پاکستان بار کونسل نے سپریم کورٹ کے جج جسٹس مظاہر علی نقوی کی مبینہ آڈیو لیکس پر اُن کے خلاف ریفرنس دائر کرنے میں حکومت کی خواہش شامل ہونے کے تاثر کو رد کیا ہے۔
بار عہدے داروں کا کہنا ہے کہ ان آڈیوز کے حوالے سے ثبوت جمع کیے جا رہے ہیں جس کے بعد آئندہ ایک ہفتے میں یہ ریفرنس دائر کر دیے جائیں گے۔
خیال رہے کہ چند روز قبل سپریم کورٹ کے جج جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی اور سابق وزیرِ اعلٰی پنجاب چوہدری پرویز الہٰی کی ایک مبینہ آڈیو سامنے آئی تھی۔
مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف اور دیگر پارٹی رہنماؤں نے جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی پر جانب داری کا الزام عائد کیا تھا۔
پاکستان بار کونسل کی ایگزیکٹو کمیٹی کے چیئرمین حسن رضا پاشا نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کرنے کی تیاری جاری ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ایک تو آڈیو موجود ہی ہے اور دیگردستاویزی ثبوت جمع کیے جا رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ مبینہ آڈیو کا فارنزک کروانے کا ہمارے پاس کوئی اختیار نہیں ہے، دو ہی ادارے ہیں ایک حکومتی ادارے یا پھر سپریم کورٹ اس کا فارنزک کرواسکتی ہے۔ ہمارے پاس آرٹیکل 290 کے علاوہ کوئی آپشن نہیں ہے۔
حسن رضا پاشا کا کہنا تھا کہ اب تک سپریم کورٹ نے کوئی رسپانس نہیں دیا، اگر جج صاحب ملوث نہیں اور بے گناہ ہیں تو وہ اپنا دفاع کریں گے ،بصورت دیگر جوڈیشل کمیشن اپنا فیصلہ کرے گا۔
اس سوال پر کہ وزیراعظم سے ملاقات کے بعد یہ معاملہ سیاسی رنگ اختیار کررہا ہے؟حسن رضا نے اس تاثر کو مکمل طور پر مسترد کیا اور کہا کہ ہمارے بارز کے الیکشن جنوری کے آخر میں ہوئے اور نومنتخب بار کونسلز نے وزیرِاعظم کو ملاقات کی درخواست بھجوائی ہوئی تھی۔
اُن کا کہنا تھا کہ "ہمارا کسی سیاسی جماعت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس ریفرنس کے لانے میں حکومت کا کوئی کردار نہیں ہے۔"
دوسری جانب حکومت نے اس معاملے پر جسٹس مظاہر علی نقوی اور جسٹس اعجاز الاحسن کی غیر جانب داری پر سوال اٹھاتے ہوئے دونوں ججز کو نوازشریف اور پارٹی کے دیگر رہنماؤں کے مقدمات کی سماعت کرنے والے بینچوں سے الگ ہونے کا مطالبہ کردیا ہے۔
تجزیہ کاروں اور قانونی ماہرین کا کہنا ہے بار کونسلز کی غیرجانب داری پر سوال اٹھ رہا ہے کیوں کہ انہوں نے وزیرِاعظم سے ملاقات کے بعد یہ فیصلہ کیا ہے۔
قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ کسی جج کے خلاف ریفرنس تو دائر کیا جاسکتا ہے لیکن بار کونسلز کو یہ بات بھی دیکھنی ہے کہ اس معاملے میں ثبوت بھی انہیں فراہم کرنے ہیں۔
سینئر قانون دان حامد خان ایڈووکیٹ کہتے ہیں کہ ابھی ایسی کوئی بات سامنے نہیں آئی کہ سپریم کورٹ میں کوئی تقسیم ہے، اس وقت بارکونسلز اور پاکستان بار کی طرف سے ریفرنس فائل کرنے کی بات کی جارہی ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ اگر کسی جج پر کرپشن کا الزام ہو تو بار کونسل ریفرنس دائر کر سکتی ہیں، لیکن اس کے لیے پھر ثبوت بھی دینا ہوں گے۔"
سینئر وکیل اور سینیٹر کامران مرتضیٰ ایڈوکیٹ کہتے ہیں کہ یہ دیکھنا ضروری ہے کہ کس بنیاد پر ریفرنس دائر کیا جا رہا ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ بارز کی جانب سے ایسے وقت میں وزیرِ اعظم سے ملنا مناسب نہیں تھا۔
اُن کے بقول اب موجودہ صورتِ حال میں شکوک و شبہات جنم لے رہے ہیں۔
SEE ALSO: ’ان سے انصاف کی توقع نہیں‘؛ مسلم لیگ (ن) کا سپریم کورٹ کے دو ججز پر اعتراضآٹیو ٹیپس کی انکوائری کون کرے؟
حامد خان کہتے ہیں کہ جج مظاہر نقوی کے خلاف آڈیو ٹیپس کی بنیاد پر ریفرنس لانے کا کہا جا رہا ہے۔ لیکن پہلے ایک انکوائری کر کے ان ٹیپس کے اصل ہونے اور اس میں ہونے والی بات چیت کی کرنا تصدیق بھی ضروری ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان میں آئے روز اس طرح کی آڈیوز سامنے آ رہی ہیں جن پر شکوک کا اظہار کیا جاتا ہے۔ لہذٰا صرف ایک ٹیپ کی بنیاد پر ریفرنس فائل کرنا قبل از وقت ہو گا۔
کامران مرتضٰی کہتے ہیں کہ جب کسی پر الزام لگتا ہے کہ تو اس کی انکوائری بھی ہونی چاہیے۔ اس وقت اگر حکومت یہ تحقیقات کرے گی تو اپنے اداروں کو استعمال کرے گی اور یہ بات بہت غیرمناسب لگے گی۔
کامران مرتضیٰ کہتے ہیں کہ پاکستان میں دو افراد کے درمیان ہونے والی گفتگو ریکارڈنگ جو ادارے کرتے ہیں وہ ہر کسی کو معلوم ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ یہ ادارے دہشت گردی سمیت دیگر معاملات کی جانچ کے لیے کرتے ہیں لیکن اگر کوئی غیراخلاقی یا پھر کوئی ذاتی گفتگو کررہا ہو تو اس کا ریاست کے معاملات سے کچھ لینا دینا نہیں لہذا ایسی آڈیوز کو استعمال کرنا ایک غلط اقدام ہے۔
کامران مرتضیٰ کہتے ہیں کہ اگر کوئی جج اپنی ذمے داری کے حوالے سے مس کنڈکٹ کررہا ہو تو پھر اس پر کارروائی کی جاسکتی ہے۔ لیکن اگر وہ اپنی ذاتی حیثیت میں کسی سے بات کررہے ہوں اور اس میں کوئی قابلِ اعتراض بات نہ ہو تو اسے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنا درست نہیں ہے۔
حامد خان نے کہا کہ اس بارے میں سپریم کورٹ کو خود کارروائی کرنی چاہیے کیوں کہ اس تمام معاملے میں سپریم کورٹ کی اپنی ساکھ داؤ پر لگی ہوئی ہے۔