امريکہ نے 18 برس قبل 11 ستمبر 2001 کو القاعدہ کے حملے کے بعد افغانستان ميں جنگ کا آغاز کيا تھا جبکہ اس جنگ میں اتحادی افواج کے ہزاروں اہلکاروں کے لیے رسد کی فراہمی پاکستان کے راستے سے شروع ہوئی۔
جنگ کے دوران نیٹو کے لیے رسد سے پاکستان اور افغانستان کی سرحد پر روزگار کے بھی نئے مواقعے پیدا ہوئے جبکہ ٹرانسپورٹ کے کاروبار سے وابستہ افراد کو سب سے زیادہ موقع میسر آیا اور سيکڑوں افراد ٹرکوں کے کام سے منسلک ہوئے۔
ابتدا میں ٹرانسپورٹرز کا کاروبار چلنے لگا تو ايک وقت آيا جب تحريک طالبان سميت مختلف شدت پسند گروہوں نے نيٹو سپلائی ٹرکوں پر حملے شروع کر ديے۔
شدت پسندوں کے حملوں سے نہ صرف کاروبار کو نقصان پہنچا بلکہ لوگ جانی و مالی نقصان سے بھی دوچار ہوئے۔ ان حملوں میں ہلاک یا زخمی ہونے والے ڈرائیوروں کے اہل خانہ آج بھی کسمپرسی کی زنگی گزار رہے ہيں اور ان کا شکوہ ہے کہ کسی نے بھی مدد کے لیے ان کے دروازے پر دستک نہیں دی۔
'ان کی موت آج تک معمہ ہی بنی ہوئی ہے'
خیبر پختونخوا کے ضلع خيبر ميں پرائمری اسکول کے استاد ناہيد اللہ کے تين بھائی 2 مختلف واقعات ميں نشانہ بنے۔
ناہید اللہ کہنا ہے کہ کسی نے بھی ان کی کوئی مدد نہیں کی جبکہ آج تک ان کو يہ بھی نہیں معلوم کہ اُن کے بھائيوں کو کس نے قتل کیا۔
وائس آف امريکہ سے بات کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ ان کی خوش حال زندگی ميں قيامت اس وقت آئی جب موسم سرما کی ايک سرد شام کو انہیں ايک فون کال کے ذريعے بھائيوں کی موت کے بارے ميں بتايا گيا۔
انہوں نے بتايا کہ ان کے دو بھائی شبير احمد اور واصف اللہ کو اس وقت قتل کیا گیا جب انہوں نے افغانستان سے آتے ہوئے طورخم سرحد عبور کی اور پاکستان ميں داخل ہوئے۔
ان کے بقول آج تک ان کی موت ايک معمہ ہی بنی ہوئی ہے۔
قتل ہونے والے 35 سالہ شبير احمد کے 6 بچے ہیں۔ ناہيد اللہ نے قليل تنخواہ ميں ان کے خاندان کی کچھ وقت تک مدد کی ليکن پھر وہ ان کی مدد کا سلسلہ جاری نہ رکھ سکے جس سے شبير احمد کے بچے تعليم سے محروم رہے اور اب لنڈی کوتل بازار ميں مزدوری کرتے ہيں۔
ناہید اللہ بتاتے ہیں کہ 2006 ميں ان کو ٹھيکیدار نے اس شرط پر اقساط پر ٹرک فروخت کيا تھا کہ وہ نيٹو فورسز کے لیے رسد جاری رکھيں گے۔ شبیر احمد اکثر پشاور کے علاقے تارو سے اپنے 40 ہزار ليٹر کا آئل ٹينکر بھرتے اور اس کو افغانستان کے مختلف حصوں ميں لے جاتے تھے۔
اسی طرح ايک دوسرے واقعے ميں ان کے ايک اور بھائی بلوچستان کے علاقے بختيار آباد ميں نامعلوم افراد کے ہاتھوں مارے گئے تھے۔
'طالبان نے فائرنگ کرکے نابینا کر ديا'
ضلع خيبر کی تحصيل لنڈی کوتل کے 30 سالہ ارشاد کے مطابق افغانستان کے سرحدی علاقے ميں طالبان نے اُن پر فائرنگ کر کے انہیں نابینا کر ديا ہے۔
اُن کے بقول دونوں آنکھیں ضائع ہونے سے ان کی زندگی مکمل طور پر تاريکی ميں چلی گئی۔
وائس آف امريکہ سے بات کرتے ہوئے ارشاد نے بتايا کہ فروری 2009 ميں جب وہ اپنا 44 ہزار ليٹر آئل کا ٹينکر لے کر جلال آباد سے گزار رہے تھے تو طالبان نے اُن پر حملہ کيا۔
انہوں نے بتایا کہ طالبان کی فائرنگ سے ٹرک کے تمام شيشے ٹوٹ کر ان کے منہ پر لگے جبکہ ايک گولی براہ راست ان کے ماتھے پر لگی۔ جس سے ان کی دونوں آنکھيں ضائع ہو گئيں۔
اُن کا کہنا تھا کہ نہ صرف ان کی آنکھوں کی نظر ہميشہ کے لیے چلی گئی بلکہ ان کی خوش حال زندگی پر بھی مکمل طور پر تاريکی چھا گئی۔
چار بچوں کے والد ارشاد کا کہنا ہے کہ پہلے وہ ان کے لیے کما کر لاتے تھے ليکن اب وہ بچوں کے محتاج ہيں۔ اُنہيں نہیں معلوم کہ يہ سلسلہ کب تک چلتا رہے گا کيونکہ ان کے گھر ميں اب کوئی کمانے والا نہیں ہے۔
ارشاد کا کہنا ہے کہ بیٹے کم عمری ميں مزدوری پر لگ گئے ہيں کيونکہ گھر بھی تو چلانا ہے۔
'يہ خيبر کے ہر گھر کی کہانی ہے'
خيبر ٹرانسپورٹ ايسوسی ايشن کے صدر حاجی شاکر آفريدی کے مطابق يہ کہانی سابقہ خيبر ايجنسی کے ہر گھر کی کہانی ہے۔ افغانستان ميں نيٹو فورسز کے لیے سپلائی کرنے والے درجنوں افراد مختلف گروہوں کا نشانہ بنے ليکن ان کی مدد حکومت یا ٹھيکداروں نے نہیں کی۔
اُن کا کہنا تھا کہ ايسا لگتا ہے کہ ان کے علاقے کے لوگوں کو ٹرانسپورٹرز نے صرف اپنے مفادات کے لیے استعمال کيا۔
'وہ واحد طبقہ ہے جس کی کسی نے خبر نہیں لی'
زاہد شنواری پاک افغان جوائنٹ چيمبر آف کامرس کے صدر ہيں۔ وہ خود بھی خیبر پختونخوا میں ضم ہونے والے قبائلی علاقے سے تعلق رکھتے ہيں۔ ان کا کہنا ہے کہ سيکڑوں کی تعداد ميں ٹرک ڈرائيورز اور عملے کے ارکان مختلف واقعات ميں شدت پسندوں کا نشانہ بنتے رہے ہیں۔
وائس آف امريکہ سے بات کرتے ہوئے زاہد شنواری کا کہنا تھا کہ دہشت گردی سے متاثرہ افراد کے لیے مالی پیکجز کے اعلانات کیے گئے ليکن ڈرائیورز واحد طبقہ ہے جس کی کسی نے خبر نہیں لی۔
اُن کا کہنا تھا کہ مختلف طبقات نے انہیں بری طرح استعمال کيا اور ان کے حقوق غصب کیے۔ لاتعداد گاڑيوں کو جلايا گيا اور سيکڑوں لوگ ہلاک ہوئے ليکن ان کا کوئی بھی پرسان حال نہیں۔
انہوں نے مزيد کہا کہ ٹرانسپورٹ ہماری بزنس کميونٹی کا اہم حصہ ہے ليکن اس کا ڈرائيور طبقہ بہت غريب ہے۔ جو بڑے کاروباری افراد تھے ان ميں تو برداشت کی صلاحيت تھی ليکن نچلے طبقے والے لوگ مکمل طور پر ديواليہ ہوگئے۔
'قبائلی علاقہ جات کے ڈرائیورز کو بہت نقصان ہوا'
انہوں نے بتايا کہ پاک-افغان دو طرفہ تجارت کا سالانہ حجم ایک ارب 50 کروڑ ڈالر ہے ليکن نيٹو فورسز کے اسپيشل کارگوز کے حجم کا اندازہ نہیں کیا جاسکتا۔ ہزاروں کی تعداد ميں گاڑياں ہر ماہ جاتی تھيں۔ نیٹو سپلائی کی بندش اور دہشت گردوں کے حملوں سے سابقہ قبائلی علاقہ جات سے تعلق رکھنے والے ڈرائیوروں کو بہت نقصان ہوا ہے۔
زاہد شنواری بتاتے ہيں کہ ٹرانسپورٹ کمپنياں قبائلی علاقوں کے ڈرائيوروں کو اس لیے ترجيح ديتی تھيں کيونکہ وہ افغانستان سے آگاہ تھے جبکہ ان کو زبان اور ثقافتی اقدار کا بھی علم ہے۔
ان کے بقول ان خصوصیات کی وجہ سے اُنہیں کمپنيوں نے استعمال تو ضرور کيا ليکن وقت آنے پر ان سے نطريں چرا ليں۔
وہ مزید کہتے ہیں کہ ڈرائیور طبقے کا سروے ہونا چاہیے۔ اگر حکومت خود مدد نہ کر سکتی ہو تو يو ايس ايڈ يا نيٹو فورسز کو پابند بنایا جائے کہ متاثرہ خاندانوں کی مدد کریں جس سے متاثرہ خاندانوں کی زندگی کچھ آسان ہو سکے۔