Sidra Dar is a multimedia journalist based in Karachi, Pakistan.
پاکستان میں رات گئے ملک بھر میں بجلی کی بحالی کا کام شروع ہوا لیکن کراچی کے بہت سے علاقے ایسے بھی تھے جو رات 12 بجے بھی تاریکی میں ڈوبے نظر آئے۔
پاکستان کے صوبہ سندھ کے ضلع سانگھڑ میں ہندوؤں کی بھیل برادری سے تعلق رکھنے والی دیا بھیل کو بے دردی سے قتل کیے جانے کی خبر پاکستان اور بھارت سمیت دنیا بھر میں موضوعِ بحث ہے۔
کراچی سے تعلق رکھنے والی 16 سالہ کرن جعفر اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کی خواہش مند ہیں۔ لیکن 'ب' فارم ان کے خوابوں کی تعبیر کی راہ میں رکاوٹ بن کر حائل ہے۔ پاکستان میں ایسے کتنے ہی بچے ہیں جو صرف شناختی دستاویزات نہ ہونے کی وجہ سے تعلیم سے محروم ہیں۔ کراچی سے سدرہ ڈار اور خلیل احمد کی رپورٹ۔
ہم اب گوٹھ کوٹھی کلہوڑو میں داخل ہوچکے تھے گاڑی سے اترتے وقت میرے کانوں میں جو پہلی آواز پڑی وہ اسکول میں پڑھائے جانے والے سبق کی تھی جسے بچے با آواز بلند ایک ساتھ دہرا رہے تھے۔ مجھے اپنے اسکول کا وقت یاد آگیا۔ تقریباً 50 قدم کے فاصلے پر یہ اسکول تھا جس میں داخل ہوتے ہی مجھے حیرت کا جھٹکا لگا۔
فیفا ورلڈ کپ کے شائقین فائنل میں ارجنٹائن اور فرانس کے اچھے کھیل کی امید کیے ہوئے ہیں۔ کراچی کے صدیق بلوچ گوٹھ میں بھی کچھ مداح ارجنٹائن کی فتح چاہتے ہیں جب کہ بعض شائقین کو فرانس سے کامیابی کی امید ہے۔ مزید جانیے سدرہ ڈار اور خلیل احمد کی رپورٹ میں۔
کلاس روم میں بلیک بورڈ موجود تھا لیکن بیٹھنے کو فرنیچر نہیں تھا۔ نئی چمکتی ٹائلوں سے بنے تین کلاس روم پر مشتمل یہ ضلع لاڑکانہ کا گوٹھ شیر محمد بروہی کا پرائمری اسکول تھا۔
سماجی تنظیموں کے مطابق امدادی کام اب سست روی کا شکار ہے کیوں کہ غیر ملکی امداد آنے کے بعد لوگ اب سیلاب کو کسی حد تک بھول چکے ہیں۔ تو اب اس طرح سے مقامی امداد نہیں مل رہی جیسے پہلے مل رہی تھی۔
عالمی ادارہ صحت کی 2021 کی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں تین کروڑ 84 لاکھ افراد ایچ آئی وی کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں جن میں 17 لاکھ تعداد بچوں کی ہے۔
پولیس کے مطابق رات بارہ بج کر پینتالیس منٹ پر تھانہ کلفٹن کی حدود میں ڈی ایچ اے فیز فائیو، اسٹریٹ ای کے پاس مشکوک کار کو پولیس نے روکنے کی کوشش کی جس کے بعد ملز م اور پولیس اہلکار کے درمیان ہونے والی تلخ کلامی میں ملزم نے پولیس اہلکار پر گولی چلادی اور کار لے کر فرار ہو گیا۔
کراچی کے نسلہ ٹاور کو منہدم کیے جانے کے واقعے کو ایک برس بیت گیا ہے۔ یہ ایک برس متاثرہ رہائشیوں کے لیے کسی آزمائش سے کم نہیں تھا۔ وہ آج بھی وہاں گزرے لمحات کو یاد کرتے ہیں۔ اُن کا یہ بھی شکوہ ہے کہ چیف جسٹس کے احکامات کے باوجود تاحال اُنہیں معاوضہ نہیں ملا۔سدرہ ڈار اور خلیل احمد کی رپورٹ۔۔۔
ایک اندازے کے مطابق دنیا بھر میں 46 کروڑ سے زائد افراد ذیابیطس کا شکار ہیں جن میں سے 90 فی صد ٹائپ ٹو سے متاثر ہیں۔ پاکستان کا شمار دنیا بھر میں ذیابیطس سے متاثرہ ممالک میں تیسرے نمبر پر ہوتا ہے۔
چادر اور چار دیواری کے تحفظ کا احساس اب بری طرح سے سیلاب سے متاثرہ خواتین کو ستا رہا ہے یہی وجہ ہے کہ تباہ شدہ علاقوں میں جہاں اب پہلے جیسا کچھ بھی نہیں، یہ خواتین اس سب کے باوجود وہاں صرف اس لیے لوٹنا چاہتی ہیں کہ وہ اپنے قبیلے اور برادری کے درمیان رہ کر خود کو کسی حد تک محفوظ تصور کرسکیں۔
حمیدہ بانو نے اپنی داستان سناتے ہوئے بتایا کہ کراچی میں انہوں نے ایک ایک ایسے شخص سے شادی کی جس کی بیوی مر چکی تھی اور ان کے بچے بے سہارا تھے۔ ان بچوں کو سنبھالنے کی ذمے داری حمیدہ نے لی۔
کریمہ کا تعلق سندھ کے ضلع دادو کی تحصیل جوہی سے ہے جو سیلاب کے بعد خیمہ بستی میں پناہ لیے ہوئے تھیں جو اب واپس اپنے علاقے جا رہی ہیں۔ کریمہ کہتی ہیں گھر جا کر زندگی کا سفر وہیں سے شروع کریں گے جہاں سے ٹوٹا تھا۔
"مجھے دھوکے سے دبئی بول کر پاکستان میں اتار دیا۔ میں نے یہاں 20 برس گزار دیے نہ بہن بھائی ہیں نہ بچے صرف اللہ کا سہارا ہے۔" یہ الفاظ حمیدہ بانو کے ہیں جنہیں بھارت سے اسمگل کر کے پاکستان لایا گیا تھا۔ کراچی کے ولی اللہ ایسی خواتین کو ان کے پیاروں سے ملاتے ہیں۔ سدرہ ڈار کی رپورٹ
مجھے ذہنی طور پر تیار کردیا گیا تھا کہ مجھے اس دکھی ماں سے شاید ہی کوئی جواب مل سکے۔ میں نے جب ان خواتین کو بتایا کہ میں ان کے درمیان بیٹھنا چاہتی ہوں تو یہاں بھی ان لٹے پٹے خاندانوں نے اپنی مہمان نوازی برقرار رکھتے ہوئے ایک مثال قائم کر ڈالی۔
سیلاب زدہ علاقوں میں بیماریاں تیزی سے پھیل رہی ہیں۔ ایسے میں امدادی ادارے میڈیکل کیمپ لگا کر ان سیلاب متاثرین کی مدد کر رہے ہیں۔ البتہ ادویات کی کمی کا سامنا ہے۔
خادم حسین ملاح کا خاندان منچھر جھیل میں کشتیوں پر آباد تھا۔ جھیل میں پانی خطرے کے نشان سے بلند ہوا تو ان کا پورا قبیلہ جھیل چھوڑ کر خشکی پر آبسا۔ خادم حسین ملاح نے سیلاب میں کمائی کا متبادل ذریعہ بھی تلاش کر لیا ہے، مگر انہیں ڈر ہے کہ سیلاب کی تباہ کاریوں سے ان کا مستقل روزگار خطرے میں پڑسکتا ہے۔
سیلاب آیا تو بدین کے منور علی اپنا گھر بار نہ بچا سکے۔ البتہ انہیں یہ اطمینان تھا کہ وہ اور ان کے گھر والے اپنی جانیں بچانے میں کامیاب رہے۔ لیکن انہیں کیا معلوم تھا کہ موت اب بھی ان کے تعاقب میں ہے۔
صبح چھ بجے ہمارا سفر کراچی سے ضلع دادو کی جانب تھا۔ ناشتہ ہم نے اپنے مقررہ مقام جامشورو پر کیا اور ناشتے کے وقت یہ سوچ تھی کہ جو کھا رہے ہیں شاید ہی اس کے بعد کچھ مل سکے۔ دادو کی طرف جاتے ہوئے گزر سہون کی جانب سے تھا۔
مزید لوڈ کریں