|
کراچی — کراچی یونیورسٹی کی جانب سے اسلام آباد ہائی کورٹ کے ایک جج کی ڈگری کی منسوخی کے لیے کی جانے والی کارروائی پر کئی سوالات سامنے آ رہے ہیں۔ یونیورسٹی کے ایک پروفیسر کا دعویٰ ہے کہ انہیں سینڈیکیٹ کے اس اجلاس میں شرکت سے روکنے کے لیے حراست میں رکھا گیا جس میں جج کی ڈگری کا فیصلہ ہونا تھا۔
جامعۂ کراچی میں اسسٹنٹ پروفیسر اور سینڈیکیٹ کے رکن ڈاکٹر ریاض احمد کا دعویٰ ہے کہ انہیں سنیچر کو پولیس نے اس وقت حراست میں لیا جب وہ یونیورسٹی کی سینڈیکیٹ کے اجلاس میں شریک ہونے کے لیے گھر سے روانہ ہوئے۔
سینڈیکیٹ کے اس اجلاس میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس طارق محمود جہانگیری کی ڈگری سے متعلق فیصلہ کیا جانا تھا جس پر یونیورسٹی کی جانب سے گزشتہ کئی ہفتوں سے ضابطے کی کارروائی جاری تھی۔
واضح رہے کہ اپنی گرفتاری سے قبل ڈاکٹر ریاض نے سوشل میڈیا پر یہ الزام عائد کیا تھا کہ یونی ورسٹی کے فیصلوں پر اثر انداز ہونے کے لیے بیرونی دباؤ ڈالا جا رہا ہے۔
دوسری جانب یونی ورسٹی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ جامعۂ کراچی کی سینڈیکیٹ نے جج کی ڈگری کو جعلی قرار نہیں دیا بلکہ اسے بے ضابطگیوں کی بنیاد پر منسوخ کیا ہے۔
اس سارے معاملے کو سمجھنے اور الجھی گتھیاں سلجھانے سے قبل یہ جاننا ضروری ہے کہ جسٹس طارق محمود جہانگیری کا معاملہ جامعۂ کراچی کی سینڈیکیٹ میں کیوں زیرِ بحث آیا؟
معاملہ کہاں سے شروع ہوا؟
اسلام آباد ہائی کورٹ کی ویب سائٹ پر موجود جسٹس طارق محمود کی پروفائل کے مطابق اُنہوں نے قانون کی ڈگری کراچی یونیورسٹی سے الحاق شدہ اسلامیہ لا کالج سے 1991 میں حاصل کی۔
جسٹس جہانگیری اسلام آباد ہائی کورٹ کے ان چھ ججز میں شامل تھے جنہوں نے رواں برس مارچ میں سپریم جوڈیشل کونسل کو ایک مشترکہ خط لکھ کر عدالتی امور میں خفیہ ایجنسیوں بالخصوص آئی ایس آئی کی مداخلت کے سنگین الزامات عائد کیے تھے۔
جسٹس جہانگیری اسلام آباد ہائی کورٹ کے اس تین رکنی بینچ کا حصہ تھے جس نے کاغذاتِ نامزدگی میں ٹیریان وائٹ کو اپنی بیٹی ظاہر نہ کرنے پر سابق وزیرِ اعظم عمران خان کو نا اہل قرار دینے کی درخواست مسترد کی تھی۔
جسٹس جہانگیری اس کے علاوہ بھی اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیرِ سماعت کئی اہم سیاسی مقدمات کی سماعت کرنے والے بینچز کا حصہ رہے ہیں اور اب بھی وفاقی دارالحکومت سے قومی اسمبلی کے حلقوں سے متعلق انتخابی عذرداریوں کی سماعت کر رہے ہیں۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججز کی جانب سے خفیہ اداروں کے خلاف لکھے جانے والے خط کے بعد جامعۂ کراچی میں ایک شہری کی جانب سے درخواست دائر کی گئی تھی جس میں آئین کے آرٹیکل 19 اور سندھ ٹرانسپیرنسی اینڈ رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ 2016 کے تحت جسٹس طارق محمود جہانگیری کا تعلیمی ریکارڈ حاصل کرنے کی استدعا کی گئی تھی۔
وائس آف امریکہ کو دستیاب دستاویزات کے مطابق اس درخواست کے جواب میں رجسٹرار کی جانب سے جامعہ کے شعبۂ امتحانات سے ریکارڈ طلب کیا گیا جس پر متعلقہ شعبے نے بتایا کہ طالبِ علم طارق محمود نے اپنی قانون کی ڈگری 1991 میں حاصل کی تھی لیکن ان کے نام پر دو انرولمنٹ نمبر پائے گئے ہیں۔
شعبۂ امتحانات نے رجسٹرار کو لکھے گئے اپنے خط میں کہا تھا کہ جامعہ مکمل ڈگری پروگرام کے لیے صرف ایک ہی انرولمنٹ نمبر جاری کرتی ہے اور یہ ناممکن ہے کہ ایک ہی طالب علم کو ایک ہی پروگرام میں رہتے ہوئے دو انرولمنٹ نمبرز جاری کیے گئے ہوں۔
شعبۂ امتحانات کی اس رپورٹ کے بعد جامعہ کی انتظامیہ نے یہ معاملہ یونی ورسٹی کے سینئر اساتذہ اور دیگر افسران پر مشتمل 'ان فیئر مینز کمیٹی' کے سپرد کر دیا تھا جو امتحانی عمل اور ڈگری کی تفویض وغیرہ کے معاملات میں بے ضابطگیوں سے متعلق شکایات کا فورم ہے۔
یونیورسٹی کے بعض سینئر اساتذہ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں یہ دعویٰ کیا ہے کہ جس طالبِ علم کے خلاف کمیٹی کو شکایت موصول ہو، اسے یونیورسٹی کے قواعد کے تحت صفائی کے لیے طلب کرنا ضروری ہے۔
لیکن کمیٹی نے اس معاملے کی سماعت کے دوران طارق محمود کو طلب نہیں کیا اور بغیر کسی نتیجے پر پہنچے معاملہ سینڈیکیٹ کے سپرد کر دیا جو جامعہ کے انتظامی امور کا نگران فورم ہے۔
اس سوال پر کہ طالبِ علم کو کمیٹی نے اپنا مؤقف پیش کرنے کے لیے طلب کیوں نہیں کیا؟ کراچی یونیورسٹی کی سنڈیکیٹ کے ایک رکن نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ہر طالبِ علم کو کمیٹی میں طلب کرنا ضروری نہیں۔ یہ کیس چوں کہ کافی پرانا تھا اس لیے میسر دستاویزات کی روشنی میں یہ معاملہ نبٹا دیا گیا۔
سینڈیکیٹ رکن نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ جس شخص کی ڈگری پر سوال اٹھایا جا رہا ہے، وہ ہائی کورٹ کا جج ہے۔ عام تاثر یہ ہے کہ جج کو ایسی کسی کارروائی میں طلب کرنے کا سوچا بھی نہیں جا سکتا۔
معاملہ سینڈیکیٹ میں
جامعۂ کراچی کی ویب سائٹ کے مطابق وائس چانسلر کی صدارت میں کام کرنے والی سینڈیکیٹ کے 22 اراکین ہیں۔ اس میں بعض ارکان منتخب، بعض حکومتِ سندھ کے اور بعض وائس چانسلر کے نامزد کردہ ہوتے ہیں۔
جامعۂ کراچی کی سینیڈیکٹ کا ایک اجلاس گزشتہ ہفتے ہوا تھا جس کے بعد یونیورسٹی کے ترجمان کی جانب سے جاری ہونے والے ایک مختصر بیان میں کہا گیا تھا کہ اجلاس میں 'ان فیئر مینز کمیٹی' کی سفارشات کی روشنی میں کئی طلبہ کی ڈگریوں اور انرولمنٹ کی منسوخی کا فیصلہ کیا گیا۔
اس اجلاس کے بعد یہ خبر سامنے آئی تھی کہ منسوخ ہونے والی ڈگریوں میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس طارق محمود جہانگیری کی ڈگری بھی شامل ہے۔
لیکن سینڈیکیٹ کا یہ اجلاس اس وقت متنازع ہو گیا جب اس کے ایک رکن اور یونیورسٹی کے اپلائیڈ کیمسٹری ڈپارٹمنٹ کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر ریاض احمد نے دعویٰ کیا کہ انہیں سینڈیکیٹ کے اجلاس میں شرکت سے روکنے کے لیے پولیس نے حراست میں لیا۔
واضح رہے کہ ڈاکٹر ریاض احمد انسانی حقوق کے کارکن کے طور پر شہرت رکھتے ہیں جو ماضی میں ریاستی اداروں پر تنقید کی وجہ سے خبروں میں بھی رہے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ڈاکٹر ریاض نے بتایا کہ انہیں دن بھر تھانے میں بٹھا کر رکھا گیا جس کا مقصد ان کے بقول انہیں سینڈیکیٹ کے اس اجلاس میں شرکت سے روکنا تھا جس میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج کی ڈگری سے متعلق فیصلہ ہونا تھا۔
انہوں نے کہا کہ وائس چانسلر کو اطلاع دیے بغیر کسی استاد کو حراست میں نہیں لیا جا سکتا۔ قانونی طور پر پولیس حراست میں لینے کے بعد تھانے میں انٹری کراتی ہے اور سرکاری ملازم کو حراست میں لیے جانے پر اس کے افسر کو مطلع کیا جاتا ہے۔ لیکن ان کے معاملے میں ایسا کچھ نہیں کیا گیا۔
ڈاکٹر ریاض نے بتایا کہ سینڈیکیٹ اجلاس میں 'ان فیئر مینز' کمیٹی کی رپورٹ ایجنڈے کے ساتھ پیش نہیں کی گئی اور اسے جان بوجھ کر چھپایا گیا تاکہ اس کی منظوری لی جا سکے۔
ڈاکٹر ریاض نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ 'ان فیئر مینز' کمیٹی نے جسٹس جہانگیری سے متعلق کوئی سفارشات پیش ہی نہیں کی تھیں جنہیں منظور کیا جاتا۔
بلکہ ان کے بقول کمیٹی کا یہ کہنا تھا کہ معلومات کی کمی کی بنا پر وہ اس بارے میں کوئی فیصلہ نہیں کر پائی۔ اس کے باوجود سینڈیکیٹ نے جسٹس جہانگیری کی ڈگری منسوخی کا فیصلہ کیا۔
دوسری جانب جامعۂ کراچی کے ترجمان نے دعویٰ کیا ہے کہ سینڈیکیٹ نے 'ان فیئر مینز کمیٹی' کی سفارشات کی منظوری دی جس میں ڈگری اور انرولمنٹ کی منسوخی بھی شامل ہے۔
ڈاکٹر ریاض کا مؤقف ہے کہ ملک میں جاری سیاسی جنگ میں جامعہ کو ایک آلے کے طور پر مخالفین کے خلاف استعمال کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور اس کی ذمہ داری جامعہ کے وائس چانسلر پر عائد ہوتی ہے۔
وائس آف امریکہ نے جامعۂ کراچی کے وائس چانسلر ڈاکٹر خالد عراقی کو کئی فون کیے اور واٹس ایپ اور ایس ایم ایس کے ذریعے بھی پیغامات بھیجے۔ لیکن انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔
وی او اے کی جانب سے سینیڈیکیٹ کی کارروائی اور ڈاکٹر ریاض کی جانب سے عائد کیے گئے الزامات پر مؤقف کے لیے یونیورسٹی کے ترجمان سے بھی رابطہ کیا گیا۔ لیکن ترجمان کا کہنا تھا کہ یونیورسٹی کا مؤقف ہفتے کو جاری ہونے والی پریس ریلیز میں دیا جا چکا ہے اور اس بارے میں وہ مزید کچھ نہیں کہنا چاہتے۔
کیا سینڈیکیٹ نے جج کی ڈگری منسوخی کا فیصلہ کسی دباؤ میں کیا؟
ڈاکٹر ریاض کے اس دعوے پر کہ سینڈیکیٹ اجلاس میں 'ان فیئر مینز' کمیٹی کی رپورٹ ایجنڈے کے ساتھ پیش نہیں کی گئی، وائس آف امریکہ نے کراچی یونیورسٹی کی سینڈیکیٹ کے کئی ارکان سے رابطہ کیا۔
ان میں سے دو ارکان نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وی او اے کو بتایا ہے کہ سینڈیکیٹ کے اجلاس سے قبل ضروری نہیں کہ ایجنڈے کے ساتھ 'ان فیئر مینز کمیٹی' کی رپورٹ بھی جاری کی جائے۔ بعض اوقات دستاویزات پیش کر دی جاتی ہیں اور بعض اوقات ایسا نہیں کیا جاتا۔
دونوں ارکان نے اس الزام کو مسترد کیا کہ سینڈیکیٹ نے کسی کے دباؤ میں جج کی ڈگری کی منسوخی کا فیصلہ کیا ہے۔ ان کے بقول اس کیس سے متعلق جو دستاویزات 'ان فیئر مینز کمیٹی' کے سامنے پیش کی گئی تھیں، ان میں کافی مواد موجود تھا جس کی بنا پر ڈگری منسوخ کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔
انہوں نے بتایا کہ کمیٹی کے سامنے مذکورہ طالبِ علم کی مختلف مارکس شیٹ آئیں جو مختلف انرولمنٹ نمبرز پر جاری کی گئی تھیں۔ جب کہ قاعدہ یہ ہے کہ انرولمنٹ نمبر ڈگری مکمل ہونے تک ایک ہی رہتا ہے۔ صرف رول نمبر جسے سیٹ نمبر بھی کہا جاتا ہے وہ تبدیل ہوتا رہتا ہے۔
سینڈیکیٹ ارکان نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اس بات سے بھی اتفاق نہیں کیا کہ طارق محمود جہانگیری کے کیس میں جلد بازی سے کام لیا گیا۔ بلکہ ان کا خیال ہے کہ یہ کام معمول کی رفتار سے ہوا ہے۔
البتہ دونوں سینڈیکیٹ ارکان نے ڈاکٹر ریاض کو حراست میں لینے کے عمل کو غلط کہا اور بتایا کہ استاد کو حراست میں رکھنے کے خلاف اساتذہ نے پیر کو کلاسز کا بائیکاٹ اور احتجاج بھی کیا ہے۔
جسٹس جہانگیری کے خلاف سوشل میڈیا پر چلنے والی مہم کا معاملہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں بھی زیرِ سماعت ہے جس کی اگلی سماعت ہائی کورٹ کا فل بینچ 19 ستمبر کو کرے گا۔