پاکستان میں مون سون کی بارشوں کے بعد اس وقت دیگر وبائی امراض کی طرح ڈینگی مچھر سے متاثر ہونے والوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔
تمام صوبے اور انتظامی علاقے ڈینگی کی لپیٹ میں ہیں البتہ سندھ میں یہ مرض ان دنوں کافی تیزی سے پھیلا ہے اور 15 ستمبر کو صرف ایک ہی دن میں صوبے میں ڈینگی کے ریکارڈ 426 کیسز رپورٹ ہوئے۔
سندھ کے محکمۂ صحت کے اعداد و شمارسے معلوم ہوتا ہے کہ رواں سال ڈینگی سے اب تک 11 افراد ہلاک ہو چکے ہیں جب کہ ڈینگی سے تمام اموات کراچی میں ہوئی ہیں۔
اب تک کے اعداد و شمار کے مطابق کراچی میں رواں سال پانچ ہزار سے زائد ڈینگی کیسز رپورٹ ہوئے ہیں، جن میں سے 2818 یعنی آدھے سے زائد کیسز صرف رواں ماہ سامنے آئے ہیں۔
صوبے کے دیگر ڈویژن میں حیدرآباد میں221 کیسز، میرپورخاص میں 246 کیسز، لاڑکانہ میں 23 کیسز جب کہ سکھر میں 32 کیسز اور شہید بے نظیر آباد میں ڈینگی کے42 کیسز سامنے آ چکے ہیں۔ صوبے بھر میں مجموعی طور پر پانچ ہزار نو سو 58 کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔
محکمۂ صحت کے جاری کردہ اعداد و شمار یہ بھی بتاتے ہیں کہ گزشتہ سال کے مقابلے میں رواں سال ڈینگی کے کیسز کی تعداد میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ 2021 میں جولائی میں صوبے میں ڈینگی سے متاثرہ افراد کی تعداد 189 تھی جو رواں برس جولائی میں362 ریکارڈ کی گئی۔
اسی طرح اگست 2021 میں صوبے بھر میں ڈینگی سے متاثر افراد کی تعداد 288 ریکارڈ تھی جو رواں سال 1336 ریکارڈ کی گئی۔رواں مہینے ستمبر میں اب تک کے اعداد و شمار کے مطابق 3020 افراد ڈینگی سے متاثر ہوچکے ہیں جب کہ گزشتہ سال ستمبر میں یہ تعداد صرف 640 تھی۔
کراچی میں ڈینگی کے بڑھتے ہوئے کیسز کے پیشِ نظر سندھ حکومت نے کرونا کے مریضوں کے لیے قائم وارڈز کو فوری طور پر ڈینگی وارڈز میں تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
اس مقصد کے لیےکراچی میں سول اسپتال، سندھ گورنمنٹ اسپتال، سروسز اسپتال، قطر اسپتال کے علاوہ ابراہیم حیدری، کورنگی، لیاقت آباد، ناظم آباد، نیو کراچی ، سعود آباد کے سرکاری اسپتالوں اور حیدر آباد میں لیاقت یونیورسٹی اسپتال میں ڈینگی وارڈ قائم کیے جا رہے ہیں۔
اس وقت کراچی کے مختلف سرکاری اسپتالوں میں 32 ایچ ڈی یوز موجود ہیں، جنہیں ڈینگی آئسولیشن وارڈ میں تبدیل کیا جائے گا۔
Your browser doesn’t support HTML5
پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن (پی ایم اے) حکومت کے اقدامات کو کافی قرار نہیں دیتی۔ پی ایم اے کے سیکریٹری جنرل ڈاکٹر قیصر سجاد کہتے ہیں کہ ڈینگی بخار پر قابو پانے میں اصل رکاوٹ انتظامیہ کے سست اقدامات ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اگر ٹھیک سے مناسب مچھر مار اسپرے کیا جائے جب کہ یہ عمل مچھروں کی افزائش کے موسم سے پہلے ہو جائے تو کراچی جیسے شہر میں اس بخار کو بااآسانی قابو کیا جاسکتا ہے البتہ اسپرے نہ ہونے کی وجہ سے ڈینگی سے ہر برس ہزاروں افراد متاثر ہوتے ہیں اور پھر کئی لوگ اپنی جانیں بھی کھو دیتے ہیں۔
ڈاکٹر قیصر سجاد نے اس بات کی بھی نشاندہی کی کہ صوبے کے مختلف اضلاع میں سیلابی پانی کھڑے رہنے کی وجہ سے وہاں ڈینگی سیروٹائپ ٹو عام ہوچکا ہے البتہ سیلاب زدہ علاقوں میں کئی ہفتوں بعد بھی پانی نہیں نکالا جاسکا ہے اور وہاں بخار سمیت پیٹ اور جلد کی بیماریوں سمیت دیگر امراض کی رپورٹنگ کا طریقہ کافی کمزور ہے۔
انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ ڈینگی کے کیسز دیگر اضلاع میں کافی کم تعداد میں رپورٹ ہوئے ہیں جب کہ ان کے خیال میں ان کیسز کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہوسکتی ہے۔
طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان ان ممالک کے تجربے سے مدد حاصل کر سکتا ہے جنہوں نے مچھروں کی آبادی کو کامیابی سے کم کرکے ہزاروں افراد کی جانیں محفوظ کی ہیں۔
ڈاکٹر قیصر سجاد کا کہنا تھا کہ اس ضمن میں سری لنکا کی مثال سب کے سامنے ہے جہاں ملیریا اور ڈینگی کے کیسز سب سے زیادہ رپورٹ ہوتے تھے۔
انہوں نے مزید کہا کہ پنجاب میں ڈینگی کے خاتمے کے لیے بھی سری لنکن ماہرین کی ٹیموں نے کافی مدد کی تھی۔ تاہم فوری طور پر اس کے تدارک کے لیے مچھروں کی افزائش کے ٹھکانوں کا خاتمہ کرنا ضروری ہے۔ اس کے لیے پانی جمع نہ ہونے دیا جائے اور اور اگر کہیں پانی جمع ہوتو اس پر مٹی کا تیل چھڑک کر مچھروں کی افزائش کو کسی حد تک روکا جاسکتا ہے۔
دوسری جانب حکومت سندھ نے ڈینگی کے بڑھتے ہوئے کیسز پر قابو پانے کے لیے ماضی میں لاہور میں ڈینگی کیسز پر قابو پانے سے متعلق شہرت رکھنے والے افسر اور چیف کمشنر اسلام آباد کیپٹن ریٹائرڈ عثمان سے بھی مدد حاصل کی ہے۔
ترجمان سندھ حکومت کا کہنا ہے کہ اس مقصد کے لیے صوبائی حکومت نے ڈینگی سے متعلق تمام سرکاری اسپتالوں کے علاوہ نجی اسپتالوں اور لیبارٹریز سے بھی ڈیٹا روزانہ کی بنیاد پر حاصل کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور مریض کی نشاندہی کرکے اس کی رہائش گاہ کے اردگرد اسپرے کو یقینی بنایا جائے گا۔
Your browser doesn’t support HTML5
ترجمان کے مطابق اسپرے اور مؤثر مہم کو یقینی بنانے کے لیے محکمۂ صحت میں اینٹامولوجسٹس بھرتی کیے جائیں گے۔ اسی طرح پنجاب میں ڈینگی پر قابو پانے والے ماہرین کی خدمات کراچی میں بھی حاصل کی جائیں گی۔
علاوہ ازیں ایڈمنسٹریٹر کراچی مرتضی' وہاب کہتے ہیں کہ شہر بھر میں 30 گاڑیاں روزانہ کی بنیاد پر ڈینگی سے بچاؤ کے اسپرےکر رہی ہیں اور شہر کے مختلف علاقوں میں مؤثر اسپرے کیا جا رہا ہے۔
تاہم شہری امور کے ماہرین کے خیال میں 3600 مربع کلومیٹر رقبے سے زائد پر پھیلے ملک کے سب سے بڑے شہر میں اسپرے کے لیے یہ وسائل انتہائی کم ہیں۔