مہمند ایجنسی میں نیٹو کے ’’ناقابل برداشت‘‘ حملے کے خلاف اپنے شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے پاکستان نے 5 دسمبر کو جرمنی کے شہر بون میں افغانستان کے مستقبل پر منعقد کی جانے والی بین الاقوامی کانفرنس کے بائیکاٹ کا فیصلہ کیا ہے۔
یہ اقدام منگل کو لاہور میں ہونے والے وفاقی کابینہ کے اجلاس میں کیا گیا جس کی صدارت وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے کی۔
کابینہ نے پاکستانی فوجیوں پر نیٹو حملے کی مذمت کرتے ہوئے اسے پاکستان کی سالمیت پر حملہ قرار دیا۔ ’’وزیر اعظم نے کہا کہ پاکستان کی سالمیت اورعلاقائی خودمختاری اور نہ ہی اپنی سرحدوں کے تحفظ کے عزم پر کوئی سمجھوتا کیا جا سکتا ہے۔‘‘
اجلاس کے بعد جاری ہونے والے بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ امریکہ اور نیٹو کے ساتھ پاکستان کے تعاون پر نظرثانی کے فیصلے کی بھی اراکین نے توثیق کی اور اس امر پر افسوس کا اظہار کیا گیا کہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے پاکستانی قوم کی قربانیوں کو نظر انداز کیا گیا ہے۔
’’اس طرح (نیٹو حملہ) کی کارروائیاں شراکت داری کی روح کے منافی ہیں اور ان حالات میں معمول کے تعلقات کا تسلسل ممکن نہیں رہا۔‘‘
مبصرین کا ماننا ہے کہ پاکستان کی عدم شرکت بون میں منعقد ہونے والی کانفرنس کے لیے ایک بڑا دھچکا ہوگی کیونکہ ان کے خیال میں افغانستان میں طالبان کے ساتھ امن و مفاہمت کے عمل کو آگے بڑھانے میں اسلام آباد کا کلیدی کردار ہے۔
پیر کو امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نے اس امید کا اظہار کیا تھا کہ پاکستان اس بین الاقوامی کانفرنس میں شرکت کو یقینی بنائے گا۔ لیکن اس کے باوجود پاکستان کی عدم شرکت کا فیصلہ بظاہر ملک میں نیٹو اور امریکہ کے خلاف پائے جانے والے شدید غصے کا ایک اور اظہار ہے۔
افغان صدر حامد کرزئی نے منگل کو وزیر اعظم گیلانی سے ٹیلی فون پر رابطہ کر کے بون کانفرنس کے بائیکاٹ کے فیصلے پر نظر ثانی کی درخواست کی اور کہا کہ پاکستان کی عدم موجودگی افغانستان میں قیام امن کی کوششوں کے لیے مدد گار ثابت نہیں ہو گی۔
کابینہ کو منگل کے روز یہ بھی بتایا گیا کہ مہمند ایجنسی میں نیٹو کے مہلک حملے اور صدرِ پاکستان سے منسوب مبینہ خط کے بارے میں پارلیمان کی قومی سلامتی کی کمیٹی کی سفارشات موصول ہونے کے بعد وزیر اعظم گیلانی قومی اسمبلی اور سینیٹ کا مشترکہ اجلاس بلائیں گے۔
نیٹو کی فضائی کارروائی پر پاکستان نے شدید ردِ عمل ظاہر کرتے ہوئے افغانستان میں تعینات بین الاقوامی افواج کے لیے پاکستان کے راستے بھیجی جانے والی رسد بند کرنے کے علاوہ امریکہ کو بلوچستان میں شمسی ایئر بیس خالی کرنے کے لیے بھی دو ہفتوں کی مہلت دینے کا اعلان کیا تھا۔
ملک کے مختلف شہروں میں نیٹو کے حملے کے خلاف احتجاجی ریلیاں بھی نکالی جا رہی ہیں جن میں امریکہ سے تعلقات ختم کرنے اور نیٹو کو پاکستانی سر زمین سے بھیجی جانے والی رسد پر مستقل پابندی کے مطالبات کیے جا رہے ہیں۔
منگل کو پاکستان کی عسکری قیادت نے مقامی میڈیا کے نمائندوں کو دی گئی بریفنگ میں ایک بار پھر واضح کیا ہے کہ نیٹو کا حملہ کسی غلط فہمی کا نتیجہ نہیں تھا بلکہ ’’یہ دانستہ طور پر کی گئی کارروائی تھی‘‘۔
ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز میجر جنرل اشفاق ندیم نے اپنے موقف کی تائید میں حملے کی منظر کشی بھی کی اور کہا کہ نیٹو کمانڈرز کو فوری طور پر اس حقیقت سے آگاہ کیا گیا کہ اُن کے طیاروں کا ہدف پاکستانی فوجی چوکی ہے لیکن اس کے باوجود فائرنگ کا سلسلہ تقریباً دو گھنٹوں تک جاری رہا۔
امریکہ نے پاکستان کے ساتھ تعلقات کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے یقین دلایا ہے کہ نیٹو حملے کی مفصل تحقیقات کر کےاس کے محرکات کا تعین کیا جائے گا۔ اس مقصد کے لیے امریکی سینٹرل کمان کے سربراہ جنرل جیمز ماٹیس نے بریگیڈئر جنرل اسٹیفن کلارک کو مہمند ایجنسی میں کیے گئے حملے کی تحقیقات کی ذمہ داری سونپی ہے۔
اُنھوں نے تفتیشی افسر کو ہدایت کی ہے کہ وہ نیٹو کی زیر قیادت بین الاقوامی افواج کے علاوہ افغان اور پاکستانی نمائندوں سے بھی اس واقعہ کے بارے میں معلومات حاصل کرکے 23 دسمبر تک اپنی رپورٹ پیش کریں۔
امریکی رہنماؤں نے سرحد پار پاکستانی افواج کے خلاف نیٹو کی کارروائی پر افسوس اور ہمدردی کا اظہار کیا ہے لیکن تاحال اُنھوں نے اس کا الزام اپنے سر نہیں لیا جس کی وجہ فائرنگ کی پہل کرنے کے بارے میں متضاد اطلاعات بتائی جا رہی ہیں۔
ایبٹ آباد میں القاعدہ کے مفرور لیڈر اُسامہ بن لادن کے خلاف امریکی کمانڈوز کے آپریشن کے بعد پاک امریکہ تعلقات سخت کشیدگی کا شکار ہو گئے تھے لیکن حالیہ ہفتوں میں دونوں جانب سے سفارتی رابطوں میں بہتری اور تعلقات میں پیش رفت کے دعوؤں کے تناظر میں حالات معمول پر آنا شروع ہو گئے تھے۔
تاہم مہمند ایجنسی میں نیٹو کی کارروائی کے بعد بظاہر دوطرفہ تعلقات ایک مرتبہ پھر بدترین کشیدگی سے دو چار ہو گئے ہیں۔ پاکستانی فوج نے اطلاعات کے مطابق اپنے کئی اعلٰی وفود کے امریکی دوروں کو منسوخ کردیا ہے جب کہ امریکی حکام کو بھی فی الحال نا آنے کا کہا گیا ہے۔
اس کے علاوہ مقامی ذرائع ابلاغ نے کہا ہے کہ کراچی کی بندرگاہ پر بھی نیٹو کے سامان سے لدے کسی جہاز کو لنگر انداز ہونے کی اجازت نہ دینے کی ہدایات جاری کی گئی ہیں۔