پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کا ملک میں فوری انتخابات کے لیے لاہور سے اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ جاری ہے۔ تاہم پی ٹی آئی نے عندیہ دیا ہے کہ یہ مارچ نو سے 10 روز میں اسلام آباد پہنچے گا جس کے باعث سیاسی حلقوں میں مختلف قیاس آرائیوں کا سلسلہ جاری ہے۔
جمعے کو لاہور سے شروع ہونے والا مارچ اب تک گوجرانوالہ ہی پہنچ سکا ہے۔ پی ٹی آئی نے لانگ مارچ کی رفتار کو مزید سست کرنے کا عندیہ دیاہے۔
پی ٹی آئی کا کہنا ہے کہ ان کا فیصلہ ہے کہ وہ رات کے وقت سفر نہیں کریں گے اور دن میں وقت کم ہونے کے باعث ان کا اسلام آباد پہنچنے کا سفر مزید کئی دن لے سکتا ہے۔
مارچ کی سست روی پر مختلف قیاس آرائیاں اور تبصرے کیے جارہے ہیں۔ بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ عمران خان کے لانگ مارچ کو سست کرنے کی بڑی وجہ یہ ہے کہ عمران خان نئے آرمی چیف کی تعیناتی کے وقت تک حکومت اور اداروں پر دباؤ بڑھانا چاہتے ہیں۔
تجزیہ کار سمجھتے ہیں کہ پی ٹی آئی بیک ڈور رابطوں کی وجہ سے مارچ کو دانستہ سست کیے ہوئے ہے تاکہ اس بات چیت کے نتیجے میں مطالبات کی منظوری ہوجائے اور اسلام آباد پہنچنے پر کامیابی کا اعلان کیا جاسکے۔
بعض مبصرین کا خیال ہے کہ عمران خان نے جلد بازی اور باقاعدہ حکمتِ عملی کے بغیر لانگ مارچ کا آغاز کیا جس کے سبب اب شیڈول میں تبدیلیاں ہو رہی ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
سینئر تجزیہ کار اور صحافی سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ عمران خان کے لانگ مارچ کی سست رفتاری کی بظاہر وجہ نئے آرمی چیف کی تعیناتی تک دباؤ بڑھانا ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے سہیل وڑائچ نے کہا کہ اگرچہ لانگ مارچ سےمقتدر حلقوں کو اب تک کوئی فرق تو نہیں پڑا لیکن عمران خان کا سڑکوں پر ہونا حکومت کے لیے ایک مسئلہ ہے۔
ان کے بقول، ماضی میں عمران خان کے ساتھ بڑے 'فنانسر 'تھے، یہی وجہ ہے کہ زیادہ لوگ اُن کے ساتھ تھے۔ لیکن اب صورتِ حال مختلف ہے اور مقامی اراکینِ اسمبلی اور ٹکٹ کے خواہش مند افراد ہی مارچ کا خرچ اُٹھا رہے ہیں۔
'اسلام آباد پہنچنے کے لیے زیادہ جلدی نہیں ہے'
پی ٹی آئی کے مرکزی رہنما زلفی بخاری کہتے ہیں کہ لانگ مارچ سست روی کا شکار اس وجہ سے ہے کہ لوگوں کی جانب سے زبردست شمولیت ہوئی ہے اور ہر جگہ کارکنوں کے ساتھ عوام باہر نکل رہے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ لانگ مارچ کو اسلام آباد پہنچانے میں کوئی جلدی نہیں، جہاں جائیں گے مارچ کو سست یا تیز کرلیں گے کیوں کہ یہ حکمتِ عملی کا حصہ ہے اور اس میں ابھی مزید بھی سرپرائز اور تبدیلیاں ہوں گی۔
زلفی بخاری کہتے ہیں کہ عوام کا والہانہ استقبال دیکھتے ہوئے عمران خان چاہتے ہیں کہ وہ ہر چھوٹے بڑے شہر میں خطاب کریں اور اس وجہ سے طے شدہ شیڈول میں تبدیلی کرتے ہوئے مارچ کے دنوں کو بڑھا دیا گیا ہے۔
خیال رہے کہ28 اکتوبر کو لاہور سے شروع ہونے والے لانگ مارچ نے آئندہ جمعے کو اسلام آباد پہنچنا تھا تاہم جماعت کی جانب سے اب نئے جاری شدہ شیڈول کے مطابق یہ مارچ آئندہ اتوار کو جہلم پہنچے گا۔
پی ٹی آئی کے جاری نئے شیڈول کے مطابق بدھ کو لانگ مارچ پنڈی بائی پاس سے شروع ہو کر گھکڑ منڈی پر اختتام پذیر ہو گا۔
کیا پی ٹی آئی اسلام آباد میں دھرنا دے گی?
پی ٹی آئی نے لانگ مارچ کے اسلام آباد پہنچنے پر دھرنے کا بھی عندیہ دے رکھا ہے اور اس حوالے سے اسلام آباد کی انتظامیہ کو چار نومبر کو جی نائن اور ایچ نائن کے درمیان لانگ مارچ اور دھرنے کے اجازت نامے کے لیے درخواست دی گئی ہے۔
اسلام آباد میں مارچ کے پہنچنے کے بعد کی حکمتِ عملی کے بارے میں بات کرتے ہوئے زلفی بخاری نے بتایا کہ ان کا مارچ پرامن ہے اگر حکومت نے مارچ کو اسلام آباد میں داخل ہونے سے روکنے کی کوشش کی تو اس کے مطابق حکمتِ عملی بنائی جائے گی۔
وہ کہتے ہیں کہ پی ٹی آئی اپنے مطالبات کے حق میں عوامی طاقت کا پر امن اظہار کرنا چاہتی ہے اور شرکا مارچ کے اسلام آباد پہنچنے کے بعد ہی فیصلہ کیا جائے گا کہ کتنے روز دھرنا دینا ہے۔
زلفی بخاری کے بقول، "ہر چیز اوپن ہے اور ہر چیز ممکنات میں شامل ہے، کون سے پالیسی لینی ہے اس کا فیصلہ وقت پر ہوگا۔"
Your browser doesn’t support HTML5
اسلام آباد پہنچ کرعمران خان کیسے دباؤ ڈالیں گے اس سوال پر تجزیہ کار سہیل وڑائچ کہتے ہیں عمران خان اگر پوری طاقت کے ساتھ اسلام آباد میں داخل ہوئے اور خدانخواستہ صورتِ حال خراب ہوئی اور کوئی خون خرابہ ہوا تو یہ بہت خطرناک صورتِ حال ہوگی جس سے ملک میں جمہوریت ڈی ریل ہونے کا خدشہ بھی موجود ہے۔
حکومت نے لانگ مارچ کے اسلام آباد میں داخلے کی صورت میں دفاعی لائن کو مزید وسعت دیتے ہوئے ریڈ زون کو زیرو پوائنٹ تک بڑھا دیا ہے۔
پیر کو وفاقی وزارت داخلہ نے ریڈ زون کی زیرو پوائنٹ تک توسیع کا نقشہ جاری کیا ہے، جہاں دفعہ 144 کے نفاذ کے تحت کسی سیاسی اجتماع کی ممانعت ہو گی۔
کیا حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان مذاکرات کا آپشن ہے؟
پی ٹی آئی کے لانگ مارچ کے آغاز کے بعد ہفتے کو وزیرِ اعظم شہباز شریف نے ایک13 رکنی مذاکراتی ٹیم کا قیام کیا تھا جس میں حکومتی اتحادی جماعتوں کے رہنما بھی شامل ہیں۔
اس مذاکراتی ٹیم کا مقصد پی ٹی آئی سے ان کے مطالبات پر بات چیت کرنا اور لانگ مارچ ختم کرنے پر آمادہ کرنا تھا۔ تاہم حکومت کی اس مذاکراتی ٹیم اور پی ٹی آئی کے درمیان باضابطہ مذاکرات کا آغاز نہیں ہو سکا۔
زلفی بخاری کہتے ہیں کہ حکومت مذاکرات میں سنجیدہ نہیں جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ انہوں نے اپنی مذاکراتی ٹیم کا سربراہ وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ کو بنایا ہے جن پر 25 مئی کو پی ٹی آئی کے کارکنوں پر تشدد کرانے کے الزامات ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ وزیر اعظم شہباز شریف بے اختیار ہیں اور ان کے بھائی نواز شریف لندن سے انہیں کہتے ہیں کہ عمران خان سے بات نہیں کرنی ہے تو ایسے ماحول میں کیسے مذاکرات ہوسکتے ہیں۔
SEE ALSO: عمران خان کے الزامات: غلط معلومات کا مقابلہ درست معلومات سے کر سکتے ہیں، امریکہیاد رہے کہ نواز شریف نے پیر کوایک ٹویٹ میں کہا تھا کہ "میں نے شہباز شریف سے کہہ دیا ہے کہ یہ دو ہزار کا جتھہ لے آئیں یا 20 ہزار کا، ان سے کوئی مذاکرات نہیں کرنے۔
سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ نوازشریف نے جو بیان دیا ہے وہ ایک عرصے سے ان کی سوچ ہے کہ ان کے ساتھ مذاکرات نہیں ہونے چاہئیں۔ نوازشریف پی ٹی آئی اور عمران خان کے بارے میں بہت تلخ ہیں اور ان کی سوچ ہے کہ ان لوگوں نے ان کے ساتھ بہت زیادتیاں کی ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ عمران خان کو کوئی سیاسی راستہ نہ دیا جائے۔
سہیل وڑائچ نے کہا کہ اگرچہ حکومت نے مذاکرات کے لیے کمیٹی تشکیل دی تھی لیکن میرے مطابق اس میں اب تک کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی۔
واضح رہے کہ وزیر ِاعظم شہباز شریف نے ہفتے کو کہا تھا کہ عمران خان دو معاملات کو بات چیت کے ذریعے طے کرنا چاہتے تھے جن میں نئے آرمی چیف کی تقرری اور دوسرا قبل از وقت انتخابات تھے۔ ان کے بقول عمران خان کی مذاکرات کی اس پیشکش کو قبول نہیں کیا تاہم میثاق جمہوریت اور میثاق معیشت پر بات کرنے کی جوابی پیش کش کی۔