سیو دی چلڈرن' کے دفتر کو سیل کیے جانے کے بعد ایک پولیس اہلکار دفتر کے باہر تعینات ہے۔ (فائل فوٹو)
اسلام آباد میں غیر سرکاری تنظیم 'سیو دی چلڈرن' کے دفتر کو سیل کیے جانے کے بعد ایک پولیس اہلکار دفتر کے باہر تعینات ہے۔ (فائل فوٹو)

امریکہ، کینیڈا، جاپان، آسٹریلیا، ناروے، سوئٹزرلینڈ اور یورپی یونین کے سفیروں کی طرف سے لکھے گئے ایک خط میں وزیرِ اعظم پاکستان سے بین الاقوامی امدادی تنظیموں سے متعلق واضح پالیسی اختیار کرنے کی درخواست کی گئی ہے۔

امریکہ اور یورپی ممالک نے پاکستان میں متعدد بین الاقوامی غیر سرکاری تنظیموں (آئی این جی اوز) کو کام سے روکنے پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔

خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق ان تحفظات کا اظہار اسلام آباد میں تعینات مغربی ملکوں کی سفیروں کی طرف سے وزیرِ اعظم عمران خان کے نام لکھے گئے ایک خط میں کیا گیا ہے۔

پاکستانی حکام حالیہ چند ماہ کے دوران ملک میں کام کرنے والی 18 بین الاقوامی غیر سرکاری تنظیموں کو کام بند کر کے ملک چھوڑنے کا حکم دے چکے ہیں۔

'رائٹرز' کی ایک رپورٹ کے مطابق امریکہ، کینیڈا، جاپان، آسٹریلیا، ناروے، سوئٹزرلینڈ اور یورپی یونین کے سفیروں کی طرف سے لکھے گئے ایک خط میں وزیرِ اعظم پاکستان سے بین الاقوامی امدادی تنظیموں سے متعلق واضح پالیسی اختیار کرنے کی درخواست کی گئی ہے۔

ان ملکوں کی سفیروں نے خط میں مؤقف اختیار کیا ہے کہ ان امدادی تنظیموں کو یہ وضاحت نہیں دی گئی کہ حکومت نے کیوں انہیں اپنے آپریشنز بند کرنے کا حکم دیا ہے۔

سفیروں نے ان تنظیموں کی رجسٹریشن کے لیے وضع کیے گئے طریقۂ کار کی شفافیت پر سوال اٹھاتے ہوئے خط میں بین الاقوامی تنظیموں سے متعلق حکومتِ پاکستان کے حالیہ اقدامات پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔

خط میں سفیروں نے مزید کہا ہے کہ "سول سوسائیٹی پر پابندی کی وجہ سے اس بات کا اندیشہ ہے کہ بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی ساکھ متاثر ہو سکتی ہے جس کی وجہ سے ڈونر کمیونٹی اور کاروباری اداروں کے اعتماد کو ٹھیس پہنچ سکتی ہے۔

خط میں مزید کہا گیا ہے کہ عالمی امدادی تنظیموں کو پاکستان میں کام سے روکنے کی وجہ سے ان اداروں میں کام کرنے والے ہزاروں افراد نہ صرف بے روزگار ہو جائیں گے بلکہ لاکھوں کی تعداد میں وہ لوگ بھی اس اقدام سے متاثر ہوں گے جن کی زندگی میں بہتری لانے کے لیے یہ امدادی ادارے کام کر رہے تھے۔

مغربی ملکوں کے سفیروں کی طرف سے وزیرِ اعظم کے نام لکھے گئے اس خط پر تاحال حکومت کے کسی ذمہ دار یا دفترِ خارجہ نے کوئی ردِ عمل ظاہر نہیں کیا ہے۔

لیکن پاکستان کے دفترِ خارجہ کے ترجمان محمد فیصل نے رواں ماہ ایک پریس بریفنگ کے دوران واضح کیا تھا کہ وزارتِ داخلہ آئی این جی اوز کی رجسٹریشن کی موصول ہونے والے درخواستوں کا شفاف انداز میں جائزہ لیتی ہے اور رائج طریقۂ کار کے تحت این جی اوز کو وزارت کے فیصلے کے خلاف اپیل کا حق بھی حاصل ہے۔

ترجمان نے بتایا تھا کہ 144 بین الاقوامی تنظیموں کی درخواستوں کا جائزہ لینے بعد ان میں سے 74 کو کام کرنے کی اجازت دے دی گئی ہے جب کہ متعدد تنظیموں کی طرف سے نئی درخواستوں کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔

لیکن ترجمان نے یہ واضح نہیں کیا تھا کہ دیگر تنظیموں کو کام کرنے کی اجازت کن بنیادوں پر نہیں دی گئی۔

گزشتہ سال کے اواخر میں حکومتِ پاکستان نے 'ایکشن ایڈ' سمیت لگ بھگ 27 بین الاقوامی تنظیموں کو ملک چھوڑنے کا کہا تھا جس کے بعد ان میں سے تقریباً 18 تنظیموں نے حکومت کے فیصلہ کے خلاف متعلقہ حکام سے اپیل کی تھی۔

لیکن بعد ازاں 'ایکشن ایڈ' کے عہدیداروں کے مطابق ان تمام 18 امدادی تنظیموں کی اپیلوں کو مسترد کر دیا گیا تھا اور انہیں بتایا گیا تھا کہ یہ تنظیمیں چھ ماہ کے بعد دوباہ رجسٹریشن کے لیے درخواست دے سکتی ہیں۔

لیکن این جی اوز کے عہدیداروں کا کہنا ہے کہ یہ طریقۂ کار قابلِ عمل نہیں کیونکہ وہ حتمی طور پر یہ نہیں کہہ سکتے کہ دوبارہ درخواست دینے کی صورت میں بھی انہیں کام کرنے کی اجازت دی جائے گی یا نہیں۔

XS
SM
MD
LG