'پاکستان میں بجلی و گیس کا بحران بد انتظامی اور غلط فیصلوں کی وجہ سے ہے'

فائل فوٹو

پاکستان میں قدرتی گیس کی کمی کی وجہ سے ملک میں توانائی کے بحران کی نئی لہر دیکھنے میں آ رہی ہے۔ ماہرین اس خدشے کا اظہار کر رہے ہیں کہ آئندہ چند ہفتوں میں یہ بحران شدت اختیار کرسکتا ہے۔

حکومت نے گیس بحران کے باعث 'نان ایکسپورٹ سیکٹر' کو گیس کی فراہمی بند کر دی ہے جب کہ ایکسپورٹ سیکٹر کو فراہم کردہ گیس کے پریشر میں بھی لگ بھگ 50 فی صد کمی دیکھی جا رہی ہے۔

گیس کے حالیہ بحران کے بعد ملک کے کئی علاقوں میں بجلی کی لوڈشیڈنگ میں بھی اضافہ ہو گیا ہے۔

پاکستان میں گیس درآمد کرنے کے لیے قائم دو میں سے ایک اینگرو ایل این جی ٹرمینل سالانہ مرمتی کاموں کی وجہ سے 29 جون سے چھ جولائی تک بند رہے گا۔حکام کے مطابق 650 ملین کیوبک فٹ یومیہ (ایم ایم سی ایف ڈی) گیس کم ملنے سے بجلی کی پیداوار میں کم از کم چار ہزار میگاواٹ کمی واقع ہوگی۔

یاد رہے کہ پاکستان میں بجلی پیدا کرنے کے لیے پانی، درآمد شدہ آر ایل این جی، کوئلہ اور فرنس آئل کے ساتھ کچھ توانائی کے دیگر متبادل ذرائع پر انحصار کیا جاتا ہے۔ تاہم اس وقت سب سے زیادہ کمی گیس کی ہے جس کی وجہ سے یہ بحران سر اٹھا رہا ہے۔

حکومت کی جانب سے توانائی کے بحران کا ذمہ دار ماضی کی حکومت کو قرار دیا جا رہا ہے جب کہ مسلم لیگ (ن) نے کابینہ کے بروقت فیصلے نہ کرنے کو بحران کی اصل وجہ قرار دیا ہے۔

جون کے مہینے میں گیس کے بحران کی وجہ کیا ہے؟

سوئی سدرن گیس کمپنی کا کہنا ہے کہ اس کے سسٹم میں اس وقت گیس کی کمی 200 ایم ایم سی ایف ڈی ہو چکی ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ صوبۂ سندھ میں گیس کی بڑی گیس فیلڈ 'کنر پساکھی' میں مرمتی کا ہونا بتایا جاتا ہے۔

وفاقی وزیر برائے توانائی حماد اظہر کے مطابق کنر پساکھی کی بندش سے سسٹم میں 170 ایم ایم سی ایف ڈی گیس کی کمی پیدا ہو گئی ہے۔ اس کمی کے بعد سوئی سدرن گیس کمپنی نے ایک ہفتے کے لیے بلوچستان اور سندھ میں سی این جی اسٹیشنز بند کر دیے ہیں۔

نان ایکسپورٹ سیکٹر کی صنعتوں کو بجلی پیدا کرنے کے لیے چلائے جانے والے کیپٹو پاور پلانٹس کو گیس کی فراہمی مکمل طور پر بند ہے اور عام صنعتوں کے کیپٹو پاور پلانٹس چلانے کے لیے 50 فی صد گیس پریشر میں کمی لائی گئی ہے۔

تاہم سوئی سدرن گیس کمپنی کے مطابق کراچی کو بجلی فراہم کرنے والی کمپنی کے الیکٹرک کو 150 ایم ایم سی ایف ڈی گیس کی فراہمی فی الحال برقرار رکھی گئی ہے۔

حماد اظہر کے مطابق ملک کے سب سے بڑے تربیلا ڈیم میں پانی کی کم آمد کی وجہ سے بجلی کی پیداوار میں 50 فی صد تک کمی واقع ہوئی ہے اور بجلی کے مرکزی نظام میں ساڑھے سات ہزار میگاواٹ کی کمی دیکھی جا رہی ہے۔

ان کے بقول بجلی کی کمی کو دیگر ذرائع سے بجلی حاصل کر کے پورا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

لیکن حزبِ اختلاف کی جماعتیں بجلی اور گیس کے حالیہ کا ذمہ دار حکومت کی انتظامی کارکردگی کو قرار دیتی ہیں۔

سابق وفاقی وزیر خزانہ اور مسلم لیگ (ن) کے رہنما مفتاح اسماعیل کہتے ہیں کہ حکومت کی نااہلی اور مبینہ کرپشن کی وجہ سے گیس کا بحران شدت اختیار کر گیا ہے۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ گیس ٹرمینل چلانے والی کمپنی ایک سال سے مرمتی کام کا کہہ رہی ہے لیکن حکومت نے اسے اجازت نہیں دی اور اب کنر پساکھی اور قادر پور سمیت چار گیس فیلڈز کو ایک ساتھ مرمت کے کاموں کے لیے بند کیا گیا ہے۔

مفتاح اسماعیل کے مطابق حکومت مہنگا ترین فرنس آئل خرید کر اس سے مہنگی بجلی پیدا کر رہی ہے جس کا اثر صارفین پر پڑے گا۔

مسلم لیگ ن کی ترجمان مریم اورنگزیب نے الزام عائد کیا ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت نے دنیا کا مہنگا ترین فرنس آئل اور ایل این جی خریدی۔ ان کے بقول حکومت نے ایل این جی اور گیس پلانٹ بند کر کے فرنس آئل سے چلنے والے پلانٹ چلا دیے ہیں۔

مفتاح اسماعیل کے مطابق فرنس آئل سے بجلی پیدا کر کے 2018 کے کابینہ کے اس فیصلے کی بھی نفی کی جا رہی ہے جس کے تحت فرنس آئل سے بجلی کی مزید پیداوار نہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ بجلی کی وافر مقدار میں موجودگی کے بغیر لوڈ شیڈنگ کی وجہ حکومتی نااہلی اور بددیانتی ہے۔ مسلم لیگ ن کی حکومت پانچ مزید گیس ٹرمینلز لگانے کے لیے بات چیت مکمل کرکے گئی مگر اب صرف دو آ رہے ہیں لیکن ان سے بھی معاہدہ اب تک نہیں ہو سکا۔

'حکومتی منصوبہ بندی کی ناکامیاں عیاں ہیں'

پاکستان میں سرمایہ کاری سے متعلق تحقیق کرنے والے نجی ادارے 'ٹاپ لائن سیکیورٹیز' میں ہیڈ آف ریسرچ شنکر تلریجس کا کہنا ہے کہ آئل اینڈ گیس فیلڈز میں ڈرائی ڈاکنگ (مرمتی کام) کافی عرصے سے التوا کا شکار تھا جسے مزید التوا میں نہیں ڈالا جاسکتا تھا۔ مرمتی کام ایسے موقع پر کیے جا رہے ہیں جب کنر پساکھی گیس فیلڈ جیسی بڑی فیلڈ میں بھی مرمتی کام کرنا پڑا جس کی وجہ سے توانائی کے بحران میں مزید شدت دیکھنے میں آئی۔

ان کے بقول گیس فیلڈز کی بندش سے پیدا ہونے والی صورتِ حال سے نکلنے کے لیے حکومت نے فرنس آئل پر انحصار کیا اور اسے فوری طور پر منگوایا جا رہا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ فرنس آئل مہنگا ہے اور حکومت کے پاس اس کی درآمد کے سوا اور کوئی آپشن نہیں۔

شنکر تلریجس نے مزید بتایا کہ بجلی پیدا کرنے کے لیے استعمال کیے جانے والے ایندھن کی قیمت چھ روپے سے زائد نہیں لیکن اس پر لگنے والے کیپیسٹی چارجز، ٹیکسز، سر چارجز اور دیگر اخراجات ملا کر اس کی قیمت 18 روپے فی یونٹ تک جا پہنچتی ہے۔

ان کے مطابق ملک میں توانائی کے بحران کی وجوہات میں بڑھتا ہوا سرکلر ڈیبٹ ایک اور بڑا مسئلہ ہے جسے حل کرنے کے لیے حکومت نے ابھی پرانے بقایاجات میں سے کچھ رقم پرائیویٹ پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز) کو ادا کی ہے لیکن مستقبل میں اس سے کیسے نمٹنا ہے اس بارے میں ابھی پالیسی واضح نہیں۔

ان کے بقول سرکلر ڈیبٹ کا مسئلہ حل نہ ہونے کی وجہ سے بجلی کا ٹیرف مسلسل بڑھتا جا رہا ہے۔ اس مسئلے کو حل کرنا اس وقت انتہائی ضروری ہے۔

Your browser doesn’t support HTML5

متوقع گیس بحران سے نمٹنے کے لیے حکومت کیا کر رہی ہے؟

واضح رہے کہ رواں برس مئی میں پاکستان نے اپنی توانائی کا 27 فی صد پانی، درآمد شدہ گیس سے 22 فی صد اور کوئلے سے 20 فی صد بجلی حاصل کی تھا۔ اسی طرح نیوکلیئر ذرائع سے 9.8 فی صد، فرنس آئل سے 5.9 فی صد، قدرتی گیس سے 11.2 فی صد جبکہ کچھ توانائی متبادل ذرائع سے حاصل کی تھی۔

فیڈریشن آف پاکستان چیمبر آف کامرس کے صدر میاں نصیر حیات مگو نے پیر کو ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا تھا کہ گیس کی کمی سے نہ صرف عوام بلکہ صنعتیں اور سی این جی سیکٹر بھی شدید متاثر ہوں گے۔

دوسری جانب آل پاکستان سی این جی ایسوسی ایشن کے صدر غیاث پراچہ کا کہنا ہے کہ غلط پالیسیوں اور بدترین انتظامات کی وجہ سے سی این جی سیکٹر میں لگائی گئی 450 ارب روپے کی سرمایہ کاری خطرے میں پڑ گئی ہے۔

معروف صنعت کار ادریس گیگی نے بھی اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ ایک جانب حکومت برآمدات بڑھانے کی باتیں کرتی ہے تو دوسری جانب صنعتوں کو گیس کی فراہمی میں کمی لائی جا رہی ہے۔ جس کی وجہ بد انتظامی، غلط فیصلے اور دور اندیشی کا فقدان ہے۔ ایسے میں کیسے ممکن ہے کہ برآمدی ہدف کو پورا کیا جائے۔