افغانستان کے انسانی حقوق کے ادارے کا کہنا ہے کہ اس سال افغانستان میں تقریباً تیرہ سو سے زائد شہری ہلاک ہو چکے ہیں جو کہ پچھلے سال کے مقابلے میں پانچ فی صد زیادہ ہیں۔
افغان ادارے انڈپینڈنٹ ہیومن رائٹس کمشن نے اتوار کو اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ ان ہلاکتوں میں 68 فی صد کے ذمہ دار طالبان ہیں جبکہ 23 فی صد ہلاکتیں افغان اور اتحادی افواج کے حملوں کے نتیجے میں ہو ئی ہیں۔ تنظیم کا کہنا ہے کہ عام شہریوں کی باقی ماندہ ہلاکتوں کا ذمہ دار کون ہے اس کا تعین کرنا مشکل ہے۔
پچھلے چند روز میں افغانستان میں تشد د کے واقعات میں تقریباً ایک درجن افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ اتوار کو ایک تازہ خود کش حملے میں افغانستان کے مغربی صوبے ہرات میں پولیس کے تین اہلکار ہلاک اور کئی زخمی ہوئے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ جنوبی صوبے قندھار میں بھی پولیس کے ایک قافلے پر حملے کی اطلاعات ہیں۔
اتوار کو بدخشاں میں میڈیکل ٹیم کے ہلاک کئے جانے والے چھ امریکی، دو افغان ،ایک جرمن اور ایک برطانوی باشندوں کی لاشیں کابل پہنچ گئی ہیں۔ طالبان نے انہیں ہلاک کرنے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے انٹرنیشنل اسسٹنس مشن کے اہلکاروں پر عیسائیت کا پرچار اور جاسوسی کرنے کا الزام لگایا ہے، تاہم امدادی تنظیم نے ان الزامات کی تردید کی ہے۔
تنظیم کے ڈائریکٹر ڈائرک فرینز نے کہا ہے کہ میڈیکل ٹیم نورستان میں آنکھوں کے ایک کلینک میں کام کے بعد کابل واپس آرہی تھی۔ ٹیم کے زندہ بچ جانے والے افغان ڈرائیور نے پولیس کو بتایا ہے کہ اس نے انہیں قرآن پاک کی آیات سنا کر اپنی جان کی بھیک مانگی تھی اس لئے اسے زندہ چھوڑ دیا گیا۔