حکومت اور کالعدم ٹی ٹی پی کے درمیان مذاکرات کی ناکامی؛ 'ہمارا خاندان مزید جنگ سے بے زار ہو چکا ہے'

فائل فوٹو

پاکستان کے ضلع سوات کے علاقے مٹہ کے ایک گاؤں کے رہائشی محبوب حسین پُرامید تھے کہ حکومتِ پاکستان اور کالعدم شدت پسند تنظیم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے درمیان مذاکرات کے بعد افغانستان میں مقیم ان کے رشتہ دار اپنے گھروں کو واپس آ سکیں گے۔ لیکن ان کی تمام امیدیں ایک ماہ بعد ہی دم توڑ گئیں۔

محبوب حسین کے رشتہ دار افغانستان کے سرحدی صوبے کنڑ میں 2010 سے آباد ہیں جو واپس پاکستان آکر زندگی گزارنے کے خواہش مند ہیں۔

محبوب حسین گزشتہ دس برسوں میں تقریباً چھ مرتبہ اپنے قریبی رشتہ داروں، جن میں بڑی بہن، چچا اور ماموں زاد بھائی شامل ہیں، سے ملنے کنڑ جا چکے ہیں۔

وائس آف امریکہ سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 'گیارہ بارہ سالوں سے بے گھر ہونے والا ان کا خاندان مزید جنگ سے بے زار ہو چکا ہے اور اپنے آبائی علاقوں میں واپس آنے کے لیے بے چین ہے۔"

خیبر پختونخوا کے ضلع سوات میں مولانا فضل اللہ کی قیادت میں فعال طالبان شدت پسندوں کے خلاف 2009 میں فوجی آپریشن کے بعد شدت پسندوں کی ایک بڑی تعداد یا تو ہلاک ہوئی یا انہیں گرفتار کر لیا گیا تھا۔

البتہ ہزاروں کی تعداد میں طالبان شدت پسند او ان کے حامیوں کو اپنے خاندانوں کے ہمراہ جانیں بچانے کی غرض سے سوات چھوڑنا پڑا جو ملک کے مختلف حصوں خصوصاً شمالی وزیرستان، کراچی اور پنجاب کے اضلاع سے نقل مکانی کرتے ہوئے بالاخر افغانستان کے سرحدی صوبے کنڑ کے مختلف اضلاع میں رہنے لگے۔

SEE ALSO: کیا طالبان حکومت کالعدم ٹی ٹی پی کی پاکستان مخالف کارروائیوں سے صرف نظر کر رہی ہے؟

طالبان سے وابستگی اور حمایت کے سبب سوات میں ان خاندانوں کے مکانات فوجی اہلکاروں اور 'علاقہ معززین' پر مشتمل ولیج کمیٹیوں کی جانب سے سزا کے طور پر مسمار کر دیے گئے تھے۔

حکومتِ پاکستان اور کالعدم ٹی ٹی پی کے درمیان مذاکرات کے نتیجے میں نو نومبر 2021 کو ابتدائی طور پر ایک ماہ کی جنگ بندی کا اعلان کیا گیا تھا۔ مگر ایک ماہ کے بعد 10 دسمبر کو ٹی ٹی پی نے یہ کہہ کر جنگ بندی کے خاتمے کا اعلان کر دیا تھا کہ مذاکرات کے دوران جن فیصلوں پر اتفاق ہوا تھا، ان پر عمل درآمد نہیں کیا گیا۔ لیکن حکومتِ پاکستان کی جانب سے باضابطہ طور پر کوئی بیان سامنے ںہیں آیا۔

مذاکرات ناکام کیوں ہوئے؟

کالعدم ٹی ٹی پی نے دعویٰ کیا تھا کہ 25 اکتوبر 2021 کو کابل میں قائم طالبان کی حکومت، جسے اسلامی امارات افغانستان کہا جاتا ہے، کی ثالثی میں حکومت کے ساتھ چھ نکاتی معاہدے پر اتفاق ہوا تھا جس میں پاکستانی جیلوں میں قید ٹی ٹی پی کے 102 اراکین کی رہائی شامل تھی۔

بیان میں مزید کہا گیا کہ حکومت طے شدہ معاہدوں پر عمل درآمد کرنے کے بجائے ڈیرہ اسمٰعیل خان، لکی مروت، سوات، باجوڑ، صوابی اور شمالی وزیرستان میں چھاپے مار کر ان کے اراکین کو ہلاک اور حراست میں لے رہی ہے۔

حکومتِ پاکستان کی جانب سے کالعدم ٹی ٹی پی کے ساتھ ہونے والے معاہدے کی تفصیلات اور خاتمے کے اسباب کی وجہ بتائی نہیں جا رہیں۔ البتہ پاکستان فوج کے ترجمان میجر جنرل بابر افتخار نے چھ جنوری کو پریس بریفنگ کے دوران کالعدم ٹی ٹی پی سے متعلق ایک سوال کے جواب میں کہا تھا کہ شدت پسند تنظیم کے ساتھ نو دسمبر کو جنگ بندی ختم ہو چکی ہے، ان سے کسی قسم کی بات چیت نہیں ہو رہی اور ان کے خلاف آپریشن جاری ہے۔

اسلام آباد اور کالعدم ٹی ٹی پی کے درمیان مذاکراتی عمل سے باخبر پشاور میں مقیم صحافی ارشد یوسف زئی کے مطابق دونوں فریقوں کے درمیان اعتماد کے فقدان کی وجہ سے یہ مذاکرات ناکام ہوئے۔

Your browser doesn’t support HTML5

’حکومتِ پاکستان اور ٹی ٹی پی میں ماضی کے معاہدے دیرپا ثابت نہیں ہوئے‘

وائس اف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اعتماد سازی کی فضا بحال کرنے کے لیے ٹی ٹی پی نے اپنے چار رہنماؤں مسلم خان، محمود خان، مولوی عمر اور لطیف اللہ محسود کو پاکستانی جیلوں سے رہائی کی شرط رکھی تھی۔

ان کے بقول، " پاکستان سمیت دنیا کے کسی بھی ملک نے کابل میں قائم طالبان حکومت کو تسلیم نہیں کیا اس لیے حکومتِ پاکستان قانونی طور پر ٹی ٹی پی کے قید رہنماؤں کو طالبان حکومت کے حوالے نہیں کر سکتی۔"

ٹی ٹی پی کے امور سے باخبر جنوبی وزیرستان کے ایک مذہبی رہنما اس حوالے سے کہتے ہیں کہ بین الاقوامی اور مقامی قانونی پیچیدگیوں کو دیکھتے ہوئے پاکستانی حکومت کی جانب سے یہ تجوی زپیش کی گئی تھی کہ ٹی ٹی پی کے چار اہم رہنماؤں کو پشاور میں ہی رہا گیا جائے گا جہاں افغان طالبان کا ایک وفد ان کے ساتھ رہے گا۔

سیکیورٹی کی بنیاد پر نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر انہوں نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ٹی ٹی پی اس بات پر بضد تھی کہ ان کے قیدی رہنماؤں کو افغانستان پہنچایا جائے۔

ان کے بقول دسمبر کے اوائل میں ٹی ٹی پی کی مذاکراتی ٹیم کے اراکین افغانستان کے صوبہ خوست میں طے شدہ مقام پر مذاکرات کے لیے تین روز تک انتظار کرتے رہے مگر پاکستانی حکومت کے اراکین نہیں آئے۔

جنوبی وزیرستان کے مذہبی رہنما بھی سوات کے رہائشی محبوب حسین سے اس بات پر اتفاق کرتے ہیں کہ افغانستان میں آباد شدت پسندوں سے تعلق کی بنا پر نقل مکانی کرنے والے گھرانوں کی اکثریت پاکستان واپس آنے کی خواہش مند ہے مگر ٹی ٹی پی کی قیادت انہیں ایسا کرنے سے روک رہی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ گزشتہ سال کے اوائل میں سوات، باجوڑ اور مہمند کے اضلاع میں ٹی ٹی پی کی نچلی سطح کے شدت پسندوں نے واپسی کے لیے مقامی انتظامیہ سے بات چیت بھی شروع کی تھی مگر افغانستان میں طالبان حکومت کے قیام کے بعد نئی صورتِ حال میں وہ سلسلہ رک گیا ہے۔

افغان طالبان کیا کہہ رہے ہیں؟

پاکستانی حکومت کی طرح افغان طالبان بھی ٹی ٹی پی کے مذاکرات کے خاتمے کے اعلان کے بعد خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔

البتہ 10 دسمبر کو عرب نیوز کو دیے گئے ایک انٹرویو میں افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کالعدم ٹی ٹی پی کو مشورہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اپنے ملک میں امن اور استحکام پر توجہ دیں تاکہ وہ خطے اور پاکستان میں دشمنوں کی مداخلت کے کسی بھی امکان کو ختم کر سکیں۔

ذبیح اللہ مجاہد نے پاکستانی حکومت سے بھی کہا تھا کہ وہ خطے اور پاکستان کی بہتری کے لیے ٹی ٹی پی کے مطالبات پر غور کریں۔

SEE ALSO: دہشت گردی کے واقعات میں پھر اضافہ، ٹی ٹی پی اور حکومت میں مذاکرات کیوں ختم ہوئے؟

طالبان گروہوں کے امور کا مطالعہ کرنے والے سینئر افغان صحافی سمیع یوسف زئی کے مطابق افغان طالبان نے اپنے اہم جز حقانی نیٹ ورک کے اہم رہنماؤں کی موجودگی میں پاکستانی حکومت اور کالعدم ٹی ٹی پی کو مذاکرات کی میز پر لانے اور ایک ماہ کی جنگ بندی کرا کر اپنی ذمے داری پوری کر دی تھی۔ البتہ مذاکرات کا کامیاب یا ناکام ہونا ٹی ٹی پی اور اسلام آباد کی ذمہ داری بنتی ہے جو اس معاملے کو آگے نہیں بڑھا سکے۔

سمیع یوسف زئی نے کہا کہ افغان طالبان اسلام آباد کے کہنے پر کبھی بھی کالعدم ٹی ٹی پی کے خلاف اپنی سرزمین پر کارروائی نہیں کریں گے کیوں کہ ان کے بقول ان گروہوں کا آپس میں نظریاتی تعلق ہے اور اس کے ساتھ ایسا کرنا پختون کلچر کے خلاف سمجھا جاتا ہے۔

ان نے کہا کہ یوں لگتا ہے کہ ٹی ٹی پی اور پاک افغان سرحد پر باڑ سمیت متعدد مسائل پر کابل کے طالبان حکمرانوں اور اسلام آباد کے تعلقات مستقبل قریب میں خراب ہوسکتے ہیں۔

پاکستانی قید میں موجود ٹی ٹی پی کے چار رہنما کون ہیں؟

دسمبر 2007 میں مختلف شدت پسند دھڑوں کے اتحاد سے تشکیل پانے والی کالعدم ٹی ٹی پی کے بانی رہنماؤں کی اکثریت یا تو ڈرون حملوں اور فوجی آپریشنز میں ماری گئی یا آپریشن سے بچتے ہوئے افغانستان کے سرحدی صوبوں کنڑ، ننگرہار اور خوست منتقل ہو گئی ہے۔

البته مسلم خان، محمود خان، مولوی عمر اور لطیف اللہ محسود ٹی ٹی پی کے وہ مرکزی رہنما ہیں جو پاکستانی جیلوں میں قید ہیں۔

مسلم خان ضلع سوات میں سیکیورٹی فورسز سے برسرِپیکار مولانا فضل اللہ کی قیادت میں فعال طالبان گروہ کے ترجمان رہے ہیں جب کہ محمود خان اسی گروہ کے ایک کمانڈر تھے۔ حکومت نے ان دونوں کے سر کی قیمت ایک ایک کروڑ روپے مقرر کی تھی۔

مسلم خان تقریباً ڈھائی سال سے سوات میں ٹی ٹی پی کی ترجمانی کرتے رہے ہیں۔ سوات شورش کے دوران وہ پاکستانی و غیر ملکی ٹی وی چینلز پر لڑکیوں کے اسکولوں کو بم دھماکوں سے اڑانے اور سیکیورٹی فورسز پر حملوں سمیت دہشت گردی کی دیگر کارروائیوں کی ذمہ داریاں قبول کرتے رہے ہیں۔

محمود خان کو اس وقت شہرت ملی تھی جب ٹی ٹی پی کی جانب سے عوامی نیشنل پارٹی کی اس وقت کی صوبائی حکومت کے ساتھ امن معاہدے میں پیش رفت ہوئی تھی۔

ستمبر 2009 میں پاکستانی فوج نے کالعدم ٹی ٹی پی کے مذکورہ دونوں رہنمائوں کو ایک کارروائی کے دوران گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔

دسمبر 2016 میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے جن آٹھ دہشت گردوں کی سزائے موت کی توثیق کی تھی ان میں مسلم خان اور محمود خان بھی شامل تھے۔

کالعدم ٹی ٹی پی کے ترجمان کے عہدے پر فائز مولوی عمر کا اصلی نام مولوی سعید محمد ہے۔ انہیں ٹی ٹی پی کے بانی و سربراہ بیت اللہ محسود کی اگست 2009 میں جنوبی وزیرستان میں ایک امریکی ڈرون حملے میں ہلاکت کے دو ہفتے بعد پاکستانی قبائلی ضلع مہمند کے رہائشیوں نے گرفتار کر کے انہیں سیکیورٹی فورسز کے حوالے کر دیا تھا۔

لطیف اللہ محسود ٹی ٹی پی کے سابق سربراہ حکیم اللہ محسود کے قریبی رشتہ دار ہیں جنہیں امریکی فورسز نے اکتوبر 2013 میں افغان صوبے خوست میں ایک کارروائی کے دوران گرفتار کیا تھا۔ سابق افغان صدر اشرف غنی کے سال 2014 میں دورۂ پاکستان کے موقع پر کابل حکومت نے لطیف اللہ محسود کو پاکستان کے حوالے کیا تھا۔

مذاکرات کی ناکامی کے اثرات

کالعدم ٹی ٹی پی نے دس دسمبر کو مذاکرات کے خاتمے کا اعلان کرتے ہی دہشت گردی کی کارروائیاں دوباره شروع کر دی ہیں۔ اس حوالے سے پہلا حملہ صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع ٹانک میں پولیو ٹیم پر کیا گیا جس میں سیکیورٹی پر مامور ایک پیرا ملٹری اہلکار جان سے گیا جب کہ ایک پولیس اہلکار زخمی بھی ہوا۔

کالعدم ٹی ٹی پی کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق شدت پسند تنظیم نے صرف ماہِ دسمبر میں دہشت گردی کی 45 کارروائیوں کی ذمہ داری قبول کی ہے جس میں سیکیورٹی فورسز اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے 17 اہلکاروں کو ہلاک یا زخمی کرنے کا بھی دعویٰ شامل ہے۔

یہ حملے زیادہ تر خیبر پختونخوا کے دو اضلاع باجوڑ اور شمالی وزیرستان میں کیے گئے ہیں۔

پاکستان کے سابق قبائلی علاقوں سے مستند معلومات کی عدم رسائی کے سبب ٹی ٹی پی کے جاری کردہ اعداد و شمار کی آزادانہ تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔


سنگاپور میں قائم 'انٹرنیشنل سینٹر فار پولیٹیکل وائلنس اینڈ ٹیررازم ریسرچ' سے وابستہ محقق عبدالباسط کا کہنا ہے کہ ماضی کے مذاکرات طرح ٹی ٹی پی نے حالیہ مذاکرات میں حصہ لے کر اپنے آپ کو پاکستانی سیاسی نظام کا ایک 'اسٹیک ہولڈر' ظاہر کیا ہے۔ ان کے مطابق ٹی ٹی پی کے حملوں میں اضافے سے شدت پسند گروہ کی مذاکرات کے نتیجے میں ملنے والی حوصلہ افزائی بھی ظاہر کرتی ہے۔

وائس آف امریکہ سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ٹی ٹی پی کے ساتھ ناکام مذاکرات کی وجہ سے نیشنل ایکشن پلان کی شکل میں اس قومی بیانیے کو نقصان پہنچا ہے جو دسمبر 2014 کے سانحہ آرمی پبلک اسکول پشاور کے بعد ملک میں دہشت گردی کے خلاف تشکیل پایا تھا۔