چند ماہ پہلے تک ماہرین جوہری توانائی کی صنعت کو ترقی دینے کی باتیں کر رہے تھے اور اسے تیل اور کوئلے سے پیدا کی جانے والی بجلی کے مقابلے میں شفاف اور محفوظ توانائی کے حصول کا ایک ذریعہ سمجھا جانے لگا تھا۔ لیکن پھر گیارہ مارچ کے زلزلے اور سونامی سےجاپان کے فوکوشیما جوہری ری ایکٹر کو پیش آنے والے حادثے اور بڑے پیمانے پر تابکاری کے اخراج نے دنیا بھر میں جوہری توانائی کے مستقبل پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔
سونامی میں حادثے کا شکار ہونے والے فوکوشیما جوہری پلانٹ کو صاف کرنے اور اس کے تابکاری اثرات پر قابو پانے کے لئے اگر سال نہیں تو کئی ماہ لگیں گےمگر ماہرین اربوں ڈالر کی جوہری صنعت پر اس واقعے کے اثرات کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔ کچھ تو اس کے بالکل بند ہونے کے امکان کو سنجیدگی سے لے رہے ہیں۔ مگر توانائی کے ایک امریکی ادارے کے ڈائریکٹر ایڈرین ہیمر کا خیال ہے کہ اس کی نمو جاری رہے گی۔ ان کا کہناہے کہ جاپان میں حادثے کے بعد بھی جوہری توانائی میں ترقی جاری رہے گی۔ مگر آئندہ دو تیں سال تک ترقی کی رفتار سست رہے گی۔
امریکہ میں 1979ٕءمیں ریاست پینسلوانیا کے تھری مائیل آئی لینڈ جوہری پلانٹ میں حادثے کے بعد سےگزشتہ32 سال میں ملک میں ایٹمی تونائی کاکوئی نیا پلانٹ تعمیر نہیں کیا گیا۔ ماحولیات کے بارے میں تحفظات اور تابکاری اثرات کے اخراج سے صحت عامہ کو خطروں اور توانائی کے متبادل ذرائع کی دریافت کے پیش نظر جوہری توانائی کا استعمال زیادہ مقبول نہیں ہوا اور کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ جاپان میں پیش آنے والا حالیہ جوہری حادثہ توانائی کے اس ذرائع کے خاتمے کا سبب بن سکتا ہے۔
مگر جوہری توانائی کے حامیوں کا کہنا ہے کہ اس طرح کے حادثوں کی تعداد بہت کم ہے۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ موسمیاتی تبدیلیوں ، فضائی آلودگی اور کاربن سے پاک توانائی کے حصول میں جوہری توانائی ایک اہم کردار ادا کر رہی ہے۔ واشنگٹن میں ایک تھنک ٹینک بروکنگز انسٹی ٹیوشن سے منسلک توانائی کے ماہر چارلس ابنگر کا کہنا ہے کہ جوہری توانائی ختم کرنے سے توانائی کے قدرتی ذرائع پر بوجھ بڑھے گا۔ انہوں نے کہا کہ دنیا بھر میں توانائی کے استعمال میں جوہری توانائی کی شرح 14فی صد ہے اور اگر ہم اس صنعت کی ترقی کا کام چھوڑ دیتے ہیں تو مستقبل قریب میں توانائی کے قدرتی ذرائع کے استعمال پر بوجھ مزید بڑھ جائے گا۔
جوہری توانائی کے جدید پلانٹ کی تعمیر پر اربوں ڈالر لاگت آتی ہے اور اس کی کام شروع کرنے کی منظوری حاصل کرنے میں کئی سال لگتے ہیں۔اسی وجہ سے کئی ممالک میں نئے اور پرانے پلانٹس کی منظوری پر سوال اٹھائے جانے لگے ہیں۔ اور فوکوشیما میں حادثے کے بعد کئی ممالک میں یہ رد عمل دیکھنے میں آیا ہے۔
پہلے تو جرمنی نے کہا تھا کہ وہ اپنے سات جوہری پلانٹس بند کردے گا مگر اب وہاں اس سے آگے بڑھ کر جوہری توانائی کے مستقبل اور ملک میں نئے پلانٹس کی تعمیر پر سوال اٹھا رہے ہیں۔
بھارت اور چین جیسے ممالک جنہیں فضائی آلودگی اور موسمیاتی تبدیلیوں کا سامنا ہے توانائی کے قدرتی ذرائع میں بے حد زیادہ سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔
چین جو جوہری توانائی کے استعمال کے لئے 23ری ایکٹرز پر کام رہا ہے اور 60 سے 70 مزید ری ایکٹروں کی منصوبہ بندی بھی کی جارہی تھی۔ لیکن اب چین نے یہ کہا ہے کہ وہ ان پر کام کی رفتار سست کرکے ان کے حفاظتی اقدامات پر نظرثانی کرے گا۔
امریکہ میں تھری مائیل آئی لینڈجوہری پلانٹ میں حادثے کے بعد اس صنعت پر کافی منفی اثرات مرتب ہوئے۔ جوہری توانائی کے لئے مرکزی حکومت کے نگراں ادارے نیشنل ریگولیٹری کمشن نے بھی نئے جوہری پلانٹس کے لئے کوئی لائسنس جاری نہیں کئے۔
چھ سال قبل چار نئے جوہری پلانٹس کے لئے قرضوں کا قانون منظور کیا گیا مگر اس کے باوجود امریکہ میں صرف ایک پلانٹ زیر تعمیر ہے۔ اس وقت نیشنل ریگولیٹری کمشن کے پاس 20 پلانٹس کے لئے درخواستیں موجود ہیں مگر ان پر کام بہت آہستہ ہو رہا ہے اور ان کے حمامی بھی ان کے لئے زور نہیں لگا رہے ۔
مگر حقیقت یہ ہے کہ لوگوں کو بجلی کی ضرورت ہے اور بہت زیادہ چاہئے۔ توانائی کے عالمی ادارے کے مطابق سن 2050 تک دنیا میں بجلی کی طلب تین گنا زیادہ ہو جائے گی جس کے لئے توانائی کے شعبے میں تین سو پچاس کھرب ڈالر کی سرمایہ کاری درکار ہوگی۔