اطلاعات کے مطابق، صوابی پولیس نے شمالی اور جنوبی وزیرستان کے عہدے داروں کو لکھا ہے کہ پشتون تحفظ تحریک کے رہنماؤں کو ’’فوری طور پر گرفتار کیا جائے‘‘۔
جمعے کے روز ’وائس آف امریکہ‘ کی ’اردو سروس‘ سے بات کرتے ہوئے، ’پشتون تحفظ تحریک‘ کے رہنما، سعد عالم محسود نے بتایا کہ اُن کی تنظیم نے ’’لاپتا کارکنان اور اپنے جائز مطالبات کے حق میں صوابی میں جلسہ کیا تھا، جس کے بعد اُن کی گرفتاری کے احکامات جاری کئے گئے‘‘۔
اِس تاثر سے اختلاف کرتے ہوئے، فاٹا سکیورٹی کے سابق سربراہ، برگیڈیئر (ر) محمود شاہ نے کہا ہے کہ ’’تحریک کے لوگ کچھ عرصے سے جس قسم کی باتیں کر رہے ہیں، اُس کو غداری کے زِمرے میں ڈالا جا سکتا ہے۔ اور اس کی وجہ سے اُنہیں عدالت سے سزائیں بھی ہو سکتی ہیں‘‘۔
برگیڈیئر شاہ نے کہا کہ ’’جو لوگ پاکستان سے افغانستان بھاگ گئے ہیں اُن کا دہشت گردی سے تعلق تھا۔‘‘ بقول اُن کے، ’’سرحد پار کرنے والوں کی تعداد آٹھ سے نو لاکھ ہے اور اُن کا تعلق تحریکِ طالبان سے تھا‘‘۔
اُنھوں نے الزام لگایا کہ ’’جن لوگوں کا نام پشتون تحریک نے دیا ہے اُن کا شمار دہشت گردوں میں ہوتا ہے، جو بھاگ کر افغانسان چلے گئے ہیں۔ وہ پاکستان کے خلاف دہشت گردی میں ملوث رہے ہیں‘‘۔
پشتوں تحفظ تحریک کے رہنما، ڈاکٹر سعد عالم محسود نے اس الزام کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر اُن کی تنظیم کو دہشتگردوں کے ساتھ کام کرنا ہوتا تو پاکستان میں ایسی تنطیمیں بڑی تعداد میں موجود ہیں؛ اس کے لیے افغانستان جانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے‘‘۔
اُنھوں نے کہا کہ ’’اکہتر سالہ تاریخ بتاتی ہے کہ جس نے بھی حق کیلے آواز بلند کی اُسے غداری کا الزام دیا گیا۔ لیکن، پھر تاریخ نے ثابت کر دیا کہ الزام لگانے والا خود غدار تھا‘‘۔
ڈاکٹر سعد عالم محسود نے مزید کہا کہ ’’جس بچارے پر الزام لگا وہ تو انسانی حقوق مانگ رہا تھا، قومی حقوق مانگ رہا تھا۔ جمہوری حقوق مانگ رہا تھا‘‘۔
تفصیل کے لیے منسلک آڈیو رپورٹ پر کلک کیجئے: