لاہور ہائی کورٹ نے بدفعلی، جنسی تشدد اور زیادتی کا شکار خواتین کے لیے 'ٹو فنگر' میڈیکل ٹیسٹ کی شرط غیر قانونی قرار دے دی ہے۔
عدالتی فیصلے کے مطابق 'ٹو فنگر' ٹیسٹ کا اقدام آئین کے آرٹیکل 9، 14 اور 25 سے متصادم ہے۔ عدالت نے اِس ضمن میں حکومت کی 'ٹو فنگر' ٹیسٹ کے حوالے سے 2015 اور 2020 کی گائیڈ لائن کو بھی غیر قانونی قرار دے دیا ہے۔
لاہور ہائی کورٹ کی جج جسٹس عائشہ اے ملک نے پیر کو 30 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں اس بات کو یقینی بنائیں کہ جنسی زیادہ کی شکار متاثرہ خواتین کا 'ٹو فنگر' ٹیسٹ نہ کیا جائے۔
عدالت نے ریپ سے متاثرہ خواتین کے لیے صوبائی حکومت کو بین الاقوامی معیار کے مطابق گائیڈ لائنز بنانے کا حکم بھی دیا ہے۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں خواتین سے جنسی زیادتی کے واقعات کو سنگین گھناؤنا جرم قرار دیا ہے۔
تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ خواتین زیادتی کیسز کا ٹرائل انتہائی محتاط طریقے سے شہادت کی بنیاد پر ہونا چاہیے۔ قانونِ شہادت آرڈر میں 2016 میں ترمیم کے باوجود متاثرہ خواتین کے کردار پر سوالات اٹھائے جاتے ہیں۔
فیصلے کے مطابق 'اینٹی ریپ آرڈیننس 2020' بھی جنسی جرائم کی شکار خواتین کو ٹو فنگر ٹیسٹ سے روکتا ہے۔
تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ صرف خاتون کا 'ٹو فنگر' ٹیسٹ کرنا صنفی امتیاز پر مبنی ہے۔ اگر متاثرہ خاتون کے ٹو فنگر ٹیسٹ کے بعد وہ کنواری نہ پائی جائے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ ریپ نہیں ہوا۔
عدالتی فیصلے میں آئین کے آرٹیکل 9 اور 14 کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔ ٹو فنگر ٹیسٹ لینے سے قبل متاثرہ خاتون سے یا اس کے سرپرست سے تحریری اجازت لی جاتی ہے جو با مقصد نہیں۔
فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ متاثرہ خاتون کے کسی مرد پر زیادتی کا الزام لگانے پر ضروری نہیں کہ اس کا ٹو فنگر ٹیسٹ لیا جائے۔ پنجاب حکومت نے ٹو فنگر ٹیسٹ کے متعلق 2020 کی گائیڈ لائنز اور ایس او پیز جلد بازی میں منظور کیے۔
ٹو فنگر کیس کا پسِ منظر
گزشتہ برس اپریل میں حزبِ اختلاف کی جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کی رکنِ قومی اسمبلی شائستہ پرویز ملک نے عدالت میں درخواست دائر کرتے ہوئے استدعا کی تھی کہ ریپ کیسز میں خواتین کا کنوارہ پن (ورجینیٹی ٹیسٹ) جانچنے کے لیے ٹو فنگر ٹیسٹ کی شرط کو ختم کیا جائے۔
اس سے قبل صدف عزیز نامی خاتون نے بھی عدالت میں اپنی ایک درخواست میں جنسی زیادتی کا شکار بننے والی خواتین کے ورجینیٹی ٹیسٹ کو چیلنج کیا تھا۔
درخواست گزاروں نے مؤقف اختیار کیا تھا کہ ریپ کیسز میں میڈیکل ٹیسٹ کا مروجہ طریقۂ کار توہین آمیز ہے اور ملک کی اعلیٰ عدالتیں بھی اس ٹیسٹ کے نتائج پر انحصار نہیں کرتیں۔ لہذا اس ٹیسٹ کا طریقۂ کار تبدیل کیا جائے۔
عدالت نے دونوں درخواستوں میں ایک ہی قانونی نکتہ ہونے کی بنیاد پر دونوں درخواستوں کو یکجا کر دیا تھا۔
ہائی کورٹ نے 10 نومبر 2020 کو مذکورہ کیس کا فیصہ محفوظ کیا تھا جسے چار جنوری 2021 کو سنایا گیا۔
عدالتی فیصلے کا خیر مقدم
زیادتی کی شکار خواتین عدالتی فیصلے کو خوش آئند قرار دے رہی ہیں۔ وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے جنسی زیادتی کی شکار خاتون مختاراں مائی نے کہا کہ عدالتی فیصلے کی روشنی میں حکومت اور انتظامیہ کو اِس ضمن میں آسانیاں پیدا کرنا ہوں گی۔
مظفر گڑھ کی رہائشی خاتون مختارا مائی کہتی ہیں کہ جب بھی کسی خاتون کے ساتھ جنسی زیادتی ہوتی ہے تو بعد میں اُس کی تصدیق کا عمل، جو کہ ٹو فنگر ٹیسٹ کہلاتا ہے، ایک خاصا تکلیف دہ عمل ہوتا ہے۔
اُن کے بقول، " یہ ایک تکلیف دہ ٹیسٹ ہوتا ہے جو کبھی لیڈی ڈاکٹر یا کبھی عملہ کرتا ہے اور عام طور پر اس طرح کے ٹیسٹ کی رپورٹ عدالت تسلیم بھی نہیں کرتی۔
ٹیسٹ اب کیسے ہو گا؟
ایڈووکیٹ جنرل پنجاب احمد اویس کہتے ہیں کہ جنسی زیادتی کے کیس میں خواتین کے کنوارے پن (ورجینیٹی ٹیسٹ) جانچنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ ورجینیٹی ٹیسٹ میں یہ دیکھنا ہوتا ہے کہ جنسی زیادتی ہوئی ہے یا نہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا بتایا کہ ریپ کیسز میں شواہد کے طور پر ڈی این اے کیا جاتا ہے، سیمن (مواد) اور اندامِ نہانی (وجائنا) کا ٹیسٹ کیا جاتا ہے۔
احمد اویس نے بتایا کہ عام طور پر مختلف طبی وجوہات کی بنا پر سخت کام کرنے والی خواتین کا پردۂ بکارت (ہائمن) ٹوٹ چکا ہوتا ہے جس کا ہر گز یہ مطلب نہیں ہوتا ہے کہ انہوں نے مباشرت کی ہے یا کسی کے ساتھ جنسی تعلق قائم کیا ہے۔
اُن کے بقول عدالت نے اپنے فیصلے میں انہی باتوں کا ذکر کیا ہے اور یہی باتیں کسی بھی متاثرہ خاتون یا اُس کے اہلِ خانہ کے لیے شرمندگی کا باعث بنتی ہیں۔
ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کا مزید کہنا تھا کہ ریب کیسز میں دورانِ سماعت کنوارہ پن جانچنے والا ٹیسٹ اب نہیں ہو گا۔
طبی ماہرین کیا کہتے ہیں؟
طبی ماہرین سمجھتے ہیں کہ عدالت نے اپنے فیصلے میں اِس بات پر زیادہ زور دیا ہے کہ ڈاکٹر ٹیسٹ پر اپنی کوئی رائے نہ دیں۔
لیپروسکوپک سرجن اور جناح اسپتال کی سابقہ سینئر رجسٹرار گائناکالوجسٹ ڈاکٹر ریحانہ عامر خان کہتی ہیں عدالتی فیصلے سے یوں معلوم ہوتا ہے کہ ڈاکٹر اپنی رائے نہ دے کہ ہائمن کی موجودہ صورتِ حال کیا ہے۔
اُن کے بقول، "ٹو فنگر ٹیسٹ کے بغیر کسی بھی متاثرہ خاتون سے نمونے نہیں لیے جا سکتے۔ ٹو فنگر ٹیسٹ ہو گا تو خاتون کے اندر سے نمونے لیے جا سکیں گے۔ ڈی این اے ٹیسٹ کی اپنی اہمیت ہے اور دیگر ٹیسٹوں کی اپنی اہمیت ہے۔ ہمیں یہ دیکھنا پڑتا ہے کہ پردہ بکارت کی کیا حالت ہے اور اُس پر کتنے زخم آئے ہیں۔"
ڈاکٹر ریحانہ عامر نے بتایا کہ اگر کوئی خاتون کسی مرد پر الزام لگاتی ہے کہ اُس کے ساتھ جنسی زیادتی کی گئی ہے تو اُس شخص کا ڈی این اے ٹیسٹ کیا جاتا ہے۔
ان کے بقول جب خاتون کا پردہ بکارت اپنی اصلی حالت میں موجود ہو اور اُس میں مردانہ مواد بھی موجود نہ ہو تو ایسا ممکن نہیں کہ عورت کے الزام کو درست مانا جائے۔ ایسی صورت میں ڈاکٹر کو اپنی رائے سرکاری کاغذ پر دینا ہوتی ہے۔
ڈاکٹر ریحانہ کہتی ہیں “اگر ڈی این اے ٹیسٹ مثبت آ جائے اور پردہ بکارت اپنی اصلی حالت میں موجود ہو تو مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔ جس شخص پر الزام لگایا گیا ہے اُسے غلط سزا ہو جائے گی۔
ڈاکٹر ریحانہ عامر نے بتایا کہ عام طور پر ورجینیٹی ٹیسٹ تین مراحل میں کیا جاتا ہے۔ پہلے مرحلے میں انسانی آنکھ سے مشاہدہ کیا جاتا ہے اور دیکھا جاتا ہے کہ اندامِ نہانی کے اندر مواد (وجائنا میں سیمن) موجود ہے یا نہیں۔ دوسرے مرحلے میں ڈیجیٹل ٹیسٹ کیے جاتے ہیں۔ جس میں دیکھا جاتا ہے کہ وجائنا کی کیپیسٹی کتنی ہے اور ہائمن اپنی اصلی حالت میں موجود ہے یا نہیں۔ تیسرے مراحلے میں ڈک سپیکولیشن ایگزامینیشن کی جاتی ہے۔ جس میں ڈک (ایک خاص قسم کے تنکا) کو خاتون کے جسم میں داخل کیا جاتا ہے اور جھلی کو دیکھا جاتا ہے کیونکہ انگلی سے وہ دیوار نظر نہیں آتی۔ اِسی دیوار سے سیمن کے نمونے لیے جاتے ہیں۔
طبی ماہرین کے مطابق مختلف عمر کی خواتین، شادی شدہ خواتین اور غیر شادی شدہ خواتین کے ورجنیٹی ٹیسٹ مختلف ہوتے ہیں۔
یاد رہے کہ بھارت کی سپریم کورٹ بھی 2013 میں خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی کی تصدیق کے لیے مستعمل 'ٹو فنگر' ٹیسٹ کی درستگی پر سوال اٹھاتے ہوئے اسے متاثرہ خاتون کی نجی، جسمانی اور نفسیاتی وقار کے منافی ٹھہرا چکی ہے۔
اقوامِ متحدہ کی انسانی حقوق کونسل اور عالمی ادارۂ صحت بھی ورجنیٹی ٹیسٹ کو تکلیف دہ، توہین آمیز اور اذیت ناک قرار دیتے ہوئے اس پر پابندی کا مطالبہ کر چکے ہیں۔