خواتین کی حالت پر نظر رکھنے کے لیے قائم کیے گئے کمیشن نے ایک رپورٹ میں سندھ میں ریپ کے قوانین کے غلط استعمال پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
کمیشن کا کہنا ہے کہ اس نے مختلف واقعات کی جب تحقیقات کیں تو معلوم ہوا کہ وہ غلط الزامات پر مبنی تھے۔
کمیشن کا کہنا ہے کہ بدقسمتی سے ایسے کئی واقعات میں زیادتی کے الزامات سیاسی مقاصد کے حصول اور ذاتی جھگڑے نمٹانے کے لیے لگائے گئے۔ جب کہ دوسری جانب یہ بات بھی نوٹ کی گئی کہ جن واقعات میں زیادتی جیسے گھناؤنے جرائم کا ارتکاب واقعتاََ کیا گیا۔ اس میں کئی وجوہات کے باعث کوئی پیش رفت نظر نہیں آئی۔ جن میں گمراہ کن میڈیکل رپورٹس، مقدمے کے اندراج میں غیر معمولی تاخیر، طبی ٹیسٹ میں تاخیر، یا ایف آئی آر میں قانون کی غلط شقوں کا استعمال شامل ہے۔
کمیشن کا مزید کہنا ہے کہ اس نے گزشتہ ایک ماہ کے دوران چھ کیسز کا جائزہ لیا ہے جس میں سے چار ایسے پائے گئے جو سچ نہیں تھے۔ جب کہ دو وہ کیسز جو مستند معلوم ہوتے تھے، انہیں متعلقہ حکام نے نظر انداز کر دیا تھا۔
اسی لیے کمیشن نے اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ صوبے میں ریپ سے متعلق قوانین کا غلط استعمال بڑھتا جا رہا ہے۔
کمیشن کے مطابق مسئلے کی سنگینی کو کسی طور پر بھی کم اہمیت کے حامل قرار نہیں دیا جا سکتا۔ کیوں کہ اس کے انتہائی مضر اثرات سامنے آسکتے ہیں۔
واضح رہے کہ حال ہی میں ضلع دادو میں سامنے آنے والے ایک کیس میں معلوم ہوا کہ ایک سیاسی جماعت سے تعلق رکھنے والے افراد نے مخالف جماعت سے تعلق رکھنے والے فرد کو بدنام کرنے کے لیے ریپ کا الزام عائد کیا۔
پولیس نے کیس درج کیا۔ لیکن تحقیقات کے بعد کمیشن کو معلوم ہوا کہ اس الزام میں کوئی حقیقت نہیں تھی۔ جب کہ کمیشن کے بارہا مطالبے کے باوجود بھی پولیس نے رپورٹ پیش کرنے میں تاخیری حربے استعمال کیے۔
Your browser doesn’t support HTML5
اسی طرح کراچی کے علاقے ملیر میں سامنے آنے والے ایک کیس میں بعض افراد نے خاندانی جھگڑوں کے دوران خواتین سے ریپ کا الزام اپنے مخالفین پر عائد کیا جو تحقیقات کے بعد غلط ثابت ہوا۔
کمیشن کا کہنا ہے کہ قوانین کے غلط استعمال سے معصوم افراد کو جھوٹے مقدمے میں قید کیا جا سکتا ہے جس سے آئین میں دی گئی شخصی آزادیوں پر حرف آتا ہے اور اس سے فوجداری نظامِ انصاف پر اعتماد بھی مجروح ہوتا ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ اس عمل سے اس گھناؤنے جرم کے شکار حقیقی مظلوم کی ساکھ پر منفی اثرات مرتب ہونے کے ساتھ پولیس اور عدالتوں پر یقین میں بھی کمی آتی ہے۔
کمیشن کے مطابق اگر یہی صورتِ حال برقرار رہی تو حقیقی اور غیر حقیقی کیسز میں فرق رکھنے میں کمی آئے گی اور اس طرح اس جرم کا واقعی شکار ہونے والے افراد اپنی کہانی بیان کرنے سے مزید ہچکچاہٹ کا شکار ہوں گے اور حملہ آوروں کے حوصلے مزید بلند ہوں گے۔
'عبوری رپورٹ کے اجرا ہی میں کئی ماہ لگ جاتے ہیں'
کمیشن کی چیئر پرسن نزہت شیریں کا وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ اس صورتِ حال سے نمٹنے کے لیے انہوں نے کئی سفارشات بھی مرتب کرکے بھیجی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ واقعے کے فوری بعد پولیس کو اطلاع ملنے پر کیس کے اندراج کے لیے متاثرہ عورت کی حالت پر عبوری رپورٹ کا فوری اجرا ممکن بنایا جائے۔
انہوں نے بتایا کہ اس وقت عبوری رپورٹ کے اجرا ہی میں کئی کئی دن، حتیٰ کہ کئی ماہ لگ جاتے ہیں جس سے کیس کو خراب کرنے، اس سے جڑے حقائق کو اپنے حق میں کرنے اور رپورٹ میں بے ضابطگیوں کو ممکن بنانے کے لیے راہ ہموار کی جاتی ہے۔
اسی طرح ان کا مزید کہنا تھا کہ اس مقصد کے لیے متعلقہ حکومتی اداروں کی جانب سے عام لوگوں میں شعور اجاگر کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ تاکہ متاثرہ افراد کے سامنے صاف اور واضح قانونی راستہ موجود ہو۔
کمیشن کا کہنا ہے کہ اس کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ تھانے کی سطح پر خواتین سے دوستانہ ماحول پیدا کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کی جائے۔ کیوں کہ بہت سی خواتین اپنی کہانیاں پولیس کو اس خوف سے نہیں بتاتیں کہ ان کی روداد کو مسترد کر دیا جائے گا اور انہیں شرمندگی کا سامنا بھی کرنا پڑسکتا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ متاثرہ افراد کے لیے محفوظ اور آرام دہ قانونی راستہ موجود ہو۔ اس عمل کو جس قدر ممکن ہو سکے سیاست سے دور کیا جائے تا کہ متاثرہ افراد کو انصاف کی فراہمی میں کسی قسم کی پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
کمیشن نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ گزشتہ دو برس کے دوران پانچ مختلف ترامیم اسمبلی میں بحث کے لیے تجویز کی گئیں۔ مگر ابھی تک ان میں سے کسی کو ایجنڈے پر نہیں لایا گیا۔
کمیشن نے سیاسی جماعتوں سے بھی درخواست کی کہ وہ ایسے واقعات میں ہر مرحلے پر مداخلت سے گریز کریں۔ تاکہ مظلوموں کو انصاف تک رسائی میسر ہو اور زیادتی کے مقدمات کو سیاسی ایجنڈے کے طور پر استعمال کیا جائے۔
Your browser doesn’t support HTML5
مبصرین کا کہنا ہے کہ اس بارے میں پولیس کے پاس ایسے کیسز کی تحقیقات کے لیے فنڈ کی بھی کمی کا سامنا ہے۔
'جھوٹا مقدمہ کرنے پر چھ ماہ قید اور جرمانے کی سزاموجود'
ریپ سے متعلق قوانین پر کام کرنے والے ماہر قانون علی پَلھ ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ ان قوانین کا غلط استعمال روکنے کے لیے بھی قانون تو موجود ہے۔ لیکن عدالتوں پر مقدمات کے بے پناہ دباؤ اور پھر پولیس کی ٹھیک تفتیش نہ ہونے سے قوانین کا استعمال نہیں ہو رہا۔
انہوں نے بتایا کہ پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 182 کے تحت کسی بھی شخص کی جانب سے جھوٹا مقدمہ قائم کیے جانے پر اسے چھ ماہ قید اور جرمانے کی سزا بھگتنی پڑ سکتی ہے۔ لیکن عام طور پر اس قانون کا استعمال نہیں کیا جاتا۔ جب کہ پولیس اس شق کے تحت مقدمہ قائم کیے جانے کی بھی حوصلہ شکنی کرتی ہے۔ کیوں کہ اس سےخود پولیس کے خلاف بھی کارروائی کی بنیاد فراہم ہوتی ہے۔
ماہر قانون علی پَلھ ایڈووکیٹ نے مزید کہا کہ ریپ قوانین کے غلط استعمال کی ایک اور بڑی وجہ تفتیش کا بوسیدہ نظام ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ تفتیشی افسران نے آج تک جدید ٹیکنالوجی کا استعمال عام نہیں کیا۔ جب کہ عدالتوں میں جو ثبوت پیش کیے جاتے ہیں ان میں اب بھی زیادہ تر انحصار جدید فرانزک ثبوتوں کے بجائے زبانی گواہی پر ہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس مقصد کے لیے تربیت کے ساتھ فنڈز کی کمی بھی آڑے آتی ہے۔
اعداد و شمار کے مطابق سندھ میں 2019 کے دوران 305، جب کہ 2020 میں 344 زیادتی کے مقدمات درج کیے گئے۔
اسی طرح 2019 میں صوبے میں گینگ ریپ کے 67 کیسز رپورٹ ہوئے۔ جب کہ سال 2020 میں ایسے واقعات کی تعداد 54 رہی۔
وکلا کے مطابق ان واقعات میں ملوث ملزمان کو سزائیں ملنے کا تناسب 10 فی صد سے بھی کم ہے۔