|
تازہ ترین اطلاعات کے مطابق پاکستان کے صوبے بلوچستان میں پولیو کا ایک کیس سامنے آیا ہے جس سے اس سال پاکستان میں پولیو کیسز کی تعداد 49 ہو گئی ہے۔ پولیو کیسز کے لحاظ سے دوسرا بڑا ملک افغانستان ہے جس میں اس سال پولیو کے 23 کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔ 2023 میں دونوں ہمسایہ ملکوں میں پولیو کیسز کی تعداد چھ، چھ تھی۔
عالمی ادارہ صحت نے پولیو کیسز میں اضافے پر بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس کی وجہ پاکستان سے افغان باشندوں کو بڑے پیمانے پرافغانستان واپس بھجوانا ہے جس سے پولیو کے خاتمے کی کوششوں کو بڑا دھچکہ پہنچا ہے اور آبادی کے ایک بڑے حصے کی نقل و حرکت سے یہ وائرس بھی نہ صرف پاکستان میں بلکہ افغانستان میں بھی پھیلا ہے۔
بحیرہ روم کے مشرقی خطے کے لیے عالمی ادارہ صحت کے ڈائریکٹرحامد جعفری نے بدھ کے روز عالمی سطح پر پولیو کے خاتمے کے پروگرام GPEI کے ایک ایونٹ میں بات کرتے ہوئے کہا،" جب تک آپ پولیو کو مکمل طور پر ختم نہیں کریں گے یہ واپس آتا اور پھیلتا رہے گا اور یہی ہم پاکستان میں دیکھ رہے ہیں جہاں تقریباً نصف اضلاع میں یہ مرض موجود ہے اور افغانستان میں ایک تہائی صوبوں میں یہ انفیکشن موجود ہے۔ "
پناہ گزینوں کے لیے اقوامِ متحدہ کے ہائی کمشنر کے مطابق غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکیوں کےخلاف پاکستان کی کارروائی سے، اگست 2023 سے اب تک 7 لاکھ، 30 ہزار افغان باشندے افغانستان واپس جا چکے ہیں۔
افغانستان میں پولیو ٹیموں پر پابندی
ڈبلیو ایچ او کے سینئیر عہدیدار نے افغانستان میں پولیو کی تازہ ترین صرتِ حال پر بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ انسانی ہمدردی کے متعدد کارکنوں اور شراکت داروں کے ساتھ مل کر افغانستان میں پولیو اور دیگر بیماریوں کے خلاف ویکسینیشن کے فروغ کی کوششیں کر رہے ہیں۔
جعفری نے کہا کہ چونکہ افغان طالبان نے سیکیورٹی کے خدشات کے باعث پولیو ٹیموں پر پابندی لگا رکھی ہے اس لیے گھر گھر جاکر بچوں کو ویکسین پلانا ممکن نہیں رہا۔ تاہم ان کا پروگرام طالبان حکام کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے تاکہ مقامی عہدیداروں کو ایسے چھوٹے چھوٹے پروگرام دوبارہ مہیا کیے جائیں جن میں بچوں کو ویکسین کے مراکز تک لایا جا سکے۔
ستمبر کے مہینے میں طالبان نے جنوبی افغانستان اور قندھار میں گھر گھر جاکر بچوں کو پولیو ویکسین پلانے پر کوئی وجہ بتائے بغیر یکدم پابندی عائد کر دی تھی۔جی پی ای آئی کے ایک نگراں بورڈ نے حال ہی میں کہا ہے کہ طالبان نے یہ پابندی، "نجاسوسی کی خفیہ کارروائیوں پر انتظامیہ کی تشویش" کے باعث لگائی تھی۔
عالمی ادارہ صحت کے عہدیدار حامد جعفری نے کہا کہ پاکستان اور افغانستان کمیونٹی کا اعتماد دوبارہ بحال کرنے کے اقدامات کر رہے ہیں اور تمام بچوں تک پہنچنے کے لیے سیکیورٹی اداروں کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں۔
ویکسین کے بائیکاٹ کی وجوہات
جعفری نے پاکستان میں پولیو کیسز میں اضافے کی مزید وجوہات بتاتے ہوئے کہاکہ اس میں دہشت گردی سے متاثرہ علاقوں میں پولیو کے خلاف ویکسینیشن کی مہم چلانے میں حکام کی ناکامی کا بھی عمل دخل ہے۔
انہوں نے مزید کہا، ان پسماندہ اضلاع کے رہائیشیوں کی خاصی تعداد کی جانب سے ضروری سہولتوں کے فقدان پر الجھن کے باعث اپنے بچوں کو ویکسین پلانے سے انکار سے بھی بچوں میں اس مفلوج کر دینے والی بیماری کی روک تھام میں رکاوٹ پیدا ہوئی ہے۔
پاکستان اور عالمی ادارہ صحت کے عہدیداروں نے کہا ہے کہ بعض علاقوں میں ویکسین کا بائیکاٹ، پولیو کے خلاف مہم کے بارے میں اس غلط پراپیگنڈے کا بھی نتیجہ ہے کہ یہ مہمیں مغربی ممالک کی طرف سے مسلمان بچوں کو اولاد سے محروم کرنے کی سازش ہے۔
اس کے علاوہ تشدد زدہ ان علاقوں میں حکومت مخالف عناصر، پولیو ٹیموں پر اس شبہے میں ہلاکت خیز حملے بھی کرتے ہیں کہ یہ ٹیمیں حکام کے لیے جاسوسی کر رہی ہیں اور عموماً یہ حملے افغان سرحد کے قریبی اضلاع میں کیے جاتے ہیں۔
جعفری نے خبردار کیا کہ اگرچہ وہ پولیو کے خاتمے کے قریب پہنچنے کے لیے پر اعتماد ہیں تاہم پاکستان اور افغانستان میں پولیو میں حالیہ اضافے سے آئندہ سال کیسز میں کمی کی ضمانت نہیں دی جاسکتی۔
عالمی ادارہ صحت کے ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں 1990 کے عشرے میں پولیو کے خلاف ویکسینیشن کی مہمیں شروع ہونے سے پہلے، ہر سال تقریباً 20 ہزار بچے اس مرض کا شکار ہو جاتے تھے۔ 2019 میں پاکستان اور افغانستان میں 176 کیسز کی اطلاع ملی۔ 2021 اور 2022 میں پاکستان میں ایک اور افغانستان میں صرف دو مریض سامنے آئے۔
عالمی ادرہ صحت کے ریجنل ڈائریکٹر حامد جعفری نے امید ظاہر کی ہے کہ غیر محفوظ علاقوں اور پناہ گزین آبادیوں میں اور ان مقامات پر جہاں ویکسین کے خلاف مزاحمت پائی جاتی ہے، پولیو وائرس اب بھی موجود ہے تاہم اس پر بھی آخرِ کار قابو پا لیا جائے گا۔
وائس آف امیریکہ۔
فورم