مصر کی صورتحال کے فلسطینی نوجوانوں پر اثرات

مصر کی صورتحال کے فلسطینی نوجوانوں پر اثرات

مشرقی یروشلم، مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی میں رہنے والے فلسطینیوں نے مصر میں ہونے والے زبردست مظاہروں اور سیاسی ہنگاموں کا خیر مقدم کیا ہے۔ مشرقِ وسطیٰ کے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ان ہنگاموں کے نتیجے میں فلسطینی لیڈروں کی ایک نوجوان نسل با اختیار ہو سکتی ہے جو ذاتی وقار اور زیادہ جمہوری مستقبل کی خواہاں ہے۔

مشرقی یروشلم کی رنگا رنگ سڑکوں پر بڑی چہل پہل ہے ۔ فلسطنیوں کے درمیان بات چیت کا موضوع مصر کے حیران کن واقعات ہیں۔ صدر حسنی مبارک کے تین عشروں کے اقتدار کے خلاف مصریوں کی بغاوت اور ان کے اس اعلان سے کہ وہ اگلے انتخاب میں حصہ نہیں لیں گے، مشرقی یروشلم کے لوگ سکتے میں آ گئے ہیں۔ مہدی عبدا لہادی اس علاقے کے ممتاز سیاسی تجزیہ کار ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ فلسطینی رات دن ٹیلیویژن دیکھ رہے ہیں اور انہیں ہر لمحے کی خبر ہے۔ بہتر زندگی اور جمہوریت کے لیئے نوجوان عربوں کا اس طرح اٹھ کھڑے ہوجانا بہت بڑی تبدیلی ہے ۔’’تبدیلی کی لہر موجود ہے اور کوئی نہیں جانتا کہ اس کا اختتام کس طرح ہو گا کیوں کہ یہ بالکل نئی چیز ہے۔ یہ کوئی روایتی یا قدیمی تبدیلی نہیں۔ یہ اعلیٰ یا کاروباری طبقے کی سوچ نہیں۔ یہ نوجوان لوگ اپنا وقار، اپنی عزت ِ نفس چاہتے ہیں۔ ممکن ہے کہ یہ جمہوریت کے اظہار کا نیا طریقہ ہو۔‘‘

اسرائیل کے ساتھ امن مذاکرات میں اور مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی میں فلسطینیوں کے مختلف دھڑوں کے درمیان مصالحت میں صدر مبارک نے جو کردار ادا کیا ہے،اس کی بنا پر بہت سے فلسطینی انہیں اپنا اتحادی سمجھتے ہیں۔ دمتری دیلیانی مشرقی یروشلم میں فتح ریولیوشنری کونسل کے رکن ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ مصر میں شورش کے بارے میں بعض فلسطینیوں کے خیالات ملے جلے ہیں۔’’ہم لوگوں کی آرا اور ان کی ضرورتوں اور مسائل کا احترام کرتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ہی ہم امن کے عمل کے بارے میں ، بہت برسوں سے صدر مبارک کے موقف کی قدر کرتے ہیں۔‘‘

محمد ماؤنا 28 سالہ فلسطینی ہیں جو مشرقی یروشلم مِیں اپنے گھرانے کی کتابوں کی دکان میں کام کرتے ہیں۔ وہ اس امید کا اظہار کرتے ہیں کہ عرب دنیا میں تبدیلی کی یہ لہر پورے علاقے کے لوگوں کے لیئے مفید ثابت ہو گی۔

مغربی کنارے میں ، فلسطین کے صدر محمود عباس نے اپنے وزیروں اور دوسرے سرکاری عہدے داروں کو حکم دیا ہے کہ وہ مصر کی صورت حال کے بارے میں کچھ نہ کہیں۔ فتح ریولیوشنری کونسل کے دیلیانی کہتے ہیں کہ کچھ لوگوں کو تشویش ہے کہ اگر مصر میں سیاسی قیادت میں تبدیلی بہت تیزی سے آتی ہے، تو اس سے اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان امن مذاکرات پر برا اثر پڑے گا۔’’اگر مصر میں تبدیلی بتدریج آئی تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ مصری امن کے عمل کے بارے میں سیاسی مذاکرات جاری رکھ سکتے ہیں۔ اس طرح ممکن ہے کہ امن کے عمل میں مدد ملے ۔ امن کے عمل میں اور دوسرے عرب ملکوں پر اثر انداز ہونے میں،مصر کا کردار بہت اہم ہے۔ مصر کے ساتھ معاملات طے کرنے میں بہت زیادہ احتیاط سے کام لینا چاہیئے۔‘‘

ادھر مشرقی یروشلم کی سڑکوں پرنوجوان لوگ مصر کے بدلتے ہوئے حالات سے خود کو باخبر رکھنے کے لیئے سوشل نیٹ ورکس استعمال کر رہے ہیں۔ مریم اکرموی 33 سالہ فلسطینی کارکن ہیں جو یروشلم سنٹر فار وومن کی ڈائریکٹر ہیں۔ وہ کہتی ہیں’’میرے خدا، مصر تو واقعی جاگ اٹھا ہے ۔ اور یہ بالکل نوجوانوں کی طرح جاگا ہے جو ہائی ٹیک استعمال کر رہےہیں ، فیس بُک استعمال کر رہے ہیں، انٹرنیٹ استعمال کر رہے ہیں، ٹوئٹر استعمال کر رہےہیں۔ مجھے ان پر فخر ہے۔‘‘

تجزیہ کار مہدی عبد الہادی کہتے ہیں کہ مصر کی شورش سے نوجوانوںمیں اعتماد پیدا ہوا ہے ۔ برسوں تک وہ اپنے دل کی بات کہنے سے ڈرتے تھے۔’’مثبت چیز ان کی بیداری ہے ۔ مثبت چیز یہ ہے کہ لوگوں کو صحیح بات معلوم ہو گئی ہے ۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ لوگوں کے دل سے ڈر نکل گیا ہے ۔ اب کسی کو اپنی رائے، اپنا موقف بتانے میں خوف محسوس نہیں ہوتا اور ہر کوئی، خاص طور سے نوجوان نسل، سچ بات کہنے کی قیمت ادا کرنے کو تیار ہے ۔‘‘

عبد الہادی کہتے ہیں کہ ان کے خیال میں آمرانہ حکومت کے خلاف بغاوت سے فلسطینیوں میں اتحاد کا نیا باب کھلے گا اور نوجوان عرب لیڈروں کی نئی نسل کے لیئے راہ ہموار ہو گی۔