معروف مدبر اور سابق امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر نے ’واشنگٹن پوسٹ‘ میں ایک مضمون میں لکھا ہے کہ افغانستان سے ایک وسیع تر جنگ کو ہوا دیے بغیر کیونکر واپسی ممکن ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ افغانستان میں امریکہ کا کردار تقریباً اُسی انداز میں ختم ہو رہا ہے جِس طرح دوسری عالمی جنگ کے بعد تین ایسی ہی بے نتیجہ جنگوں میں ہوا تھا۔
اُن جنگوںمیں امریکہ کی شرکت کے لیے وسیع تر اتفاقِ رائے تھا۔ لیکن، یہ ایک ایسا فریب تھا جس کی قلعی اِن جنگوں کے طول پکڑنے کے ساتھ ہی کھلتی چلی گئی اور قومی سطح پرایسی حکمتِ عملی کی تلاش شروع ہوئی جِس میں زورحکمتِ عملی پر کم اور وہاں سے انخلا پر زیادہ تھا۔
کسنجر کہتے ہیں کہ افغانستان میں امریکہ کا نصب العین ایک ایسی حکومت اور قومی سلامتی کا نظام قائم کرنا تھا جو سنہ 2014 تک وہاں سے نیٹو فوجوں کے انخلا تک انتظام سنبھال سکے، جو اب ممکن نظر نہیں آرہا۔
رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق 70فی صد امریکی سمجھتے ہیں کہ امریکہ کو افغانستان سے نکل آنا چاہیئے۔
چناچہ، ہنری کسنجر کہتے ہیں کہ ایک متبادل کی تلاش میں جرمنوں کی سرپرستی میں امریکی عہدے داروں اور طالبان کے سربراہ ملا عمر کے نمائندوں کے مابین مذاکرات ہو رہے ہیں اور بیشتر مبصرین اِسے افغانستان سے لامحالہ واپس نکلنے سے تعبیر کرتے ہیں اور امریکہ کے لیے چیلنج یہ ہے کہ وہ افغانستان میں اپنا مشن ختم کرے تو کہیں ایسا نہ ہو کہ ایک وسیع تر جنگ کے لیے راہ ہموار ہوجائے۔
اُس ملک سے نکلنے کی قابلِ عمل حکمتِ عملی کےلیے مذاکرات میں چار شرائط پوری کرنا ضروری ہیں:جنگ بندی ، تمام یا بیشتر امریکی اور اتحادی فوجوں کی واپسی، ایک مخلوط حکومت کا قیام یا متحارب فریقوں کے درمیان علاقوں کی تقسیم یا پھر دونوں کے درمیان علاقوں کی تقسیم یا پھر دونوں اور اُس پر عمل درآمد کا طریقہٴکار۔ یہ عمل درآمد بہت ضروری ہے اور بہت مشکل بھی۔
ہنری کسنجر کہتے ہیں کہ کئی عشروں کی خانہ جنگی کے بعد امکان نہیں کہ فریقین اپنے آپ کو اِن شرائط کا پابند سمجھیں گے۔ خاص طور پر طالبان مخلوط حکومت پر قبضہ کرنے کی کوشش کریں گے یا جنگ بندی کی خلاف ورزی کریں گے۔
ہنری کسنجر کہتے ہیں کہ سب سے باقوت سپر پاور کی حزیمت کا جو تاثر پیدا ہوگا اُس سے عالمی اور علاقائی جہادی تنظیموں کو شہہ ملے گی کہ وہ 2008ء کے ممبئی حملوں کی طرح کے مزید حملے کریں۔
عراق اور افغانستان سے امریکی واپسی کے بعد امریکی قومی مفادات کا نئے سرے سے تعین ہونا ناگزیر ہے اور اِس کی ابتدا افغانستان میں پائیدار تصفیے سے ہی ممکن ہے۔
امیگریشن
نیو یارک ٹائمز ایک اداریے میں کہتا ہے کہ اوباما انتظامیہ کے اُس پروگرام کی مخالفت بڑھتی جارہی ہے جس کے تحت ہر اُس شخص کے انگلیوں کے نشان جس کے خلاف ریاستی یا مقامی پولیس نے مقدمہ درج کیا ہو، وفاقی ڈیٹا بیس میں بھیجنا ضروری ہوگا تاکہ یہ دیکھا جائے کہ اُس نے امیگریشن کے ضابطوں کی خلاف ورزی تو نہیں کی۔
مثال کے طور پر نیو یارک کی ریاست نے اعتراض کیا ہے کہ اِس کی وجہ سے ایسے لوگ بھی پکڑے جائیں گے جنھوں نے کوئی جرم نہیں کیا ہو اور اِس کی وجہ سے ایسے گواہ سامنے نہیں آئیں گے جنھوں نے جرم ہوتے دیکھا ہو۔
اخبار کہتا ہے کہ اپنے پیش رو جارج بش کی طرح مسٹر اوباما نے بھی تواتر کے ساتھ امیگریشن کے قوانین کے نفاذ کی اسکیموں پر عمل درآمد کروایا ہے۔ لیکن، اُن لاکھوں افراد کو کوئی رلیف نہیں دیا ہے جو اپنی غیر قانونی حیثیت سے جان چھڑانا چاہتے ہیں۔ اخبار کہتا ہے کہ حقیقی اصلاح کے لیے جامع حکمتِ عملی ضروری ہے، یعنی قانون کا سختی کے ساتھ نفاذ۔
تفصیل کے لیے آڈیو رپورٹ سنیئے: