پاکستان کی حکومت نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کر دیا ہے جس کے بعد پیٹرول کی نئی قیمت 123 روپے 30 پیسے اور ڈیزل کی نئی قیمت 120 روپے چار پیسے فی لیٹر ہو گئی ہے۔
حکومتی اعلان کے مطابق پیٹرول کی قیمت میں پانچ روپے جب کہ ڈیزل کی قیمت میں پانچ روپے ایک پیسے فی لیٹر اضافہ کیا گیا ہے۔
اسی طرح مٹی کے تیل کی قیمت پانچ روپے 46 پیسے اور لائٹ اسپیڈ ڈیزل کی قیمت پانچ روپے 92 پیسے فی لیٹر بڑھائی گئی ہے۔
قیمتوں میں اضافے کے بعد مٹی کے تیل کی قیمت 92 روپے 26 پیسے اور لائٹ ڈیزل 90 روپے 69 پیسے فی لیٹر تک پہنچ گئی ہے۔
مبصرین کے مطابق حکومت نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ایسے وقت میں کیا ہے جب ملک میں پہلے سے مہنگائی میں مسلسل اضافہ ہو رہا یے۔
معاشی امور کے ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ پیٹرول کی قیمت میں بڑا اضافہ اور روپے کی قدر میں کمی، مہنگائی کی ایک نئی لہر کو جنم دے گی۔
کیا پاکستان غذائی قلت کی طرف بڑھ رہا ہے؟
بعض مبصرین کے مطابق پاکستان میں حالیہ برسوں میں غذائی اشیا کی قیمتوں میں اضافے کا رجحان خطے کے دیگر ممالک کی نسبت زیادہ رہا ہے جس کے سبب پاکستان غذائی قلت کی طرف بڑھ رہا ہے۔
سال 21-2020 میں بھی پاکستان میں غذائی اشیا کی قیمتوں میں اضافہ بھارت اور بنگلہ دیش کے مقابلے میں زیادہ ہے۔
حکومت غذائی اشیا میں اضافے کو کرونا وائرس کے باعث عالمی سطح پر ہونے والی مہنگائی سے جوڑتی ہے جب کہ وزیرِ اعظم عمران خان مہنگائی میں کمی کے لیے کارٹلائزیشن کے خاتمے پر زور دیتے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
مبصرین کا خیال ہے کہ کھانے پینے کی اشیا کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ صرف کرونا وائرس نہیں بلکہ حکومتی پالیسیاں بھی ہیں۔
پاکستان میں مہنگائی بھارت و بنگلہ دیش سے زیادہ
سال 2020 اور 2021 کے اعداد و شمار کا جائزہ لیا جائے تو اس عرصے میں ہر ماہ پاکستان میں مہنگائی بھارت اور بنگلہ دیش سے زیادہ رہی ہے۔
رواں سال جنوری میں پاکستان میں مہنگائی کی شرح 6.6 فی صد کے مقابلے میں بھارت میں 1.89 اور بنگلہ دیش میں 5.2 فی صد رہی۔
فروری میں پاکستان میں مہنگائی کی شرح 9.3 فی صد، بھارت میں 3.8 فی صد اور بنگلہ دیش 5.4 فی صد رہی۔
مہنگائی کی یہ شرح مارچ میں پاکستان میں 11.5 فی صد بھارت میں 4.9 فی صد اور بنگلہ دیش میں 5.5 فی صد رہی جب کہ اپریل میں پاکستان میں مہنگائی کی شرح 15.9 فی صد، بھارت میں 2.02 فی صد اور بنگلہ دیش میں 5.6 فی صد تھی۔
مئی اور جون میں بھی بھارت اور بنگلہ دیش کے مقابلے میں پاکستان میں مہنگائی کی شرح زیادہ رہی جو کہ پاکستان میں 16.2 فی صد بھارت پانچ فی صد اور بنگلہ دیش 4.9 فی صد جب کہ جون میں پاکستان میں 10.4 فی صد، بھارت میں 5.1 فی صد اور بنگلہ دیش میں 5.5 فی صد ریکارڈ کی گئی۔
اسی طرح جولائی میں پاکستان کی 8.2 فی صد مہنگائی کی شرح کے مقابلے میں بھارت میں 3.9 فی صد اور بنگلہ دیش پانچ فی صد اشیا خورو نوش کی قیمتوں میں اضافہ رہا۔
پاکستان میں مہنگائی خطے کے دیگر ممالک کی نسبت کہیں زیادہ رہی ہے۔ خاص طور پر خورنی اشیا آٹا، چینی، گھی، دالیں، آلو، پیاز، ٹماٹر، گوشت کی قیمتیں بڑھی ہیں۔
معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ عالمی وبا کے باعث پوری دنیا میں مہنگائی میں اضافہ ہوا ہے البتہ خطے کے دیگر ممالک کے مقابلے میں پاکستان میں اشیا خور و نوش میں زیادہ اضافہ ہوا ہے کہ اس میں عالمی وبا کے علاوہ دیگر وجوہات بھی شامل ہیں۔
ماہرین کے مطابق پاکستان میں ایک اوسط آمدنی والا گھرانہ مہنگائی میں اضافے کے باعث آمدنی کا 46 فی صد خوراک پر صرف کرتا ہے۔ خوراک پر اخراجات میں گزشتہ ایک سال میں 16 فی صد اضافہ ہوا ہے۔ مارچ 2020 میں 30 فی صد خرچ کرنے والا گھر اپریل 2021 میں 46 فی صد کھانے پینے پر صرف کرتا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
معاشی امور کے ماہر علی خضر کہتے ہیں کہ مہنگائی کا رجحان اگرچہ عالمی سطح پر دیکھا گیا ہے۔ البتہ پاکستان میں روپے کی قدر میں بہت زیادہ کمی کے باعث اس کے اثرات خطے کے دیگر ممالک کی نسبت زیادہ دیکھائی دیے۔
انہوں نے کہا کہ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قیمت میں 40 فی صد سے زائد گراوٹ نے حکومت کے لیے مہنگائی کو قابو میں رکھنا مشکل بنا دیا ہے۔
مہنگائی کے سبب پاکستان میں غذائی قلت کا اندیشہ
عالمی بینک کے مطابق پاکستان میں حالیہ مہینوں میں خورنی اشیا کی قیمتوں میں مسلسل اضافے کے سبب آبادی کا بڑا حصہ غذائی قلت کی طرف بڑھ رہا ہے۔
عالمی بینک کے کنٹری ڈائریکٹر ناجی بنہاسین کے مطابق صحت بخش غذا تک رسائی نہ ہونے کے باعث 68 فی صد آبادی غذائیت کی کمی کا شکار ہو رہی ہے اور اشیا خور و نوش کی قیمتوں میں حالیہ اضافے نے صورتِ حال کو مزید مخدوش بنا دیا ہے۔
عالمی بینک کے مطابق پاکستان میں مئی 2020 سے لے کر مئی 2021 تک کھانے پینے کی اشیا 14.8 فی صد مہنگی ہوئی ہیں۔
مہنگائی کے اسباب کیا ہیں؟
معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ مہنگائی کی ایک وجہ روپے کی قدر میں کمی ہے۔ کیوں کہ پاکستان میں خوردنی اشیا بڑی مقدار میں باہر سے درآمد کی جاتی ہیں۔
ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ حالیہ ہفتوں میں روپے کی قدر میں ہونے والی کمی سے مہنگائی میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔
دوسری جانب حکومت کا کہنا ہے کہ عالمی سطح پر خوردنی اشیا کی قیمتوں میں ہونے والے اضافے کے باعث ملک میں مہنگائی واقع ہوئی ہے۔ وزیرِ اعظم عمران خان یہ بھی سمجھتے ہیں کہ اشیا خورد و نوش کی قیمتون میں اضافے کی وجہ کارٹیلائزیشن ہے۔
ایک حالیہ سروے میں 75 فی صد پاکستانیوں نے بھی مہنگائی کو سب سے بڑا مسئلہ بتایا ہے۔
پاکستان کے وفاقی وزیرِ خزانہ شوکت ترین نے اشیا خور و نوش میں مہنگائی کو دیکھتے ہوئے آٹا، گھی، چینی اور دالوں پر کیش سبسڈی دینے کا اعلان کیا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
ان کا کہنا ہے کہ عالمی وبا کی وجہ سے اشیا خور و نوش کی فراہمی متاثر ہوئی اور اس کے منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ حکومت کسان سے ریٹیلر تک قیمتوں کا تعین اور رواں ماہ سے ہی آٹے، چینی، گھی اور دالوں کے لیے کیش سبسڈی دی جائے گی۔
انہوں نے کہا کہ اس سبسڈی سے نچلے طبقے کے 40 فی صد عوام استفادہ کریں گے۔
وزیرِ خزانہ کا کہنا تھا کہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے پاس جانے کی وجہ سے روپے کی قدر کم ہوئی اور روپے کی قدر کم ہونے سے بھی مہنگائی میں اضافہ ہوا۔
معاشی امور کے ماہر علی خضر کہتے ہیں کہ حکومت کا ٹارگٹڈ سبسڈی دینے کا فیصلہ اچھا اقدام ہے جس سے غریب کو کچھ سہولت مہیا ہوگی۔
تاہم وہ سمجھتے ہیں کہ حکومت کو عام آدمی کی آمدن میں اضافے کے لیے اقدامات پر توجہ دینی چاہیے جس کے لیے معاشی سرگرمیاں بڑھانی ہوں گی۔