افغانستان میں سرکاری فورسز اور طالبان میں ایران کے ساتھ سرحد کے قریب واقع صوبہ ہرات کے دارالحکومت ہرات شہر، جنوب میں صوبہ ہلمند کے دارالحکومت لشکر گاہ جب کہ صوبہ قندھار کے دارالحکومت اور ملک کے دوسرے بڑے شہر قندھار کے گرد و نواح میں شدید لڑائی جاری ہے۔
رپورٹس کے مطابق حکومت نے لشکر گاہ کے رہائشیوں کو طالبان کے زیر انتظام علاقوں سے جلد از جلد انخلا کی ہدایت کی ہے کیوں کہ سرکاری فورسز وہاں پر بمباری کا ارادہ رکھتی ہے۔
لشکر گاہ کے مقامی صحافی عزیز احمد شفیع نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ طالبان کی کوشش ہے کہ وہ لشکر گاہ کا کنٹرول جلد حاصل کر لیں۔ یہی وجہ ہے کہ طالبان نے اپنے کنٹرول میں موجود صوبہ ہلمند کے 14 اضلاع میں سے نو اضلاع سے جنگجوؤں کو لشکر گاہ منتقل کیا ہے۔ ان کے بقول اگر لشکر گاہ افغان حکومت کے کنٹرول سے نکل جاتا ہے تو یہ 2016 کے بعد طالبان کے کنٹرول میں آنے والا پہلا صوبائی دارالحکومت ہو گا۔
Your browser doesn’t support HTML5
پانچ سال قبل طالبان نے 2016 میں کچھ وقت کے لیے صوبہ قندوز کے دارالحکومت قندوز پر قبضہ کیا تھا بعد ازاں اسے واگزار کرا لیا گیا تھا۔
عزیز احمد شفیع کا مزید کہنا تھا کہ لڑائی کے باعث ہزاروں افراد نقل مکانی پر مجبور ہو گئے ہیں۔ لوگوں کی بڑی تعداد شہر سے دوسرے علاقوں کی جانب جا رہی ہے۔
اقوامِ متحدہ نے بھی ہلمند کی صورتِ حال پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ اقوامِ متحدہ کے مطابق افغان فورسز اور طالبان میں جاری لڑائی میں ہزاروں شہری پھنس سکتے ہیں۔
بدھ کو صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے اقوامِ متحدہ کے ترجمان اسٹیفن دوجارک نے بتایا کہ رواں سال کے آغاز سے افغانستان میں کشیدہ صورتِ حال کے باعث تین لاکھ 60 ہزار افراد اپنے گھروں سے بے دخل ہوئے ہیں۔
صحافی عزیز احمد شفیع کا کہنا تھا کہ افغان فورسز نے بمباری کے ساتھ ساتھ گھر گھر تلاشی بھی شروع کر دی ہے تاکہ طالبان کے جنگجوؤں کو تلاش کیا جا سکے۔
رپورٹس کے مطابق افغان فورسز لشکر گاہ آنے والی تمام شاہراہوں کا محاصرہ کر چکی ہے تاکہ طالبان کے جنگجوؤں کی تازہ کمک کی منتقلی کو روکا جا سکے۔
طالبان دعویٰ کرتے ہیں کہ انھوں نے یکم مئی سے لے کر اب تک افغانستان کے نصف سے زائد اضلاع کا کنٹرول سنبھال لیا ہے جس کے بعد اب انھوں نے بڑے شہروں اور صوبائی دارالحکومتوں کا کنٹرول حاصل کرنے کے لیے کارروائیاں تیز کی ہیں۔
دوسری جانب مبصرین کا کہنا ہے کہ طالبان اگرچہ تیزی سے پیش قدمی کر رہے ہیں۔ البتہ جہاں طالبان کا مقابلہ افغان اسپیشل فورسز سے ہوا ہے وہاں آگے نہیں بڑھ سکے ہیں۔
واضح رہے کہ طالبان نے افغانستان کے بیشتر اضلاع کا کنٹرول بغیر کسی لڑائی کے حاصل کیا ہے۔
افغانستان کے دارالحکومت کابل میں مقیم دفاع اور سیکیورٹی امور کے ماہر مطیع اللہ خروٹی کا کہنا ہے کہ اس وقت پورے ملک میں لڑائی جاری ہے۔ ان کے مطابق افغان فوج دفاع کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اسی طرح طالبان بھی محفوظ پناہ گاہیں رکھتے ہیں۔ تاہم لڑائی سے اصل میں متاثر عام شہری ہو رہے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے مطیع اللہ خروٹی کا کہنا تھا کہ افغان عوام اس لڑائی کے اصل محرکات امریکہ اور بیرونی ممالک کو ٹھیراتے ہیں۔ کیوں کہ دیگر ممالک طالبان کی مدد کرنا بند کر دیں تو افغانستان انتشار کا شکار نہیں ہو گا۔
انہوں نے مزید کہا کہ موجودہ صورتِ حال کو مدِ نظر رکھتے ہوئے افغان عوام تشویش اور خوف کا شکار ضرور ہیں۔ البتہ یہ تشویش اس وجہ سے نہیں ہے کہ افغانستان ایک مرتبہ پھر طالبان کے کنٹرول میں آ جائے گا اور ٹیلی وژن، موبائل فون، خواتین کی تعلیم یا روزگار کے حصول جیسے مسائل کا سامنا ہو گا۔ بلکہ اصل تشویش یہ ہے کہ گزشتہ دو دہائیوں میں ایک نئی روشن خیال نسل نے پرورش پائی ہے جو ملک کی ترقی کے لیے کچھ کرنا چاہتی ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
ان کے مطابق بدقسمتی سے ایسے تمام افراد کی کوشش ہے کہ وہ کسی طرح سے افغانستان چھوڑ کر کسی محفوظ ملک چلے جائیں۔
افغانستان کے مستقبل کے حوالے سے مطیع اللہ خروٹی کا کہنا تھا کہ ان لوگوں کے باہر جانے سے افغانستان دوبارہ سے پستی میں جائے گا۔ اس کا نظام چلانے کے لیے کوئی قابل ذکر تجربہ رکھنے والے افراد نہیں ہوں گے۔
انہوں نے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان دوبارہ سے نہ ختم ہونے والے بیرونی امداد پر چلا جائے گا جہاں اس کی اپنی سوچ و فکر والے افراد نہیں ہوں گے بلکہ باہر سے آنے والے افراد اس کے مستقبل کے فیصلے کریں گے۔