بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کے صدر مقام سرینگر میں پیر کو پولیس کی ایک بس پر حملے کے بعد حکام نے سیکیورٹی الرٹ جاری کر دیا ہے۔ پولیس اور دیگر سیکیورٹی اداروں کو سفر کے دوران احتیاط برتنے کی ہدایت کی گئی ہے۔
مشتبہ عسکریت پسندوں کی جانب سے پیر کی شام کیے جانے والے حملے میں ایک اسسٹنٹ سب انسپکٹر سمیت تین اہلکار ہلاک اور گیارہ زخمی ہوئے تھے۔
حکام نے بتایا کہ جموں و کشمیر پولیس کے شورش مخالف اسپیشل آپریشنز گروپ اور بھارتی فوج نے منگل کو سرحدی ضلع پونچھ کے سورن کوٹ علاقے میں کارروائی کی جس کے دوران ایک مشتبہ عسکریت پسند کو ہلاک کر دیا ہے۔
اعلیٰ پولیس عہدیدار وجے کمار نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ حملہ آوروں نے بس میں سوار اہلکاروں سے ہتھیار چھیننے کی کوشش کی اور اس دوران اندھا دھند فائرنگ بھی کی۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ پولیس پر حملہ کالعدم دہشت گرد تنظیم جیشِ محمد کے ’کشمیر ٹائیگرز' نامی آف شوٹ کے اراکین نے کیا ہے جن میں ایک مقامی عسکریت پسند اور دو غیر ملکی شامل تھے۔ جب کہ پولیس کی جوابی فائرنگ میں ایک حملہ آور زخمی ہوا ہے تاہم کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آئی۔
پولیس ذرائع کے مطابق پولیس پر حملہ اس وقت ہوا جب انڈین ریزرو پولیس فورس (آئی آر پی) کے اہلکار دن کے دوران سرینگر کے حساس علاقوں میں ڈیوٹی انجام دینے کے بعد زیون کے علاقے میں واقع اپنے کیمپ کو لوٹ رہے تھے۔
وجے کمار کے مطابق حملہ آوروں کو زندہ یا مردہ پکڑنے کے لیے پولیس اور دیگر سیکیورٹی فورسز نے آپریشن شروع کر دیا ہے اور امید ہے کہ انہیں جلد تلاش کر کے کیفرِ کردار تک پہنچایا جائے گا۔
SEE ALSO: بھارتی کشمیر: پولیس کی کارروائی میں ہلاک دو شہریوں کی میتیں لواحقین کے حوالےانہوں نے مزید کہا کہ اس بات کو یقینی بنایا جا رہا ہے کہ پولیس اہلکار بُلِٹ پروف گاڑیوں میں ہی سفر کریں۔
بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں حالیہ مہینوں میں عسکریت پسندوں کے حملوں میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔ دوسری جانب بھارتی سیکیورٹی فورسز کی جانب سے عسکریت مخالف کارروائیوں میں بھی تیزی آئی ہے۔
پیر کو پولیس بس پر کیا گیا حملہ بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کے جنوبی ضلع پلوامہ میں 16 فروری 2019 کو سی آر پی ایف کے قافلے پر کیے گئے خودکش حملے کے بعد پیش آنے والا اپنی نوعیت کا ایک بڑا واقعہ ہے۔
پلوامہ حملے کی ذمہ داری جیشِ محمد نے قبول کی تھی جس میں 40 سے زائد اہلکار ہلاک ہوئے تھے۔ تاہم بھارت نے اس حملے کا الزام پاکستان پر عائد کیا تھا اور اسلام آباد نے ان الزامات کی تردید کی تھی۔
'مقامی افراد اور نئی دہلی کے درمیان دوریاں بڑھ رہی ہیں'
بھارتی کشمیر کے سابق وزیرِ اعلیٰ اور بھارت کے قومی سیاسی دھارے میں شامل سب سے بڑی مقامی تنظیم نیشنل کانفرنس کے نائب صدر عمر عبداللہ نے الزام عائد کیا ہے کہ پانچ اگست 2019 کے اقدام کے بعد جموں و کشمیر کی صورت حال میں واضح تبدیلی دیکھی جا سکتی ہے۔ ان کے بقول لوگ نالاں ہیں اور ان کے اور نئی دہلی کے درمیان دوریاں بڑھ رہی ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
پیر کو ضلع کپواڑہ میں نیشنل کانفرنس کے ورکروں کے ایک کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جموں و کشمیر میں تعمیر و ترقی صرف سوشل میڈیا ہیش ٹیگز، حکومتی اشتہارات اور اسپانسرڈ خبروں میں نظر آتی ہیں اور زمینی حقائق اس کے برعکس ہیں۔
واضح رہے کہ بھارتی حکومت نے پانچ اگست 2019 کو جموں و کشمیر کی آئینی حیثیت تبدیل کرتے ہوئے اسے براہِ راست وفاق کے کنٹرول والے علاقے قرار دیا تھا جس پر کشمیر میں شدید احتجاج ہوا تھا۔
سرینگر میں مظاہرے اور پتھراؤ
پیر کو پولیس بس پر ہونے والے حملے سے چند گھنٹے قبل حکام نے دعویٰ کیا تھا کہ پولیس نے شہر کے مضافات میں واقع رنگریٹ علاقے میں ایک کارروائی کے دوران کالعدم لشکرِ طیبہ سے وابستہ ایک عسکریت پسند عادل احمد وانی کو اور اس کے غیر ملکی ساتھی کو ہلاک کیا ہے۔
پولیس نے یہ دعویٰ بھی کیا تھا کہ مذکورہ ملزمان سیکیورٹی فورسز پر ہونے والے متعدد حملوں اور دیشت گردی کی دیگر کارروائیوں میں ملوث تھے۔
لیکن مقامی لوگوں نے واقعے کے چشم دید گواہ ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے الزام لگایا کہ دونوں نہتے تھے جنہیں پولیس نے ایک فرضی جھڑپ میں ہلاک کیا ہے۔
اس واقعے کے بعد علاقے میں احتجاجی مظاہرے پھوٹ پڑے اور مقامی افراد نے سڑکوں پر آکر پولیس کے خلاف نعرے لگائے۔ اس دوران مشتعل نوجوانوں اور پولیس کے درمیان جھڑپیں بھی ہوئیں۔
ایک وائرل ویڈیو میں احتجاج میں شامل ایک ادھیڑ عمر خاتون کو پولیس کو للکار کر یہ کہتے ہوئے سنا جاسکتا ہے "ہم ابھی مرے نہیں کہ تم ہمارے بچوں کا یوں خون بہانے لگے"