پاکستان کے صوبے پنجاب کی حکومت نے کالعدم جماعت تحریکِ لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کو کالعدم جماعتوں کی فہرست سے نکالنے کا عمل شروع کر دیا ہے۔ اس مقصد کے لیے پنجاب حکومت کی سفارشات وفاقی حکومت کو بھجوائی جائیں گی۔ وفاقی حکومت کی منظوری کے بعد ٹی ایل پی کا نام کالعدم کی فہرست سے نکل سکتا ہے۔
پنجاب حکومت کی کابینہ کمیٹی برائے امن و امان نے ٹی ایل پی کو کالعدم جماعتوں کی فہرست سے نکالنے کا عمل جاری رکھے ہوئے ہے جس کی سربراہی وزیرِ قانون پنجاب کر رہے ہیں۔
اطلاعات کے مطابق کالعدم تنظیم اور حکومت کے درمیان معاہدے پر عمل درآمد سے متعلق پنجاب کابینہ کی کمیٹی برائے امن و امان کے اجلاس میں کالعدم تنظیم کے مزید 100 کارکن رہا کرنے کی منظوری دی گئی۔ اِس کے ساتھ ہی کالعدم تنظیم کے 90 افراد کے نام فورتھ شیڈول کی فہرست سے خارج کرنے کی منظوری بھی دی گئی ہے۔
محکمہ داخلہ پنجاب کے ذرائع کے مطابق 7 اے ٹی اے کے تحت درج چار ایف آئی آرز سے بھی ٹی ایل پی کے کارکنوں کے نام خارج کرنے کی منظوری دی گئی ہے۔ اجلاس میں کالعدم تنظیم سے متعلق اسٹیئرنگ کمیٹی کے فیصلوں سے متعلق جائزہ لیا جائے گا۔
مبصرین سمجھتے ہیں کہ کسی بھی شخص یا جماعت کو کالعدم قرار دینے اور اس کا نام نکالنے کے لیے ایک لائحہ عمل ہے۔ جس میں سے گزرنا پڑتا ہے۔ تاہم کچھ فیصلے سیاسی بنیادوں پر بھی کیے جاتے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
کوئی بھی تنظیم کالعدم کیسے قرار دی جاتی ہے؟
ماہرِ قانون اور سابق ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل پنجاب چوہدری فیصل فرید کہتے ہیں کہ سیاسی جماعتیں پاکستان کے آرٹیکل 17 کے تحت تشکیل پاتی ہیں۔ اسی آرٹیکل میں وضاحت کی گئی ہے کہ اُنہیں کیسے کالعدم قرار دیا جا سکتا ہے یا فہرست سے نکالا جا سکتا ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے فیصل فرید نے بتایا کہ جب بھی کسی جماعت کو کسی وجہ سے کالعدم قرار دینا ہوتا ہے تو وفاقی حکومت، پولیٹیکل پارٹریز ایکٹ کے تحت عدالتِ عظمٰی کے پاس ایک ریفرنس بھیجتی ہے۔ عدالتِ عظمٰی اس پر کارروائی کرنے کے بعد اُس جماعت کو کالعدم قرار دینے کے احکامات جاری کرتی ہے۔
ماضی کا حوالہ دیتے ہوئے چوہدری فیصل فرید نے کہا کہ پاکستان کی تاریخ میں نیشنل عوامی پارٹی کو کالعدم قرار دیا گیا ہے۔ جس کا بعد میں نام عوامی نیشنل پارٹی رکھا گیا تھا۔ نیپ کو عدالتِ عظمٰی کی جانب سے کالعدم قرار دیا گیا تھا۔
ٹی ایل پی کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے چوہدری فیصل فرید نے کہا کہ ایسا معاملہ پہلے کبھی پیش نہیں آیا کیونکہ سیاسی جماعتوں اور دہشت گرد تنظیموں کو کالعدم قرار دینے کا طریقہ کار الگ الگ ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ اگر کسی جماعت کو دہشت گرد قرار دے کر کالعدم قرار دیا جائے تو حالات مختلف ہوتے ہیں اور اِسی طرح کسی سیاسی جماعت کو کالعدم قرار دیا جائے تو نتائج مختلف ہوتے ہیں۔
پاکستان کے سابق سیکرٹری داخلہ تسنیم نورانی بتاتے ہیں کہ کسی بھی جماعت یا شخص کو کالعدم قرار دینے کا اختیار حکومت کے پاس ہوتا ہے۔ حکومت کچھ رپورٹس اور شواہد کی بنیاد پر کسی بھی جماعت کا کالعدم قرار دیتی ہے۔ وہ رپورٹس قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے مرتب کی جاتی ہیں۔
اُن کے بقول قانون نافذ کرنے والے اداروں کی رپورٹس میں کسی بھی شخص کے انفرادی عمل اور بطور جماعت اُس کی سرگرمیوں کا ذکر کیا جاتا ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے تسنیم نورانی نے کہا کہ قانون کے مطابق انسدادِ دہشت گردی ایکٹ کے تحت یا اجازت سے کہ کسی بھی شخص یا جماعت کو کالعدم قرار دیا جا سکتا ہے۔
اُنہوں نے مزید کہا کہ کالعدم قرار دینے کے لیے متعلقہ محکمۂ داخلہ اپنی سفارشات میں لکھتا ہے کہ فلاں جماعت کے شخص پر پابندی لگائی جائے۔ جس میں پہلا مرحلہ یہ ہوتا ہے کہ پہلے اُس جماعت کے کارکنوں کے نام فورتھ شیڈول میں ڈالے جاتے ہیں۔
'حکومت وقتی طور پر بحران ٹالنا چاہتی ہے'
پاکستان میں جمہوریت، گورننس اور پبلک پالیسی پر تحقیق کرنے والے غیر سرکاری ادارے پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف لیجسلیٹو ڈویلپمنٹ اینڈ ٹرانسپیرنسی (پلڈاٹ) کے سربراہ احمد بلال محبوب کہتے ہیں کہ حکومت جب معاملات کو قانون کے مطابق حل کرنے کی بجائے سیاسی فائدے اور نقصان کے مطابق دیکھے گی تو بظاہر ایسے فیصلے ہوں گے جو غیر منطقی ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے احمد بلال محبوب نے کہا کہ حکومت یہ سمجھتی ہے کہ وہ سیاسی دباؤ میں ہے اور وہ اِس پوزیشن میں نہیں کہ کسی بھی جماعت جو اتنا بڑا امن امان کا مسئلہ پیدا کرنے جا رہی ہو اُس کو روک سکے۔
اُن کے بقول ایسی صورت میں حکومت کو اُس جماعت کے سامنے خود کو سرنڈر کرنا ہوتا ہے۔ حکومت کوئی ایسا بندوبست کرتی ہے جس کے تحت وقتی طور پر کسی بھی بحران کو ٹالا جا سکے۔
احمد بلال محبوب کا کہنا تھا کہ آنے والے عام انتخابات میں پی ٹی آئی کو صوبۂ پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کا بڑا چیلنج درپیش ہے۔ ممکنہ طور پر ٹی ایل پی، پی ٹی آئی کی اتحادی جماعت بن سکتی ہے۔ جس کی طرف پی ٹی آئی کے قائدین نے اشارے بھی دیے ہیں۔
ماضی کا حوالہ دیتے ہوئے اُنہوں نے کہا کہ پہلے طاہر القادری یہ کام کیا کرتے تھے، لیکن اب یوں لگتا ہے کہ اُن کی دلچسپی پاکستان میں کم ہو گئی ہے، لہذٰا ٹی ایل پی، پاکستان عوامی تحریک کی جگہ لے سکتی ہے۔
کالعدم کی فہرست سے نام کیسے نکلتا ہے؟
تسنیم نورانی سمجھتے ہیں کہ وزارتِ داخلہ کے پاس اگر کسی جماعت یا شخص سے متعلق رپورٹس آتی ہیں کہ فلاں جماعت یا شخص نے اپنی انتہا پسندانہ کارروائیاں ترک کر دی ہیں تو اُسے کالعدم جماعتوں کی فہرست سے نکالنے میں کوئی رکاوٹ نہیں رہتی۔
تسنیم نورانی کہتے ہیں کہ کسی بھی جماعت کو کالعدم کی فہرست سے نکالنے کے لیے متعلقہ صوبائی حکومت ایک رپورٹ تیار کرتی ہے۔ جس میں متعلقہ صوبے کے قانون نافذ کرنے والے ادارے اپنی رپورٹ جمع کراتے ہیں اور اُس کے بعد وہ رپورٹ وفاقی حکومت کو بھجوائی جاتی ہے۔ جس کے بعد وفاقی وزارتِ داخلہ اُس جماعت کو کالعدم کی فہرست سے نکالتا ہے۔
چوہدری فیصل فرید کہتے ہیں کہ حکومت نے ٹی ایل پی کو پوری طرح سے کالعدم قرار دیا ہی نہیں تھا بلکہ اِس کا معاملہ لٹکائے رکھا۔ حکومت نے اِن کے خلاف ریفرنس نہیں بھیجا تھا اور جب ریفرنس نہیں بھیجا تو ٹی ایل پی بھی نظرِ ثانی میں نہیں گئی۔ وہ بطور سیاسی جماعت کے اپنا وجود رکھتی ہے۔
تسنیم نورانی سمجھتے ہیں کہ اِس جماعت کو کالعدم تو قرار دیا گیا ہے لیکن کبھی دہشت گرد تنظیم نہیں سمجھا گیا۔ ان کے مطابق ٹی ایل پی کے کارکنوں کو کبھی کھلے عام اسلحہ کے ساتھ گھومتے پھرتے نہیں دیکھا گیا۔
احمد بلال محبوب سمجھتے ہیں کہ ٹی ایل پی کو نہ پہلے شواہد کی بنیاد پر کالعدم قرار دیا گیا نہ ہی شواہد کی بنیاد پر اب ایسا کوئی فیصلہ کیا جا رہا ہے۔ یہ ایک سیاسی چال ہے۔ عام طور پر پاکستان میں سیاسی چالیں سیاسی مفادات کی بنیاد پر ہوتی ہیں۔
اُنہوں نے مزید کہا کہ اگر حکومت کو کوئی سیاسی فائدہ ہو رہا ہے تو وہ ایک طرح کے حقائق بیان کرے گی اور اگر اُن کو نقصان ہو رہا ہے تو اُس کو دوسری طرح سے بیان کیا جائے گا۔ حالیہ دنوں میں سب نے دیکھا کہ ٹی ایل پی سے متعلق حکومت کے بیانات میں تبدیلی اور لچک آئی ہے۔
دریں اثنا کالعدم تحریک لبیک کے سربراہ حافظ سعد رضوی کی نظر بندی کے خلاف درخواست لاہور ہائی کورٹ سے واپس لے لی گئی ہے۔ دو رکنی بینچ کے روبرو سعد رضوی کے چچا امیر حسین کی جانب سے درخواست واپس لینے کی بنیاد پر خارج کر دی گئی۔
سعد رضوی کی نظر بندی کو ان کے چچا امیر حسین نے ایڈوکیٹ برہان معظم ملک کی وساطت سے چیلنج کیا تھا۔ کیس کی سماعت شروع ہوئی تو برہان معظم ملک نے کہا کہ وہ تسلیم کرتے کہ درخواست غیر مؤثر ہو چکی ہے کیونکہ جس نظر بندی کو چیلنج کیا گیا اس کی مدت مکمل ہو چکی ہے۔ برہان معظم ملک نے بینچ کے روبرو کہا کہ وہ متبادل داد رسی کا حق محفوظ رکھتے ہیں۔