اگر آپ کی عمر 14 سے 49 سال کی ہے تو ایک تازہ ریسرچ آپ کو صحت کے ایک بڑے خطرے سے الرٹ رکھنے میں مفید ہو سکتی ہے۔ دنیا بھر کے204 ملکوں کے 29 مختلف اقسام کے کینسرز کے اعدادوشمار کے تجزئے سے ظاہرہواہےکہ گزشتہ تیس سال میں دنیا بھر میں پچاس سال سے کم عمر کے لوگوں میں کینسر کی تشخیص کی شرح تقریباً 80 فیصد بڑھ گئی ہے ۔
اس اضافے کو دیکھتے ہوئے ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ 2030 تک پچاس سال سے کم عمر کے لوگوں میں عالمی سطح پر کینسر میں مبتلا ہونے والوں کی تعداد مزید 31 فیصد بڑھ سکتی ہے ۔
یہ ریسرچ بدھ کو جریدے ’بی ایم جے آن کولوجی‘ میں شائع ہوئی ہے۔ ریسرچ کے مطابق 1990 سے 2019 کے درمیان کینسر میں مبتلا افراد کی تعداد ایک اعشاریہ 82 ملین سے بڑھ کر 3 اعشاریہ 26 ملین ہو گئی تھی۔
ریسرچ سے ظاہر ہوا ہے کہ 2019 میں کینسر سے پچاس سال سے کم عمر کےدس لاکھ سے زیادہ لوگ ہلاک ہوئےجو 1990 کی شرح سے 28 فیصد زیادہ تھی۔
یہ اضافہ کیوں ہوا ؟
یہ اضافہ کیوں ہوا یہ واضح نہیں ہوا ہے ۔ اگرچہ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس میں سے کچھ اضافہ آبادی میں اضافے سےمنسوب کیا جاسکتا ہے ، تاہم سابق ریسرچ سے یہ بھی ظاہر ہوا ہے کہ 50 سال سے کم عمر کےلوگوں میں کینسر کی تشخیص عمومی طور پر بڑھ رہی ہے۔
اس نئی ریسر چ کے محققین کی بین الاقوامی ٹیم نے کہا ہے کہ پچاس سال سے کم عمر کے اس گروپ میں ناقص غذا ، تمباکو اور شراب نوشی ، جینیاتی عوامل ، جسمانی سر گرمی کے فقدان، اور موٹاپے کو کینسر کی وجوہات قرار دیا جا سکتا ہے۔
لیکن وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ابھی تک یہ واضح نہیں ہوا ہے کہ اب کینسر میں پچاس سال سےکم عمرکے افراد کیوں مبتلا ہو رہے ہیں۔
سب سے زیادہ مہلک کینسر
ریسرچ کے مطابق بریسٹ ،نرخرے ، پھیپھڑوں ، آنتوں اور معدے کے کینسر سےسب سے زیادہ اموات ہوئیں ۔ ۔
گزشتہ تیس برسوں میں بریسٹ کینسر کے سب سے زیادہ مریض سامنے آئے تھے ۔ لیکن جس کینسر میں سب سے زیادہ تیزی سے اضافہ ہوا وہ ناک کے آخری اور حلق کے شروع کے حصے کے ملاپ کے مقام کا کینسر ،نیزوفیرنکس کینسر اور پروسٹیٹ کینسر تھا ۔
جگرکے کینسر کی شرح میں سالانہ 2 اعشاریہ 9 فیصد کمی ہوئی ۔
Your browser doesn’t support HTML5
امیر اور غریب ملکوں میں کینسر کی تشخیص
ریسرچرز نے اپنی تحقیق میں Global Burden of Disease کے عنوان سے2019 کی ریسرچ کےاعداد و شمار استعمال کرکے 204 ملکوں کے 29 مختلف اقسام کے کینسرز کی شرحوں کا تجزیہ کیا۔ یہ ادارہ دنیا بھر کے ملکوں میں وقت، عمر اور جنس کو مد نظر رکھ کر بیماریوں اور شرح اموات کا جائز ہ لیتا ہے ۔ تاکہ دنیا بھر میں صحت کے نظاموں کو بہتر بنانے میں مدد فراہم کی جاسکے۔
گلوبل برڈن آف ڈزیز کے ڈیٹا کے تجزیے سے ظاہر ہوا کہ جو ملک جتنا زیادہ ترقی یافتہ تھا وہاں پچاس سال سے کم عمر کےلوگوں میں کینسر کی تشخیص کی شرح اتنی ہی زیادہ تھی ۔
محققین کے مطابق اس سے یہ نتیجہ بھی اخذکیا جاسکتاہے کہ زیادہ امیر ملکو ں میں صحت کی دیکھ بھال کے بہتر نظاموں کی وجہ سے کینسر کی تشخیص جلد تر ہوتی ہے لیکن بہت کم ایسے ملک ہیں جہاں ، پچاس سال سےکم عمر کےلوگوں میں کچھ مخصوص قسم کے کینسرز کی اسکریننگ ہوتی ہے ۔
محققین نے تسلیم کیا کہ کیوں کہ ترقی پذیر ملکوں میں ممکنہ طور پر کینسر کے واقعات اور اس سے ہونےوالی اموات کا مکمل طور پر اندراج نہیں ہوتا اس لیے مختلف ملکوں کے کینسرکے اعداد و شمار میں بہت زیادہ فرق تھا۔
ان ماہرین نے جو اس ریسرچ میں شامل نہیں تھے کہا ہے کہ کینسر کے واقعات کے مقابلے میں اموات کی تعداد میں کم تر اضافے کی وجہ جلد تشخیص اور علاج میں بہتری ہو سکتی ہے۔
یونیورسٹی آف لندن کی ایک ریسرچر ، ڈوروتھی بینیٹ نے کہا ہے کہ دنیا کی آبادی میں 1990 اور 2019 کے درمیان کم و بیش 46 فیصد اضافہ ہوا جسےکینسر کے کچھ بڑھتے ہوئے واقعات کی وجہ قرار دیا جاسکتا ہے۔
کوئینز یونیورسٹی بیلفاسٹ کی دو ڈاکٹروں، ایشلی ہملٹن اور ہیلن کولمین کا کہنا ہے کہ یہ بات انتہائی اہم ہے کہ ان بڑھتے ہوئے واقعات کے پیچھے کارفرما عوامل کا پتہ چلانے کے لئے کام کیا جائے۔
ان کا کہنا ہےکہ اس ریسرچ سے سامنے آنے والے رجحانات کی وجوہات کا ابھی تک پوری طرح سے پتہ نہیں چل سکا ہے اگرچہ رہن سہن کے طریقے بھی ان وجوہات میں شامل ہو سکتے ہیں ۔
اس کے علاوہ ریسرچ کے نئے شعبوں، مثلاً اینٹی بائیوٹک کے استعمال، فضائی آلودگی اور ابتدائی زندگی کے واقعات کو بھی اس کی وجوہات کے طور پر زیر غور لایا جا سکتا ہے ۔
اس نئی ریسرچ کی بنیاد پر ماہرین یہ خدشہ ظاہر کررہے ہیں کہ 2030 تک پچاس سال سے کم عمر کے لوگوں میں عالمی سطح پر کینسر میں مبتلا ہونے والوں کی تعداد مزید 31 فیصد بڑھ جائے گی ۔ ان میں سے بیشتر 40 سے 49 سال کی عمر کے ہوں گے۔
SEE ALSO: کینسر کے علاج میں اگلی بڑی پیش رفت ویکسین کی تیاریکینسر کے علاج میں پیش رفت
سائنس دان کئی دہائیوں کی تحقیق کے بعد اب یہ امکان ظاہر کر رہے ہیں کہ کینسر کے بارے میں تحقیق اہم موڑ پر پہنچ گئی ہے جس کے بعد یہ پیش گوئی کی جا رہی ہے کہ آئندہ پانچ برس میں اس مرض کے لیے متعدد ویکسینز تیار ہو جائیں گی۔
ان ویکسینز کے بارے میں بتایا جا رہا ہے کہ یہ روایتی ویکسینز نہیں ہوں گی جو بیماری کو روکتی ہیں بلکہ یہ ٹیومر کا پھیلاؤ اور کینسر کو واپس آنے سے روکنے کے لیے معاون ہوں گی۔
اس سال جلد کے مہلک کینسر اور لبلبے کے سرطان کے علاج میں حاصل ہونے والی کامیابیوں کے بعد مزید اہداف میں چھاتی اور پھیپھڑوں کے کینسر کا علاج شامل ہے۔
اس سال جون میں شکاگو میں کینسر کے ماہرین کی سب سے بڑی سالانہ کانفرنس میں بتایا گیا کہ پھیپھڑوں کے کینسر میں مبتلا افراد سرجری کے بعد 'ٹیگریسو' نامی گولی کا روزانہ استعمال کریں تو اس سے اموات کا خطرہ نصف ہو جاتا ہے۔ اس کانفرنس کی میزبانی امریکن سوسائٹی فار کلینیکل آنکولوجی نے کی تھی۔
( اس رپورٹ کا مواد اے ایف پی سے لیا گیا ہے۔)