'پاکستان بحریہ نے کس قانون کے تحت تجارتی منصوبے شروع کر دیے ہیں؟'

فائل فوٹو

اسلام آباد ہائی کورٹ نے وفاقی دارالحکومت میں راول ڈیم کے کنارے پاکستان بحریہ کے سیلنگ کلب کو سیل کرنے کا حکم دے دیا ہے جب کہ معاملہ وفاقی کابینہ میں پیش کرنے کی ہدایت کی ہے۔

دورانِ سماعت چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ یہ کوئی قبائلی علاقے نہیں ہے بلکہ وفاقی دارالحکومت ہے۔ پاکستان بحریہ نے کس قانون اور اتھارٹی کے تحت کارباری منصوبے شروع کر دیے ہیں؟

اسلام آباد میں راول ڈیم کے کنارے پاکستان نیوی کے سیلنگ کلب کی تعمیر کے خلاف دائر درخواست پر سماعت اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر امن اللہ نے کی۔

جب کیس کی سماعت شروع ہوئی تو چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ نیوی کی گئی تعمیرات قانونی ہیں یا غیر قانونی۔

اسلام آباد کے ترقیاتی ادارے (سی ڈی اے) کے حکام نے آگاہ کیا کہ وزیرِ اعظم نے راول جھیل کے کنارے تعمیرات کی اجازت دی تھی۔

جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ میں جو آپ سے پوچھ رہا ہوں اس کا جواب دیں۔ زمین کا الاٹمنٹ لیٹر کہاں ہے؟

سی ڈی اے حکام نے بتایا کہ زمین کا الاٹمنٹ لیٹر نہیں ہے۔ ہم نے نیوی سیلنگ کلب کو نوٹس جاری کیے ہوئے ہیں۔ نیوی سیلنگ کلب غیر منظور شدہ ہے۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ غیر منظور شدہ کیا ہوتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ یہ غیرقانونی ہے۔ سی ڈی اے کا جواب خطرناک ہے جب کہ سی ڈی اے اتھارٹی منوانے میں بھی ناکام رہی ہے۔ ابھی تک ادارے نے کوئی کارروائی بھی نہیں کی۔

ان کا کہنا تھا کہ غریب آدمی کے ساتھ سی ڈی اے کیا کرتا ہے۔ یہ دوہرا معیار کیوں؟ جائیں اور جا کر غیر قانونی عمارتیں گرائیں۔ اگر کلب سیل نہ کیا گیا تو آئندہ سماعت پر سیکریٹری کابینہ عدالت میں پیش ہوں۔

راول ڈیم اسلام آباد اور راولپنڈی کے شہریوں کے لیے اہم تفریحی مقام ہے۔(فائل فوٹو)

کیس کی سماعت کرتے ہوئے چیف جسٹس نے مزید کہا کہ قانون کی بالادستی ہو گی۔ کوئی قانون سے بالاتر نہیں ہے۔ سی ڈی اے ممبر بورڈ بتانے میں کترا رہے ہی‍ں کہ کمرشل بلڈنگ پاکستان نیوی کی ہے اور غیرقانونی ہے۔

پاکستان بحریہ کے نمائندے نے عدالت سے جواب جمع کرانے کے لیے وقت دینے کی استدعا کی تو چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ کس بات کا وقت چاہیے۔ اس عدالت سمیت کوئی بھی قانون سے بالاتر نہیں ہے۔

پاکستان بحریہ کے نمائندے کو مخاطب کرتے ہوئے چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ کی بہت عزت ہے۔ آپ کے شہیدوں کے لیے ہم کسی قسم کی بھی قربانی دینے کے لیے تیار ہیں۔ لیکن اگر آپ غیر قانونی کام کریں گے تو یہ درست نہیں۔ آپ کیوں اس چیز کا دفاع کر رہے ہیں جس کا دفاع نہیں کر سکتے۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کیس میں معاونت کی پیشکش کی تو چیف جسٹس نے نے اسے مسترد کرتے ہوئے کہا کہ آپ معاونت نہیں کر سکتے پہلے جائیں اور بلڈنگ سیل کریں۔ یہ کوئی قبائلی علاقے نہیں ہیں بلکہ وفاقی دارالحکومت ہے۔ بحریہ نے کس قانون اور اتھارٹی کے تحت کمرشل پراجیکٹس شروع کر دیے ہیں۔

راول ڈیم کے کنارے سیلنگ کلب کا افتتاح رواں ماہ کیا گیا تھا۔ اس کلب کی رکنیت صرف افواجِ پاکستان کے موجودہ اور ریٹائرڈ ملازمین، بیوروکریٹ، کاروباری شخصیات اور سفارت کار اس کی رکنیت حاصل کر سکتے ہیں۔

افواجِ پاکستان کے حاضر سروس اور ریٹائرڈ ملازمین کے لیے ممبر شپ فیس دس ہزار روہے، بیوروکریٹس کے لیے ڈیڑھ لاکھ روپے جب کہ تاجروں اور سفارت کاروں کے لیے چھ لاکھ روپے تک ہے۔

کلب کے افتتاح کے بعد سی ڈی اے حرکت میں آیا تھا اور 13 جولائی کو پاکستان نیوی سیلنگ کلب کی غیر قانونی اور غیر مجاز تعمیر کے لیے نوٹس جاری کیا تھا۔

سی ڈی اے کے بلڈنگ کنٹرول سیکشن کے جاری کردہ نوٹس کے مطابق پاکستان نیوی سیلنگ کلب کو ہدایت کی گئی تھی کہ وہ کلب کی عمارت کی غیر قانونی اور غیر مجاز تعمیر کو فوری طور پر روکے۔

نوٹس میں لکھا گیا تھا کہ ماضی میں بھی پاکستان نیوی کو متعدد بار نوٹس بھیجے گئے مگر انہوں نے غیر قانونی تعمیرات نہیں روکیں۔

پاک بحریہ کے شعبہ تعلقات عامہ کے ڈائریکٹر کمانڈر راشد نے اس معاملے پر وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ سیلنگ کلب میں غوطہ خوروں کی تربیت ہوتی ہے۔

ان کے بقول یہ غوطہ خور شمالی علاقہ جات اور پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں ریسکیو آپریشن میں حصہ لیتے ہیں کیوں کہ ملک کے شمال میں اس طرح کی یہ واحد سہولت ہے۔

کمانڈر راشد نے مزید کہا کہ یہ معاملہ عدالت میں ہے اور عدالت ہی اس بارے میں فیصلہ کرے گی۔ البتہ ان کا کہنا تھا کہ جب سے یہ کلب بنا ہے پاکستان بحریہ کے غوطہ خور اب تک 54 مختلف واقعات میں شہریوں کو ڈوبنے سے بچا چکے ہیں۔

تاہم انہوں نے یہ واضح نہیں کہ ان 54 واقعات میں حصہ لینے والے تمام غوطہ خور اسی کلب کے اراکین تھے یا نہیں۔

نیوی سیلنگ کلب کی منظوری 1991 میں اس وقت کے وزیرِ اعظم نواز شریف نے دی تھی۔ 1992 سے یہ کلب روال ڈیم پر قائم ہے لیکن اب اس کلب میں جدت لائی گئی ہے اور بیوروکریٹس، تاجروں اور سفارت کاروں کو اس کی ممبر شپ کی پیشکش کی گئی ہے۔

اس کلب کے حوالے سے سوشل میڈیا پر شدید تنقید کی جا رہی ہے جب کہ سوشل میڈیا پر پاکستان بحریہ کے اس کلب کے حوالے سے ہزاروں پوسٹس اب تک لگائی جا چکی ہیں۔