"خیبرپختونخوا پولیس کے اہلکار بزدل نہیں مگر دہشت گردی کے خلاف جنگ کی اس نئی لہر میں ہمیں خودکش حملوں کے سامنے تنہا چھوڑدیا گیاہے۔"
یہ کہنا ہے کہ پشاور پولیس کے28 سالہ کانسٹیبل اصغرعلی (جس کا نام تبدیل کیا گیاہے) کا، جن کے تین دوست پیرپشاور پولیس لائنز کی مسجد میں خود کش حملے میں ہلاک ہو گئے تھے۔
وائس آف امریکہ سےٹیلی فون پربات کرتے ہوئے اصغر علی نے کہا کہ ان کے صوبے میں پولیس اہلکار ٹی ٹی پی کے حملوں کا نشانہ بن رہے ہیں لیکن اسلام آباد میں بیٹھے حکمران اورسیکیورٹی ادارے ساری توانیاں اورفنڈز حکومتی جوڑ توڑ اور آئندہ انتخابات جیتنے پر صرف کر رہے ہیں۔
اصغر علی جیسے کئی اہلکار پشاور خودکش حملے پر جذباتی ہیں اور وہ خود کو تنہا محسوس کر رہے ہیں۔ بدھ کو پشاور پریس کلب کے باہر لگ بھگ دو درجن اہلکار پولیس یونیفارم پہنے اور اسلحہ اٹھائے جمع ہوئے اور انہوں نے پولیس لائنز کی مسجد میں ہونے والے خودکش حملے کے خلاف احتجاج کیا۔
پولیس اہلکاروں کی جانب سے ایسے مظاہرے مردان اورصوابی میں بھی ہوئے جہاں اہلکاروں نے وفاقی حکومت اورسیکیورٹی اداروں پرتنقید کرتے ہوئے پشاوردھماکے کی شفاف تحقیقات کا مطالبہ کیا۔
پاکستان میں پولیس اہلکاروں کی جانب سے اس طرح کے مظاہرے اپنی نوعیت کے پہلے مظاہرے سمجھے جارہے ہیں۔حالیہ سیاسی منظر نامے میں جہاں بے یقینی کی سی کیفیت پائی جاتی ہے وہیں پشاور خودکش حملے اور اس کے بعد خیبر پختونخوا پولیس کے بعض اہلکاروں کی جانب سے احتجاج نے کئی سوالات کو جنم دیا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
لیکن انسپکٹر جنرل خیبر پختونخوا پولیس کے دفتر سے جاری ہونے والے ایک مراسلے میں کہا گیا ہے کہ پولیس افسروں اور جوانوں کی قیمتی جانوں کے نقصان پرفورس کے نوجوانوں میں اضطراب ایک فطری عمل ہے اوراس ضمن میں چند ایک مقامات پر اہلکاروں نے احتجاج بھی کیا ، وہ ان کے اضطراب کی عکاسی ہے۔"
واضح رہے کہ پشاور کے علاقے پولیس لائنز کی مسجد میں پیر کو ہونے والے خودکش حملے میں 100 سے زائد افراد ہلاک ہو گئے تھے جن میں سے بیشتر پولیس اہلکار تھے۔
کالعدم شدت پسند تنظیم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی)کے مرکزی ترجمان نے اس حملے سے لاتعلقی کا اظہار کیاہے۔ البتہ شدت پسند گروہ کے مہمند شاخ کے کمانڈروں نے حملے کی ذمے داری قبول کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ حملہ افغانستان میں ماہ اگست میں بارودی دھماکے میں ہلاک ہونے والے گروہ کے رہنما عمرخالد خراسانی کی ہلاکت کا انتقام ہے۔
پولیس لائنز کی مسجد میں دھماکے کے بعد صوبے کے مختلف علاقوں میں قانون نافذ کرنے والے اداروں خصوصاً پولیس اہل کاروں پر ہلاکت خیز حملوں میں اضافے کے اسباب اورپولیس کی دہشت گردی کو روکنے کی اہلیت کے حوالے سے ایک بحث شروع ہوئی ہے۔
'ٹی ٹی پی کا ہدف خیبر پختونخوا اور بلوچستان پولیس ہے'
گزشتہ دو سالوں کے دوران کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی)کی جانب سے پولیس اہلکاروں سمیت سیکیورٹی اداروں پر حملوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
صوبائی پولیس کے اعدادوشمارکے مطابق سال 2022 میں صوبے میں دہشت گردی کے متعدد واقعات میں 118 اہلکار ہلاک ہوئے۔ یہ ہلاکتیں زیادہ تر صوبے کے جنوبی اضلاع میں ٹی ٹی پی کی جانب سے کیے گئے حملوں میں ہوئیں۔
خیبرپختونخوا کے جنوب میں واقع ضلع بنوں میں تعینات ایک سینئر پولیس افسر کے مطابق پولیس اہلکاروں پرحملوں میں زیادہ تر ٹی ٹی پی ہی ملوث ہے جب کہ کچھ حملوں میں داعش کی افغانستان اور پاکستان شاخ 'داعش خراسان' کے ساتھ ساتھ حافظ گل بہادر کا شدت پسند گروہ بھی ملوث ہے۔
نام نہ شائع کرنے کی درخواست پرپولیس افسر نے وائس آف امریکہ کوبتایا کہ تین برس قبل تک ٹی ٹی پی اپنے اندرونی اختلافات اوردھڑے بندیوں کی وجہ سے کافی کمزورہوگئی تھی اور وہ نئے شدت پسند بھرتی کرنے میں کافی حد تک ناکام رہی تھی۔لیکن افغانستان میں طالبان حکومت کے آنے کے بعد سے ٹی ٹی پی ایک مضبوط قوت بن کر سامنے آئی ہے۔
ان کے بقول ٹی ٹی پی کا اہم نشانہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان پولیس ہے۔
SEE ALSO: پاکستان پشاور خودکش حملے کا الزام کسی پر لگانے سے پہلےتحقیقات کر لے: افغان طالبانپولیس افسر نے دعویٰ کیا کہ دہشت گردی کے واقعات میں زیادہ تر وہی شدت پسندملوث ہیں جوحال ہی میں پاکستانی حکومت اورٹی ٹی پی کے درمیان مذاکرات کے نتیجے میں واپس آئے ہیں۔
برطانوی یونیورسٹی آف واروک سے وابستہ سوشیالوجی کی استاد زوہا وسیم نے پاکستان کی پولیس فورس پرحال ہی میں ایک تحقیقی کتاب لکھی ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ خیبرپختونخوا میں پولیس اہلکاروں کااحتجاج دراصل دہشت گردی سے نمٹنے کی مبہم ریاستی پالیسی کے حوالے سے مایوسی کو ظاہر کررہی ہے۔
ان کے بقول، "دہشت گرد حملوں میں بیشتر ہلاکتیں نچلے رینکس کے اہلکاروں کی ہو رہی ہے اسی لیے ان میں مایوسی زیادہ پائی جاتی ہے۔ مگر جب تک پولیس کی اعلیٰ کمانڈ میں یہ گفتگو شروع نہ ہو، کوئی تبدیلی نہیں آسکتی۔"
زوہا وسیم کہتی ہیں کہ ٹی ٹی پی کی جانب سے پولیس کو نشانہ بنانے کی دھمکی کے بعد پولیس دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فرنٹ لائن پرکھڑی ہے۔
پاکستان کے ایک مقامی انگریزی اخبار 'دی نیوز' نے پولیس کے اعداد و شمار کا حوالہ دیتے ہوئے رپورٹ کیا تھا کہ جنوری 2007 سے جولائی 2022 تک خیبر پختونخوا کے مختلف علاقوں میں 1480 پولیس اہلکار دہشت گردی کی کارروائیوں میں ہلاک ہوئے۔ پولیس کو نشانہ بنانے کا سلسلہ جنوری 2007 میں اس وقت شروع ہوا جب پشاورپولیس کے سربراہ ملک محمد سعد کو مسجد قاسم علی خان کے قریب ایک خودکش حملے میں نشانہ بنایا گیا جس میں ان کے ساتھی بھی مارے گئے تھے۔
'ٹی ٹی پی کے پاس تھرمل اسکوپز، نائٹ ویژن سے لیس جدید اسلحہ'
پاکستان میں گزشتہ دو دہائیوں میں ٹی ٹی پی اوردیگر شدت پسند تنظیموں کی جانب سے دہشت گردی کی کارروائیوں میں ریموٹ کنٹرول دھماکے، آئی ای ڈیز، خود کش جیکٹس، کلاشنکوف سے فائرنگ اور بعض واقعات میں راکٹس کا استعمال کیا جاتارہاہے۔
مگر خیبرپختونخوا کے پولیس افسران کا کہناہے کہ ٹی ٹی پی کی جانب سے رات کے وقت پولیس اہلکاروں پرحملوں میں جدید اسلحہ استعمال کیاجارہاہے جن میں تھرمل امیجنگ اسکوپز کے ساتھ ساتھ نائٹ ویژن کے آلات شامل ہیں۔
تیرہ جنوری کو پشاورکے مضافاتی علاقے سربند میں ٹی ٹی پی کے ایک حملے میں ڈی ایس پی رینک کے افسر سمیت تین اہلکار مارے گئے تھے جب کہ 8 جنوری کو ڈیرہ اسماعیل خان ضلع میں واقع یارک پولیس اسٹیشن پرٹی ٹی پی کے حملے میں عمارت کو جزوی نقصان پہنچا تھا۔
بنوں میں تعینات پولیس افسر کاکہناہے کہ یہ دونوں حملے رات کو کیے گئے جن میں شدت پسندوں کے اسنائپرہتھیاروں پرتھرمل امیجنگ اسکوپز اور نائٹ ویژن فٹ تھے جس کی مدد سے رات کے اندھیرے کے باوجود دور سے ہدف کونشانہ بنایا جا سکتا ہے۔
SEE ALSO: پشاور دھماکہ: ٹی ٹی پی کا پہلے اقرار اور پھر انکار، حملہ آخر کیا کس نے؟ان کا خیال ہے کہ ٹی ٹی پی کے شدت پسندوں کے ہاتھوں یہ جدید ہتھیار افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کے بعد لگے ہوں گے۔
گزشتہ برس اگست ٹی ٹی پی نے اپنے شدت پسندوں کی جدید ہتھیاروں کے ساتھ تربیت کی بعض تصاویر جاری کی تھیں جب کہ کالعدم تنظیم اپنے حملوں میں اسنائپر اور لیزر گنز کا استعمال کرنے کا دعویٰ کرتی رہی ہے۔
شدت پسندی کے موضوعات کو کورکرنے والی ویب سائٹ 'میلٹنٹ وائر' سےو ابستہ وار نوئر کے مطابق ان تصاویر میں ٹی ٹی پی کے شدت پسندو ں کے پاس وہ تھیار تھے جو افغانستان میں اتحادی افواج نے افغان نیشنل آرمی کو دیےتھے۔ جن میں ایم 23 اسنائپررائفلز اورایم فور کاربائنز بمعہ ٹریجیکون اسکوپ اورایم 14 اے رائفل بمعہ تھرمل اسکوپ شامل تھے۔
خیبر پختونخوا پولیس افسران کے مطابق صوبے کے کچھ جنوبی اضلاع میں پولیس کو بھی تھرمل اسکوپز جیسا جدید اسلحہ فراہم کردیا گیاہے مگر یہ تعداد کافی کم ہے۔
بنوں کے پولیس افسر کا کہناہے کہ ماضی میں پشاور میں آرمی پبلک اسکول پرحملے کے بعد ٹی ٹی پی کے خلاف جب آپریشن کا فیصلہ ہوا تو ملک کی سیاسی وعسکری قیادت اورمرکز اورصوبوں کی حکومتوں میں ایک اتفاق رائے پایا گیا تھا۔ بعدازاں ٹی ٹی پی کے خلاف آپریشن میں عسکری اورانٹیلی جنس اداروں کا پولیس اورکاؤنٹر ٹیرارزم ڈیپارنمںٹ کے مابین انٹیلی جنس شیئرنگ اورجوائنٹ آپریشن کاسلسلہ شروع ہوا۔
ان کے بقول، " اس بار دہشت گردی کی نئی لہر کو روکنے میں پاکستان کی عسکری اوراسلام آباد کی قیادت کا سنجیدہ کردار سامنے نہیں آیا جس کی وجہ سے صوبے کی پولیس اضطراب کاشکارہے۔"
Your browser doesn’t support HTML5
نیشنل کاؤنٹر ٹیررازم اتھارٹی (نیکٹا) کے سابق نیشنل کوآرڈینیٹر اور سابق آئی جی خیبرپختونخوا احسان غنی کہتے ہیں پاکستانی ریاست اب تک اس بات پر واضح نہیں ہورہی کہ ٹی ٹی پی کی جانب سے بڑھتی ہوئی دہشت گردی سے کیسے نمٹا جائے جب کہ دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کرنے یا ان سے بات چیت کا سلسلہ دوبارہ شروع کرنے پر بدستور ابہام موجود ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا ملک کی سویلین اورعسکری قیادت پرمشتمل نیشنل سیکیورٹی کمیٹی کے اجلاس کوہوئے پانچ ہفتے گزرچکے ہیں مگراب تک یہ معلوم نہ ہوسکا کہ اتنے اہم اجلاس میں دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے کیا لائحہ عمل طے کیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ریاست کی ترجیحات میں داخلی سلامتی سے زیادہ ملکی سیاست ہے اورخیبرپختونخوا میں ساری توانائیاں اس بات پرخرچ کی گئی کہ کون کون نگران حکومت کا حصہ بنے گا۔
احسان غنی کا کہناہے کہ 2014 میں ٹی ٹی پی کے خلاف آپریشن میں پاکستان کو امریکہ اوردیگر مغربی ممالک کی مدد حاصل تھی جو پاکستانی ادراوں کے ساتھ انٹیلی جنس اورٹیکنالوجی شیئرنگ بھی کرتے رہے تھے۔
ان کے بقول، " ٹی ٹی پی کے بانی بیت اللہ محسود سے لے کر آخری سربراہ ملا فضل اللہ تک گروہ کے تمام سربراہوں کو ہلاک کرنے میں امریکی ڈرونز کا کلیدی کردار تھا جس سے شدت پسند گروہ کو کمزور کرنے میں کافی مدد ملی تھی مگر دہشت گردی کی اس نئی جنگ میں پاکستان اکیلا کھڑا ہے۔ "
ملک میں آئی جی کے عہدوں پرفائز رہنے والے افسران کی تنظیم 'ایسوسی ایشن آف فارمر انسپکٹرجنرل پولیس پاکستان' کے جنرل سیکریٹری ڈاکٹرکلیم امام نے ایک اعلامیے میں کہا ہے کہ "اس مشکل صورتِ حال میں پولیس فورس کا مورال بری طرح متاثر ہواہے لیکن ان کی بہادری اورقربانی کو کوئی نہیں بھولے گا۔"
تنظیم نے ضروری انفراسٹرکچر ، فنڈزکی فراہمی اورفورس کے وسائل کوبہتر بنانے کا مطالبہ کیا ہے۔