بھارت کی ریاست بہار کے شہر پٹنہ کی ایک خصوصی عدالت نے وزیرِ اعظم نریندر مودی کی ریلی میں سلسلہ وار بم دھماکے کے چار ملزمان کو سزائے موت اور دو کو عمر قید کی سزا سنائی ہے۔ مذہبی جماعت جمعیت علمائے ہند نے عدالتی فیصلے کو چیلنج کرنے کا اعلان کیا ہے۔
پٹنہ کی نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی (این آئی اے) کی خصوصی عدالت نے پیر کو 2013 میں ہونے والے بم دھماکوں کے کیس کا فیصلہ سنایا۔
عدالت نے مقدمے میں نامزد نو میں سے چار ملزمان کو سزائے موت، دو کو عمر قید، دو کو دس دس سال اور ایک کو سات سال قید کی سزا سنائی جب کہ ایک ملزم کو عدم شواہد کی بنا پر بری کر دیا ہے۔
این آئی اے کی خصوصی عدالت کے جج گوروندر سنگھ ملہوترہ نے قرار دیا کہ ملزمان پر غداری، مجرمانہ سازش، قتل، اقدامِ قتل اور حکومت کے خلاف جنگ چھیڑنے کے الزامات ثابت ہو گئے ہیں۔
2013 کے بم دھماکوں کے ملزمان کو قانونی امداد فراہم کرنے والی جمعیت علمائے ہند کی قانونی امداد کمیٹی مہاراشٹرا کے سربراہ گلزار اعظمی کے مطابق تمام ملزمان بے قصور ہیں اور عدالت نے صرف حکومت کو خوش کرنے کے لیے انہیں سزا سنائی ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے گلزار اعظمی کا کہنا تھا کہ ان کی جانب سے ملزمان کے خلاف پیش ہونے والوں کی گواہیوں کو غلط ثابت کیا گیا۔ لیکن عدالت نے ان کے دلائل پر کوئی توجہ نہیں دی اور صرف تفتیشی ایجنسی کے دلائل پر انحصار کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ ملزمان کا تعلق کسی بھی تنظیم سے نہیں۔ ان پر غلط الزام لگایا گیا ہے۔
SEE ALSO: بھارت: جموں ائیر پورٹ پر دو دھماکےگلزار اعظمی کے بقول جمعیت علمائے ہند نے خصوصی عدالت کے فیصلے کو اعلیٰ عدالت میں چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور امید ہے کہ تمام ملزمان بری ہو جائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ اس سے قبل ستمبر 2002 میں گاندھی نگر کے اکشر دھام مندر میں ہونے والے دھماکوں کے کیس میں سیشن کورٹ نے تین افراد کو پھانسی کی سزا سنائی تھی اور جب سپریم کورٹ سے رجوع کیا گیا تو اعلیٰ عدالت نے تمام ملزمان کو باعزت بری کر دیا تھا۔
گلزار اعظمی نے الزام عائد کیا کہ نچلی عدالتوں کے بعض ججز یہ سوچتے ہیں کہ اگر وہ حکومت کو خوش کرنے والا فیصلہ سنائیں گے تو انہیں اس کا انعام ملے گا۔ اس سے قبل جب بھی کہیں دھماکہ ہوتا تھا تو حکومت کہہ دیتی تھی کہ لشکر طیبہ یا دیگر کسی تنظیم نے دھماکہ کیا ہے۔ حالاںکہ ان کے پاس کوئی ثبوت نہیں ہوتا تھا۔
جمعیت علمائے ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی نے بھی ایک بیان میں کہا ہے کہ این آئی اے کی خصوصی عدالت نے جن افراد کو سزا سنائی ہے انہیں پھنسایا گیا ہے۔ ان کے بقول وہ نہیں جانتے تھے کہ پٹنہ دھماکوں میں کون لوگ ملوث تھے۔
انہوں نے کہا کہ مذکورہ فیصلے کو اعلیٰ عدالت میں چیلنج کیا جائے گا اور انہیں امید ہے کہ تمام ملزمان بری ہو جائیں گے۔
Your browser doesn’t support HTML5
رپورٹس کے مطابق سات سال کی سزا پانے والے مجرموں کو جلد ہی جیل سے رہا کر دیا جائے گا کیوں کہ وہ اتنا عرصہ جیل میں گزار چکے ہیں۔ جب کہ دس سال کی سزا پانے والے دو مجرموں کو مزید دو سال جیل میں گزارنا ہوں گے۔
یہ اتفاق ہے کہ بم دھماکوں کے واقعات 27 اکتوبر 2013 کو پیش آئے تھے اور 27 اکتوبر 2021 کو اس کیس کا فیصلہ سنایا گیا ہے۔
دھماکے کب اور کہاں ہوئے تھے؟
سال 2014 کے پارلیمانی انتخابات کے دوران بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی زیرِ قیادت نیشنل ڈیموکریٹک الائنس (این ڈی اے) کی جانب سے وزیرِ اعظم کے عہدے کے امیدوار اور اُس وقت گجرات کے وزیرِ اعلیٰ نریندر مودی کی پٹنہ کے گاندھی میدان میں آمد کے موقع پر دھماکے ہوئے تھے۔
گاندھی میدان کے علاوہ پٹنہ ریلوے اسٹیشن پر بھی دھماکے ہوئے تھے۔ جن میں چھ افراد ہلاک اور 89 زخمی ہوئے تھے۔
دھماکے کے وقت نریندر مودی پٹنہ کے جے پرکاش نرائن ایئرپورٹ پر تھے جہاں سے انہیں گاندھی میدان پہنچنا تھا۔
دھماکوں کی تحقیقات پہلے مقامی پولیس نے کی تھی۔ بعد ازاں اسے چھ نومبر 2013 کو این آئی اے کے حوالے کر دیا گیا تھا۔
ان دھماکوں کی ذمے داری کسی بھی دہشت گرد تنظیم نے قبول نہیں کی تھی۔ لیکن پولیس کا خیال ہے کہ ان دھماکوں میں کالعدم اسٹوڈنٹس اسلامک موومنٹ آف انڈیا (سیمی) اور انڈین مجاہدین کا ہاتھ تھا۔
عدالت نے سزا کسے دی؟
این آئی اے کی عدالت نے امتیاز انصاری، حیدر علی عرف بلیک بیوٹی، نعمان انصاری اور مجیب اللہ انصاری کو سزائے موت سنائی ہے جب کہ عمر صدیق اور اظہرالدین قریشی کو عمر قید، احمد حسین اور فیروز اسلم کو دس دس سال اور افتخار عالم کو سات سال قید کی سزا سنائی۔
این آئی اے کے خصوصی وکیل للن سنہا نے مجرموں کو سخت سے سخت سزا کا مطالبہ کیا تھا جب کہ وکیلِ دفاع سید عمران غنی نے کیس کے احوال اور مجرموں کے معاشی اور سماجی حالات کا حوالہ دیتے ہوئے نرمی برتنے کی اپیل کی تھی۔
رپورٹس کے مطابق دو مشتبہ افراد امتیاز انصاری اور محمد طارق اعظم ان دھماکوں میں زخمی ہوئے تھے۔ اول الذکر گاندھی میدان میں طارق اعظم ریلوے اسٹیشن پر دھماکوں میں زخمی ہوئے تھے۔ دونوں ملزمان سے تفتیش کے بعد دیگر ملزمان کو حراست میں لیا گیا تھا۔
طارق اعظم کی پٹنہ میڈیکل کالج اسپتال میں دورانِ علاج ہی موت ہو گئی تھی۔