عام انتخابات 2018 کے بعد سے حزب اختلاف کو متحد کرنے کی کوششوں میں سرگرم مولانا فضل الرحمٰن بالآخر ایک سال کی جدوجہد کے بعد حکومت مخالف 'آزادی مارچ' کی صورت میں اسلام آباد پہنچ چکے ہیں۔
حزب اختلاف کی تمام جماعتوں نے مولانا فضل الرحمٰن کے 'آزادی مارچ' کی عملی یا اخلاقی حمایت کی ہے۔ تاہم مبصرین کا کہنا ہے کہ 'آزادی مارچ' میں دیگر جماعتوں کی شرکت انتہائی کم رہی ہے۔
مولانا فضل الرحمٰن نے آزادی مارچ کے بہت سے پہلوؤں کو تاحال دانستہ مبہم رکھا ہے۔ لیکن وزیرِ اعظم عمران خان کے استعفے کے بنیادی مطالبے پر تمام حزب اختلاف کی جماعتوں کی حمایت حاصل ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
مبصرین کے مطابق اسلام آباد میں موسم کی تبدیلی کے ساتھ ہی سیاسی غیر یقینی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ جبکہ شہرِ اقتدار اس وقت کنٹینرز کا شہر دکھائی دے رہا ہے۔
وفاقی وزرا اور خیبر پختونخوا کی حکومت نے پہلے جمعیت علما اسلام (ف) کا 'آزادی مارچ' روکنے کا بیانیہ اختیار کیا۔ تاہم بعد ازاں مذاکراتی کمیٹی تشکیل دی گئی اور معاملات خوش اسلوبی سے طے کرنے پر اتفاق ہوا۔
ماضی میں مہم جوئی کے بجائے افہام و تفہیم سے معاملات حل کرنے والے مولانا فضل الرحمٰن کے انداز کو اس بار مبصرین جارحانہ قرار دے رہے ہیں۔ وہ بار بار کہہ چکے ہیں کہ وزیرِ اعظم کے استعفے کے مطالبے سے پیچھے نہیں ہٹ سکتے۔
Your browser doesn’t support HTML5
مفاہمت سے مزاحمت کی اس سیاست کے حوالے سے تجزیہ کار سلیم بخاری کا کہنا ہے کہ مولانا سمجھتے ہیں کہ اُنہیں دھاندلی کے ذریعے پارلیمانی سیاست سے دور رکھا گیا ہے۔ جبکہ اس کا ذمہ دار وہ اسٹیبلشمنٹ کو قرار دیتے ہیں۔
اپوزیشن جماعتیں مولانا کے ساتھ کیوں ؟
آزادی مارچ کی حمایت کی جائے یا نہیں اور حمایت کی صورت میں شرکت کی نوعیت کیا ہوگی یہ معاملہ اپوزیشن جماعتوں کے لیے کئی دن تک درد سر بنا رہا۔
مولانا فضل الرحمٰن نے جب اکتوبر میں اسلام آباد کی جانب 'آزادی مارچ' کا اعلان کیا تو اپوزیشن جماعتوں کا اصرار تھا کہ اس کی تاریخ میں تبدیلی کرتے ہوئے احتجاج کی تاریخ کو آگے لے جایا جائے۔
Your browser doesn’t support HTML5
جے یو آئی (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے جب مارچ کی تاریخ میں تبدیلی سے انکار کیا تو اپوزیشن قیادت نے مطالبہ کیا کہ دیگر جماعتوں کو اعتماد میں لینے کے لیے اپوزیشن جماعتوں کی مشترکہ رہبر کمیٹی کا اجلاس بلایا جائے۔
مولانا فضل الرحمٰن کے ساتھ اپوزیشن قیادت کی ملاقاتوں اور رہبر کمیٹی کے اجلاس کے بعد مشترکہ اپوزیشن نے آزادی مارچ کی حمایت تو کر دی۔ لیکن اس میں شرکت کی نوعیت اور طریقہ کار وضع نہ کر سکے۔
بلاول بھٹو زرداری نے تو یہاں تک کہا کہ وہ مارچ کی حمایت کرتے ہیں۔ لیکن دھرنے میں ساتھ نہیں دیں گے۔
سیاسی تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ اپوزیشن کی اہم جماعتوں کی اعلٰی قیادت جیل میں ہے اور حکومت مسلسل اُنہیں دباؤ میں لا رہی ہے۔ ایسے میں حزب اختلاف کے پاس احتجاجی سیاست کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے۔
سلیم بخاری کے مطابق اگر اپوزیشن جماعتیں حکومت مخالف مارچ کی حمایت نہیں کرتیں تو موجودہ حالات میں اُنہیں اپنے کارکنوں کی جانب سے شدید دباؤ کا سامنا ہو سکتا تھا اور اسی بنا پر تمام جماعتیں حمایت پر مجبور ہوئیں۔
اپوزیشن جماعتوں کے سربراہ مارچ سے دور کیوں؟
کراچی سے 27 اکتوبر کو شروع ہونے والے احتجاجی مارچ سے اب تک صرف پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے اسلام آباد میں خطاب کیا ہے۔ لیکن جے یو آئی کی قیادت کو توقع ہے کہ حزب اختلاف کی دیگر اعلٰی قیادت بھی احتجاج میں شریک ہوگی۔
جے یو آئی کے سیکریٹری جنرل عبد الغفور حیدری کہتے ہیں کہ اگر حزب اختلاف کی قیادت مارچ میں شریک نہیں ہوتی تو عوام ان سے جواب طلبی کریں گے۔
پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی نسبت اسفند یار ولی، محمود خان اچکزئی، میر حاصل بزنجو اور آفتاب شیر پاؤ کی جماعتیں آزادی مارچ کی زیادہ حامی اور سرگرم دکھائی دیتی ہیں۔
2018 کے عام انتخابات میں مذہبی سیاسی جماعتوں کے اتحاد متحدہ مجلس عمل میں شامل جماعت اسلامی، جے یو آئی (ف) کے 'آزادی مارچ' میں شریک نہیں ہے جبکہ جماعت اسلامی کی جانب سے صرف اخلاقی حمایت پر ہی اتفاق کیا گیا ہے۔
حکومت کی اتحادی جماعت متحدہ قومی موومنٹ نے بھی آزادی مارچ کے شرکا کے لیے کھانا بھیجنے کا اعلان کر رکھا ہے۔
تجزیہ کار زاہد حسین کہتے ہیں کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کا پارلیمٹ کے اندر کردار ہے۔ اس لیے وہ حکومت مخالف مارچ کی حمایت تو کر رہے ہیں لیکن اس حد تک نہیں جائیں گے کہ جمہوری نظام کے عدم استحکام کا خدشہ ہو۔
سلیم بخاری کا کہنا ہے کہ یہ درست نہیں کہ اپوزیشن جماعتیں مارچ سے بالکل الگ تھلگ ہیں۔ البتہ ان کی شرکت نمائشی رہی۔
Your browser doesn’t support HTML5
ان کا ماننا ہے کہ مارچ کے اسلام آباد پہنچنے کے بعد اپوزیشن قیادت اس سے خطاب کرے گی۔ جس کے بعد اگر دھرنے کا فیصلہ ہوا تو حکومت اپنی برداشت کھو سکتی ہے۔
مارچ کے مقاصد اور اہداف!
ماضی میں سیاسی اتحادیوں اور تحریکوں کے بانی مانے جانے والے نواب زادہ نصر اللہ خان کے قریب رہنے والے مولانا فضل الرحمٰن دیگر سیاسی قیادت کے پابند سلاسل ہونے کے باعث حزب اختلاف کے قائد کے طور پر اُبھر رہے ہیں۔
تاحال یہ واضح نہیں ہے کہ جے یو آئی (ف) کا یہ مارچ اسلام آباد میں دھرنے کی صورت اختیار کرے گا یا احتجاجی جلسے کے بعد ختم ہو جائے گا۔
Your browser doesn’t support HTML5
جے یو آئی کے سینئر رہنما اور خیبر پختونخوا کے سابق وزیر اعلیٰ اکرم خان درانی کہہ چکے ہیں کہ اگر وزیرِ اعظم نے استعفی نہ دیا تو وہ اسلام آباد سے واپس نہیں جائیں گے۔
گزشتہ ہفتے ایک غیر رسمی گفتگو میں وائس آف امریکہ کے سوال کہ "صحافی مارچ کے لیے کتنے دن کی تیاری کرکے آئیں؟" کے جواب میں مولانا فضل الرحمان نے مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ کم از کم 30، 40 دن کی تیاری تو کریں۔
'آزادی مارچ' کے بنیادی مطالبات میں وزیرِ اعظم کا مستعفی ہونا اور فوج کی نگرانی کے بغیر نئے انتخابات کا انعقاد ہے۔ جس پر تمام اپوزیشن جماعتیں متفق دکھائی دیتی ہیں۔