سال 2021 پاکستان اور ترکی دونوں ہی کے لیے معاشی لحاظ سے اس لیے اہم رہا کہ دونوں ممالک کی کرنسی کی قدر میں کمی دیکھی گئی۔
پاکستان کی کرنسی 'روپے' کی قدر میں گزشتہ سال میں 10 فی صد کمی دیکھی گئی جب کہ ترکی کی کرنسی 'لیرا' لگ بھگ 40 فی صد گراوٹ کا شکار ہو چکی ہے۔
کرنسی میں شدید گراوٹ کی وجہ سے دونوں ممالک کے عوام مہنگائی سے شدید متاثر ہو رہے ہیں اور یہاں اکثر اشیائے خور و نوش کی قیمتوں میں انتہائی بلند شرح کے ساتھ اضافہ دیکھا جا رہا ہے جب کہ لوگ حکومت کی معاشی پالیسیوں سے نالاں نظر آتے ہیں۔
پاکستان اور ترکی کی معیشت کے بنیادی اشاریے کیا کہہ رہے ہیں؟
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دونوں اسلامی ممالک کی کرنسی میں اس کمی اور نتیجے کے طور پر مہنگائی کی وجوہات مشترک ہیں یا نہیں؟
ماہرینِ معیشت کے خیال میں اس بات کو جانچنے کے لیے سب سے پہلے یہ بات جاننا ضروری ہے کہ دونوں ممالک کے معاشی اشاریے کیا بتاتے ہیں۔
آبادی کے لحاظ سے دنیا کا پانچواں بڑا ملک پاکستان تقریباً 22 کروڑ سے زائد لوگوں کا ملک ہے جس کی مجموعی قومی پیداوار یعنی جی ڈی پی 299 ارب ڈالرز بتائی جاتی ہے جو عالمی بینک کی توقع کے مطابق رواں مالی سال کے دوران 3.5 فی صد کے حساب سے بڑھنے کا امکان ہے اور یہاں فی کس آمدنی 1500 ڈالرز سے کچھ بلند بتائی جاتی ہے۔
اسی طرح پاکستان کی کُل برآمدات گزشتہ سال 25 ارب ڈالر کے لگ بھگ رہیں جب کہ اس کی درآمدات اس کے مقابلے میں کوئی 53 ارب ڈالرز کے لگ بھگ ریکارڈ کی گئیں اور حالیہ اعداد و شمار کے مطابق ملک پر قرضوں کا بوجھ سالانہ قومی پیداوار کے 83 فی صد کے لگ بھگ ہے جب کہ غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر 24 ارب ڈالرز کے قریب ہیں۔
اس کے مقابلے میں ترکی کی اگر بات کی جائے تو اس کی آبادی ساڑھے آٹھ کروڑ سے کچھ زائد بتائی جاتی ہے جب کہ عالمی بینک کے اعداد و شمار کے مطابق اس کا جی ڈی پی 720 ارب ڈالر کے قریب ہے جو سال 2021 میں آٹھ فی صد سے زائد کی رفتار سے بڑھنے کی توقع کی گئی تھی۔
SEE ALSO: ترکی کا معاشی بحران: کیا ایردوان اپنی خارجہ پالیسی تبدیل کرنے پر مجبور ہو رہے ہیں؟ترکی میں اوسط فی کس آمدنی آٹھ ہزار ڈالرز سے بھی زائد ہے جب کہ گزشتہ سال اس کی برآمدات کوئی 225 ارب ڈالرز سے بھی زائد کی رہیں اور اس کی درآمدات 271 ارب ڈالرز کے قریب رہیں۔ جب کہ یہاں ملکی قرضوں کا حجم مجموعی قومی پیداوار یعنی جی ڈی پی کا محض 40 فی صد بتایا جاتا ہے۔
ترکی کے غیر ملکی ذرمبادلہ کے ذخائر 121 ارب ڈالرز کے لگ بھگ ہیں۔
ان اعداد و شمار سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستان کے مقابلے میں ترکی کی معیشت کہیں زیادہ مضبوط اور توانا ہے لیکن اس کے باوجود بھی کیا وجہ ہے کہ دونوں ممالک کی کرنسی میں اس قدر گراوٹ دیکھی جارہی ہے جس کے نتیجے میں وہاں کے شہری مہنگائی کا شکار ہیں؟
کراچی کی نجی جامعہ حبیب یونیورسٹی میں معاشیات کے پروفیسر ڈاکٹر اقدس افضل کا کہنا ہے کہ پاکستان اور ترکی کی معیشتیں بنیادی طور پر بالکل مختلف ہیں اور ترکی کی معیشت دنیا کی 21 ویں بڑی معیشت ہے اور کچھ برس میں یہ دنیا کی 20 بڑی معیشت یعنی جی 20 میں شمار ہونے لگے گا۔
ڈاکٹر اقدس کا کہنا تھا کہ ترکی کے مقابلے میں پاکستانی معیشت تین گنا چھوٹی ہے۔ حالاں کہ ترکی کی آبادی پاکستان کی محض 40 فی صد آبادی کے برابر ہے یعنی پاکستان ایک غریب ملک ہے جب کہ ترکی درمیانے درجے کی آمدن کا ملک ہے۔ اسی طرح ترکی پاکستان سے تقریباََ 10 گنا زیادہ برآمدات کرتا ہے۔
'ترکی کی کرنسی میں بڑی گراوٹ صدر اردوان کی غیر روایتی معاشی پالیسی'
ڈاکٹر اقدس افضل نے بتایا کہ ترکی کی کرنسی کی قدر گرنے کی وجوہات پاکستان کی کرنسی کی وجوہات سے بالکل مختلف ہیں۔
ترکی میں افراطِ زر نے جب سر اٹھانا شروع کیا تو صدر طیب اردوان نے اس کا مقابلہ کرنے کے لیے غیر روایتی انداز کی پالیسی اپنائی جس کے تحت ملک میں مہنگائی کو کنٹرول کرنے کے لیے شرح سود بڑھانے کے بجائے اسے مزید کم کر دیا گیا۔
ڈاکٹر اقدس افضل کا کہنا ہے کہ ترکی کا مرکزی بینک چوں کہ اس قدر آزاد و خود مختار نہیں ہے اس لیے وہاں کے مرکزی بینک کو شرح سود پانچ فی صد کم کرنے کو کہا گیا۔ اس کے پیچھے صدر طیب اردوان کی یہ سوچ تھی کہ انہیں سودی نظام پسند نہیں اور دوسرا ان کا خیال تھا کہ اس سے ملکی معیشت مزید تیزی سے ترقی کرے گی۔
Your browser doesn’t support HTML5
ان کا کہنا تھا کہ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ پانچ فی صد شرح سود کم کرنے سے سرمایہ کاروں کو جو منافع مل رہا تھا وہ مزید کم ہو گیا جو پہلے ہی تیز رفتار مہنگائی سے نقصان اٹھا رہے تھے۔ اس لیے سرمایہ کاروں نے ترکی سے سرمایہ نکالنا شروع کر دیا جس سے ترکی کی کرنسی مزید گرنا شروع ہو گئی اور ایک سال میں ترکی کی کرنسی لیرا کی قدر 44 فی صد کم ہوئی ہے اگرچہ کرنسی گرنے کے بعد کچھ حد تک ریکوری تو ہوئی ہے لیکن کرنسی میں اس قدر بڑی کمی نے ملک کے اندر کئی مسائل کو جنم دیا ہے جن میں غربت سرفہرست ہے۔
اقدس افضل کا کہنا ہے کہ ترکی کی حکومت نے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 50 فی صد اضافے کا فیصلہ کیا ہے لیکن وہاں کے معاشی ماہرین نے یہ خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اس سے افراط زر میں مزید اضافہ ہوگا۔
ان کے بقول ترکی کا اس وقت سب سے بڑا مسئلہ افراطِ زر بنا ہوا ہے جو قابو سے باہر ہوتے ہوئے 44 فی صد پر جا پہنچا ہے اور ظاہر ہے اس سے بہت ہی شدید قسم کی سماجی بے چینی پیدا ہو رہی ہے جیسے کہ کچھ دن پہلے قازقستان میں ہوئی اور وہاں کی حکومت کو مستعفی ہونا پڑا۔ جب کہ ترکی کی حکومت کے خلاف ترکی میں کافی احتجاج بھی کیا گیا ہے۔
اقدس افضل اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ ترکی کو بھی کرونا کے بعد عالمی منڈی میں اجناس کی بڑھتی ہوئی قیمتوں سے بھی مہنگائی کا سامنا ضرور کرنا پڑا جیسے کہ پاکستان اور دیگر ممالک کو کرنا پڑ رہا ہے لیکن ان کے خیال میں ترکی میں مہنگائی کی اتنی بڑی لہر کی وجہ ترک حکومت کی اپنی پالیسی تھی۔ جس کا انہوں نے انتخاب کیا۔ یہ پالیسی کامیاب ثابت ہوتی نظر نہیں آئی، اس کا بُرا اثر پڑا اور اس سے افراطِ زر میں اضافہ دیکھا گیا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ دوسری جانب پاکستان کے پالیسی سازوں نے اس متعلق بڑے پھونک پھونک کر قدم رکھے ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ مرکزی بینک کو بخوبی ادراک ہے کہ اس وقت دنیا میں کیا ہو رہا ہے۔ تاہم پاکستان میں حکومت انتہائی ٖغریب طبقات کو ریلیف فراہم کرنے میں بہت پیچھے رہ گئی ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
ان کے خیال میں اس مشکل وقت میں مرکزی بینک کی بہتر پالیسی کے ساتھ غریب طبقے کو سبسڈی اور خاص طور پر پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں انہیں ریلیف دینا بہت ضروری تھا۔ کیونکہ غریب افراد اپنی آمدنی کا بہت بڑا حصہ ٹرانسپورٹیشن پر خرچ کردیتے ہیں۔
'پاکستان کا مسئلہ بیرونی ادائیگیوں کا توازن خراب ہونا، ترکی کا مسئلہ پالیسی نوعیت کا ہے'
دوسری جانب پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس میں معاشیات کے پروفیسر ڈاکٹر عبدالجلیل کے مطابق پاکستان کی معیشت کا بیرونی سیکٹر بہت ہی خراب ہے اور وہ آج سے نہیں بلکہ گزشتہ 50، 60 برس سے خراب ہے۔ پاکستان کا تجارتی توازن ایک دو دفعہ کے علاوہ ہمیشہ ہی خسارے کا شکار رہا ہے جس کی وجہ سے پاکستان کو ادائیگیوں کے عدم توازن کا سامنا رہا ہے اور اسی وجہ سے پاکستان اب تک 22 بار آئی ایم ایف کے پاس جا چکا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ان کا مسئلہ یہ ہے کہ یہاں غیر ملکی زرِ مبادلہ نہیں ہے۔ یہ مسئلہ اس وقت تک رہے گا جب تک ملک کی برآمدات بڑھ نہیں جاتیں۔ یہاں غیر ملکی سرمایہ کاری نہیں آتی۔ یعنی ایکسٹرنل سیکٹر کی اصلاح ضروری ہے اور ظاہر ہے وہ ایک دو دن یا چند ماہ کا مسئلہ نہیں بلکہ برسوں پر محیط ہو گا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان کی معیشت کا مسئلہ دائمی اور مرض بڑا ہے جب کہ دوسری جانب ترکی کو اس قسم کے مسئلے کا سامنا نہیں۔ ترکی میں ڈالریئزیشن کا خطرہ تھا۔ اس کو یوں سمجھنا ہوگا کہ ترکی میں یورو اور ڈالر عام کرنسیاں ہیں۔ کرونا وبا کے بعد مہنگائی کی وجہ سے لوگوں نے ڈالرز رکھنے/ ہولڈ کرنے شروع کر دیے تھے جب کہ لیرا مارکیٹ میں زیادہ آ رہا تھا، رسد بڑھنے کی وجہ سے لیرا کی قدر گرنے لگ گئی۔ اس لیے پاکستان اور ترکی کا مسئلہ ایک جیسا نہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
مہنگائی اور کرنسی گراوٹ سے سبق کیا ملا؟
اقدس افضل کے مطابق اس میں سب سے بڑا سبق یہ ملتا ہے کہ معاشی بحرانوں کے وقت تجربات نہیں کیے جاتے بلکہ اس کے لیے ایسی پالیسیوں کا اپنانا ضروری ہوتا ہے جن کی افادیت ثابت ہو تاکہ اس کے کوئی غیر معمولی اور قابو سے باہر جانے والے اثرات نہ نکلیں اور یہی ترکی کے کیس میں ہوا ہے جس سے وہاں سیاسی بے چینی مزید بڑھے گی اور ظاہر ہے اس سے صدر ایردوان کی جسٹس پارٹی کی پوزیشن بہت کمزور ہوئی ہے جو 2002 سے ترکی پر حکومت کرتی آ رہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے لیے سبق یہ ہے کہ اس مشکل وقت میں حکومت غریب طبقے کو ریلیف فراہم کرنے میں ناکام رہی ہے جس کے بُرے اثرات جرائم کی بڑھنے اور لوگوں کو مشکلات کی صورت میں سامنے آرہے ہیں۔
ان کے بقول ترکی کے صدر شرح سود کم کرنے کے فیصلے پر قائم ہیں اور اس کا بھرپور دفاع کر رہے ہیں۔ وہ اپنی تقاریر میں ترکی میں مہنگائی کے ذمے دار بیرونی طاقتوں اور ان کے ملک کے اندر موجود حلیفوں کا قرار دیتے ہیں جس کے خلاف انہوں نے ‘معاشی آزادی کی جنگ’ شروع کرنے کا اعلان کر رکھا ہے۔ ترکی کو اس جنگ میں کامیابی ہوگی یا ناکامی، ابھی یہ دیکھنا باقی ہے۔