سندھ کے ضلع دادو اور جوہی میں تھکا دینے والا دن گزارنے کے بعد ہمیں صبح کے ناشتے کے بعد رات 11 بجے کھانا نصیب ہوا۔ دن بھر سیلاب زدہ علاقوں کی رپورٹنگ اور ویڈیوز دفتر بھیجنے کے بعد ہم نے آئندہ دن کی منصوبہ بندی کی اور سونے کا ارادہ کیا۔
جگہ تبدیل ہو جائے تو اکثر نیند اڑ جاتی ہے لیکن اس بار نیند نہ آنے کی وجہ کچھ اور تھی۔ رپورٹنگ کے دوران ہوئی، عورتوں اور بچوں کی بے بسی دیکھی۔جو بہت تکلیف دہ تھی۔
ان کے چہرے نظروں کے سامنے آتے گئے اور اس کے ساتھ ساتھ یہ خیال ستاتا رہا کہ ان کی مدد کیسے ہوگی؟ یہ کیسے اس طرح جی سکیں گے اور ان کا مستقبل کیا ہے؟ ان کے بیمار بچے کب تک بھوک اور علاج کے بغیر زندہ رہ پائیں گے؟ ان سوالات نے نیند کو کوسوں دور کردیا تھا۔ البتہ ایک وقت آیا کہ تھکاوٹ کی جیت ہوئی اور رات کے کسی پہر آنکھ لگ گئی۔
اگلی صبح گھڑی نے الارم بجایا تو دیکھا کہ چھ بج چکے تھے، آخری بار گھڑی پر وقت ساڑھے چار بجے دیکھا تھا۔اٹھ کر سامان سمیٹا اور اگلی منزل کی جانب رواں دواں ہوگئے۔
راستے میں ناشتہ کیا اور مٹیاری کا رخ کیا۔ حیدر آباد سے مٹیاری کا سفر کوئی طویل نہ تھا لیکن اس سے آگے کیا کیا دیکھنا ہے یہ سوچا بھی نہیں تھا۔
نو بجے ہی مٹیاری میں آغا خان مدر اینڈ چائلڈ ہیلتھ ریسرچ اینڈ ٹریننگ سینٹر کے باہر موجود تھے، جہاں ملاقات ڈاکٹر فیاض عمرانی سے ہوئی۔
یہاں ایک خاتون سویداں سے ملاقات ہوئی جنہوں نے ڈاکٹروں کی ٹیم سے مدد طلب کی تھی۔ وہ اپنی ساس کے ہمراہ یہاں پاؤں میں زخم کے علاج کے لے پہنچی تھیں۔ سویداں سے بات چیت میں معلوم ہوا کہ ان کا گاؤں مٹیاری سے نصف گھنٹے کی مسافت پر ہے، جو سیلاب سے گھرا ہوا ہے۔
سویداں آٹھ ماہ کی حاملہ تھیں جب کہ سیلاب کے کھڑے پانی میں سفر کرنے اور مسلسل اسی پانی میں وقت گزارنے کے سبب ان کے پاؤں میں زخم بن گئے تھے، جن میں پیپ پڑ چکی تھی۔
’’میرے چار بچے ہیں، ہمارا گھر ڈوب چکا ہے البتہ ہم باہر نہیں نکل سکے کیوں کہ یہاں سے نکل کر کہاں جائیں؟ شوہر کو اس وقت شدید بخار ہے۔ میرے پاؤں میں یہ زخم ہوگیا ہے، جس کے باعث شدید درد اور سوجھن ہے۔ میں نے کسی کے ہاتھ یہاں پیغام بھیجا کہ میری مدد کریں، مجھے علاج کی ضرورت ہے تو ان کی گاڑی آکر مجھے یہاں لے آئی۔‘‘
سیلاب سے سب تباہ ہوچکا ہے، جب بچہ پیدا کرنے کا وقت آئے گا تو کیا کریں گی؟ اس سوال پر انہوں نے ہاتھ آسمان کی طرف بلند کر کے کہا کہ ’’اللہ مالک ہے، وہ کوئی راستہ بنا دے گا۔ بس ڈر یہ ہے کہ جو ہو خیریت سے ہو، اگر میں مر گئی تو میرے بچے رل جائیں گے۔ ماں ہی بچوں کو دیکھ سکتی ہے، باقی آنے والے بچے کا نصیب ہوگا۔‘‘
مٹیاری میں 35 برس کی اس ماں سویداں کا وجود اور چہرے کا کرب اسے 60 برس کا ظاہر کر رہا تھا۔
سینٹر سے ڈاکٹروں کی ٹیمیں دو مختلف مقامات پر میڈیکل کیمپ کے لیے صبح آٹھ بجے روانہ ہوچکی تھیں۔ ڈاکٹر فیاض کے ہمراہ آگے روانہ ہوئے۔ اس سینٹر سے مقررہ مقام تک جانے کے لیے ایک گھنٹہ لگا۔ راستے میں لاتعداد لوگ سڑک کے کنارے شدید گرمی میں کسی سائے اور چھت کے بغیر بے یار و مددگار بیٹھے دکھائی دیے۔
سفر کے دوران کئی مقامات پر دو سے تین فٹ کھڑے پانی سے گاڑی نکلی۔ کئی مقامات پر یہ سمجھنے میں وقت لگا کہ سڑک کے درمیان کھڑے پانی میں راستہ سلامت ہے بھی یا نہیں؟ یہاں سے گزرا جائے یا نہیں؟
جب چنیسر چھٹو گوٹھ تک پہنچ گئے، جہاں ایک مسجد سے ملحق گھر کے بڑے سے صحن میں ایک روزہ میڈیکل کیمپ لگا ہوا تھا اور وہاں پر موجود لوگوں کا رش ایسا تھا، جیسے کوئی لنگر خانہ ہو۔
کیمپ میں داخل ہوتے ہی دیکھا کہ پانچ خواتین اور تین مردوں پر مشتمل ٹیم مریضوں کا ابتدائی معائنہ کرنے اور پھر اسپیشلسٹ کے پاس بھیجنے کے لیے فارم میں تفصیل درج کر رہی ہے، جس کے بعد ادویات کی فراہمی ہورہی ہے۔
پہلے 10 منٹ میں، جو مناظر آنکھوں کے سامنے آئے، اس نے ہمت کو یک دم ختم کردیا۔ ماؤں کی گود میں بچے جلدی بیماریوں کا شکار تھے۔ سر، کان، گردن پھوڑوں سے بھرے ہوئے تھے، جن میں پیپ پڑ چکی تھی۔ ان زخموں پر مکھیاں بھنبھنا رہی تھیں۔
ان معصوم بچوں کی تکلیف کا عالم ان کے چہروں سے واضح تھا اور آنکھوں میں آنسو خشک ہوچکے تھے۔
مائیں یا تو ان چپکی ہوئی مکھیوں کو اپنے دوپٹے سے ہٹانے کی کوشش کرتیں یا پھونک مار مار کر اپنے بچے کو اس شدید گرمی میں ممتا اور ٹھنڈک کا احساس دینے کی کوشش کر رہی تھیں۔
یہ تمام مناظر دیکھے اور خاموشی سے نظر بچا کر واپس گاڑی میں بیٹھ گئی۔ مجھے ایک ایک کر کے اپنے محلے کے وہ تمام شور مچاتے ہنستے، کھیلتے بچے یاد آنے لگے، جن کے والدین نے ان کے لیئے ابھی حال ہی میں سال گرہ کی پارٹی دھوم دھام سے منقعد کی تھی، جس کی تھیم ان کے فیورٹ کارٹون پر مبنی تھی۔
گلی میں مہنگی سائیکلیں دوڑاتے، بیٹری سے چلنے والی گاڑیاں چلاتے وہ بچے اور کیمپوں میں آئے موت سے لڑتے بچوں کے چہرے کسی فلم کی ریل کی طرح آنکھوں کے سامنے آتے گئے۔
میرے اندر سے ایک آواز آئی کہ رپورٹر تو بہت کچھ دیکھتا ہے، رونا نہیں۔ اگلی آواز یہ آئی کہ رپورٹر بھی انسان ہوتا ہے، بے حس نہیں۔میرا ضبط ختم ہو چکا تھا، میں کچھ دیر روئی اور پھر محسوس کیا کہ اب میں کچھ بہتر ہوں اور یہ سب دیکھ سکوں گی۔
اگلے پندرہ منٹ کے بعد میں اس کیمپ میں دوبارہ داخل ہوئی اور بات چیت اسی عورت سے شروع کی جس کا بچہ شدید تکلیف میں دیکھ کر میری ہمت جواب دے گئی تھی۔
’’میرے بچے کے سر پر پہلے مچھروں نے کاٹا، پھر مختلف طرح کے کیڑے ان دانوں پر کاٹنے لگے۔ کوئی دوا نہیں تھی، بچہ روتا تھا، تو میں نے زخم پر تیل لگایا کہ اب شاید کوئی کیڑا نہ آئے لیکن دیکھتے دیکھتے یہ زخم سر سے گردن پر آیا، پھر اس کے کان میں اتر گیا۔ آج اس زخم کو 15 دن ہوگئے ہیں۔ کل کسی نے بتایا کہ یہاں کراچی سے ڈاکٹر آ رہے ہیں تو میں آگئی۔ بس میرا بچہ ٹھیک ہو جائے، مجھے اور کچھ نہیں چاہیے۔‘‘
یہ روداد ایک بے بس ماں کی تھی، جس کے بچے کے تن پر صاف ستھرا کپڑا تک نہ تھا۔ تھوڑی دیر کے بعد ڈاکٹر ڈیٹول سے اس بچے کے سر اور کان کے زخم صاف کر رہے تھے اور زخموں پر چپکی مکھیاں جو اب مر چکی تھی۔ انہیں روئی سے اتار کر سر سے الگ کر رہے تھے۔
وہ بچہ جس کی عمر ایک سے ڈیڑھ برس ہوگی اس کی آنکھ میں نہ کوئی آنسو تھا، نہ ہی کوئی سسکی۔بس ماں کے میلے دوپٹے کا پلو اس نے کس کر پکڑا ہوا تھا۔
وہاں بہت سی خواتین مجھے ڈاکٹر سمجھ کر بچوں کے مسائل بتاتی رہیں۔ میں انہیں ٹوک نہ سکی۔ پھر بات پوری ہونے کے بعد بتایا کہ میں ڈاکٹر نہیں ہوں۔
اس میڈیکل کیمپ میں یا تو زیادہ تعداد حاملہ خواتین کی تھی یا چھوٹے بچوں کی۔ جیسے جیسے دن گزر رہا تھا رش بڑھتا جارہا تھا۔ ہر تھوڑی دیر بعد ایک اعلان ہوتا تھا کہ مریض تھوڑا فاصلہ رکھیں روشنی اور ہوا کا گزر چھوڑیں۔
یہ اعلان اس لیے تھا کہ ڈاکٹر ،جو مسلسل کسی وقفے کے بغیر معائنے میں مصروف تھے، وہ شدید گرمی اور حبس میں پسینے سے شرابور تھے۔ یہاں موجود مریضوں کے لیے ٹھنڈے پانی کی سہولت تھی۔ مائیں بچوں کو گلاس بھر بھر کر پانی پلا رہی تھی کہ ایک عورت کا جملہ میری سماعتوں سے ٹکرایا جس کا بچہ تیسرا گلاس پینے سے منع کر رہا تھا۔
’’دیکھو پانی کتنا ٹھنڈا اور صاف ہے۔ پھر نہیں ملے گا۔ دل بھر بھی جائے، تو بھی پی لو بیٹا۔ یہ ایک اور گلاس پی لو۔‘‘
چند منٹ میں ختم ہونے والے کولر دوبارہ بھر جاتے تھے اور گرمی کے اس موسم میں یہ پانی ماوں کو اپنی اولاد کے لیے ایک نعمت محسوس ہو رہا تھا۔
میں ہر بچے کو بغور دیکھ رہی تھی، جیسے ہی اس بچے کی نگاہ مجھ پر پڑتی، تو اس کی جانب سے ایک جاندار مسکراہٹ یا شرماہٹ میرے اندر کی ٹوٹ پھوٹ کو جوڑ دیتی۔ اس آفت میں بھی یہ بچے دوسرے گاؤں سے آئے بچوں سے دوستیاں بنا رہے تھے اور ہنس بول رہے تھے۔
کئی گھنٹے یہاں لوگوں سے بات چیت کرنے میں وقت کا احساس نہ ہوا اور پھر چار بجے کیمپ ختم ہونے کا اعلان ہوا۔
یہ اعلان شاید نہ ہوتا اگر ادویات ختم نہ ہوتیں۔ ڈاکٹر فیاض سے معلوم ہوا کہ ابتدائی طور پر یہ کیمپ آغا خان یونیورسٹی کے ڈاکٹرز نے اپنی تنخواہ سے امداد جمع کرکے شروع کیے، جب کیمپ میں مریضوں کی تعداد بڑھتی گئی تو پھر ان کیمپوں کے لیے امریکہ سے لگ بھگ ایک کروڑ روپے کی امداد ملی، جس کے بعد میڈیکل کیمپوں کی تعداد میں اضافہ ہونے لگا۔
ڈاکٹروں کی ٹیم اٹھنے کو تیار تھی کہ ایک شخص نے آکر اطلاع دی کہ ایک بزرگ مریض آئے ہیں، جنہیں بہت دور سے ان کے بیٹے یہاں پہنچانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ سیلاب کے پانی سے متاثرہ رپورٹس اٹھائے ان کے بیٹوں نے ڈاکٹر کے سامنے والد کی بیماری کا احوال بتایا۔
ماہرِ اطفال کے سامنے ایک دل کا مریض کھڑا تھا اور وہ اسے سمجھا رہے تھے کہ وہ کوئی ایسی دوا نہ تو دے سکتے ہیں، نہ لکھ سکتے ہیں جس سے ان کو افاقہ ہوسکے البتہ یہ ضرور کرسکتے ہیں کہ حیدر آباد کے اسپتال ریفر کردیں۔ان بزرگ کو دوا تو نہ مل سکی البتہ وہ دعا دے کر رخصت ہوئے۔
جس وقت وہاں سے روانہ ہو رہے تھے تو بھی اس میڈیکل کیمپ میں 50 سے 60 مریض موجود تھے البتہ ان کو دینے کے لیے ادویات نہیں تھیں۔ انہیں یہ امید دلائی گئی کہ کیمپ دوبارہ لگے گا۔
اسی کیمپ میں میری ملاقات ریشماں سے ہوئی، جس نے سیلاب اور تیز بارش کے دوران بیٹی کو گھر میں جنم دیا تھا۔ ڈاکٹر کے مطابق اس بچی کو اینکیوبیٹر میں ہونا چاہیے تھا لیکن وہ خون کی کمی کا شکار ماں کی گود میں تھی۔ ماں کا وزن 42 کلو اور بچی کا وزن ایک کلو تھا۔ یہ ماں بھی اپنے لیے نہیں، اپنی بچی کے لیے دوا لینے طویل مسافت طے کر کے اس میڈیکل کیمپ میں پہنچی تھی۔
واپسی پر راستے میں ایک منظر دیکھ کر رکنا پڑا۔ یہ مرغیوں کا فارم تھا جو اب خالی تھا لیکن یہاں بہت سے سیلاب متاثرین آباد تھے۔
یہاں ان متاثرین کے رکنے کی وجہ صرف ایک چھت تھی۔ اندر شدید بد بو اور گندگی تھی لیکن اس کے باوجود درجنوں خاندان یہاں رہ رہے تھے، جن کا سیلاب سے بچ جانے والا سامان، کچھ چارپائیاں، برتن، کپڑے اور مویشی تھے۔
اس پولٹری فارم میں بنا کسی تفریق کے ہندو مسلم ایک ساتھ رہ رہے تھے۔یہاں کے مرد راشن اور امداد کی تلاش میں نکلے ہوئے تھے جب کہ خواتین بچوں کے ہمراہ ان کی واپسی کی منتظر تھیں۔
سورج ڈھلنے سے قبل ہم ریسرچ سینٹر پہنچنا چاہتے تھے کہ راستے میں سیکھاٹ گوٹھ سے گزر ہوا جو دریا کنارے ہے۔ یہاں پانی کا بہاؤ زیادہ تھا اور خدشہ تھا کہ کسی بھی وقت مزید پانی آنے سے یہ گاؤں زیرِ آب آسکتا ہے۔
اس جگہ کھڑے ہو کر سورج ڈھلنے کا منظر نظر آ رہا تھا کہ اچانک دریا کنارے کھڑی کشتی پر بیٹھے بچوں کی مستیاں اور قہقہوں سے توجہ ان کی جانب ہوگئی۔
یہ بچے اسی علاقے کے رہنے والے تھے اور یوں معلوم ہو رہا تھا کہ ان سب کی آپس میں گہری دوستی بھی ہے۔ ان میں ایک بچی نے مجھ سے پوچھا کہ آپ کہاں سے آئی ہیں؟ میں نے اسے بتایا کہ کراچی سے آئی ہوں۔ تو اس بچی نے کہا کہ آپ نے ہمارا سمندر دیکھا؟ میں نے ہنس کر جواب دیا کہ سمندر تو کراچی میں ہے یہ تو دریا ہے۔اس پر بچی کا ہنستے ہوئے جواب تھا کہ یہ بھی سمندر ہے یقین نہیں تو اندر اتر کر دیکھ لیں۔
ان بچوں سے معلوم ہوا کہ ان کے والدین سندھ میں آئے ہوئے سیلاب سے پریشان ہیں۔ ان بچوں کے اسکول اب بند ہیں، تو ان کا ٹھکانہ یہ دریا کا کنارا اور کشتی ہے، جس میں بیٹھ کر وہ گپ شپ کرتے ہیں۔
دنیا کے مسائل سے بے خبر یہ بچے جب زوردار قہقہہ لگاتے، تو دریا کی لہروں کا شور بھی ماند پڑ جاتا، پر ان مسکراتے چہروں میں اب بھی نظروں کے سامنے وہ تمام بچے آرہے تھے جو میڈیکل کیمپ میں موجود تھے۔