دنیا بھر میں جنگلی حیات کے تحفظ اور ماحولیاتی و موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے بچاؤ کے لیے سرگرم ایک بین الاقوامی تنظیم ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ (ڈبلیو ڈبلیو ایف) نے اپنی جاری کردہ 'لیونگ پلینیٹ رپورٹ 2020' میں انکشاف کیا ہے کہ دنیا میں 50 سال کے دوران جنگلی حیات کی آبادی میں دو تہائی کمی ہوئی ہے۔
سائنس دانوں، ماہرین حیاتیات اور دیگر شعبوں کے مستند ماہرین کی اس مشترکہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ عالمی سطح پر نصف صدی کے دوران دودھ دینے والے، رینگنے والے، پانی اور خشکی پر رہنے والے جانوروں، پرندوں اور مختلف اقسام کی مچھلیوں کی افزائش نسل میں دو تہائی کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔
رپورٹ کے مطابق ایسی کمی اس سے قبل کسی اور دور میں نہیں دیکھی گئی۔ قدرتی ماحول کی تباہی کی شرح میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ جب کہ یہی وجوہات دنیا میں کرونا وائرس جیسی مہلک وباؤں اور مختلف امراض کے پھیلاؤ کا بھی باعث بن رہی ہیں۔
لیونگ پلینیٹ رپورٹ کے مطابق عالمی حیاتیات سے متعلق یہ حقائق لندن کی 'زولوجیکل سوسائٹی' نے پیش کیے گئے ہیں، جو عالمی وبا کے پھیلنے کے خطرات میں اضافہ، زراعت کے لیے زمین کے استعمال میں تبدیلی اور جنگلی حیات کی تجارت اور بطور خوراک استعمال جیسے عوامل کو ظاہر کرتے ہیں۔
ماہرین کے مطابق یہ رپورٹ ظاہر کرتی ہے کہ انسانی سرگرمیاں قدرتی ماحول کو تیزی سے تباہ کر رہی ہیں، جس سے نہ صرف جنگلی حیات بلکہ انسانی صحت اور زندگی کے مختلف پہلوؤں پر تباہ کن اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ان شواہد کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ جنگلی حیات کی مختلف اقسام کی گھٹتی ہوتی نسلیں اس جانب واضح اشارہ ہے کہ ان سرگرمیوں سے قدرتی نظام میں تیزی سے خلل پڑ رہا ہے اور یہ چیزیں انسانوں کو مختلف واقعات اور موسمیاتی تبدیلیوں سے انتباہ کر رہی ہیں کہ وہ ایسی سرگرمیوں سے باز آ جائیں۔
رپورٹ پر ڈی جی ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان حماد نقی خان کا کہنا ہے کہ سمندروں اور دریاؤں میں موجود مچھلیوں سے لے کر شہد کی مکھیوں تک، زرعی پیداوار میں اہم کردار ادا کرنے والی حیاتیات کی نسل کے زوال سے براہ راست خوراک، اس کے تحفظ اور لاکھوں انسانوں کے ذریعۂ معاش متاثر ہو رہے ہیں۔
حماد نقی خان نے مزید کہا کہ دنیا کی تنوع پذیری میں تیزی سے کمی ہو رہی ہے، کیوں کہ مختلف انواع و اقسام کی مخلوقات کی آبادیوں میں تیز رفتار زوال دیکھنے میں آیا ہے۔ آج کے حالات کے تناظر میں دیکھا جائے تو دنیا کرونا جیسی عالمی وبا کا شکار ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ وائرس دیگر کئی وائرسز کی طرح حیوانوں سے انسانوں کو منتقل ہوا ہے۔
ان کے بقول حیوانوں سے انسانوں کو منتقل ہونے والی بیماریوں کی دو اہم وجوہات ہو سکتی ہیں۔ جن میں ایک تو یہ ہے کہ جب انسان جانوروں کی پناہ گاہوں میں گھسنے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ تجاوزات قائم کرتا ہے۔ زراعت کی کوشش کرتا ہے یا پھر وہاں دیگر تعمیرات کی جاتی ہیں، تو ایسی وباؤں کے پھیلنے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ جب کہ دوسری وجہ ان جانوروں کی تجارت بھی ہو سکتی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ اس صورتِ حال میں ذمہ داری انسانوں پر ہی عائد ہوتی ہے۔ جب کہ اس رپورٹ میں بھی یہی پیغام دینے کی کوشش کی گئی ہے کہ دنیا میں آنے والی 75 فی صد وبائیں حیوانوں ہی سے انسانوں کو منتقل ہوئی ہیں۔ ان کے بقول چاہے وہ سارس ہو، برڈ فلو، ایون فلو، ایڈز یا اس طرح کا کوئی اور وائرس ہو۔
ان کا کہنا تھا کہ اس سال دنیا کے مختلف علاقوں کے جنگلات میں آگ لگنے کے بڑے واقعات، اوسط عالمی درجہ حرارت میں تیزی سے اضافہ، غیر معمولی بارشیں اور شہری علاقوں میں سیلابی کیفیت اور دیگر عوامل خبردار کر رہے ہیں کہ ہم غلط راستے سے ہٹ جائیں.
موسمیاتی تبدیلیاں اور پاکستان
دوسری جانب اگر پاکستان کی بات کی جائے تو یہ دنیا میں موسمیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے 100 ممالک کی فہرست میں شامل ہے۔
حماد نقی خان نے بتایا کہ ملک کا سب سے بڑا دریا 'دریائے سندھ' پلاسٹک کی آلودگی سے متاثر ہونے والا دنیا کا دوسرا بڑا دریا ہے۔ جب کہ ملک میں تازہ پانی میں پائے جانے والے کچھووں، گدھ، مگرمچھوں اور دیگر علاقوں سے ہجرت کر کے آنے والے پرندوں کی تعداد میں تیزی سے کمی واقع ہو رہی ہے۔
اس کی بنیادی وجہ ان کے خیال میں جنگلی جانوروں کی غیر قانونی تجارت، پلاسٹک کا کچرا، آبی آلودگی اور موسمیاتی تبدیلیاں ہیں اور ان سے نمٹنے کے لیے فوری طور پر اقدامات ناگزیر ہو چکے ہیں۔
رپورٹ دنیا بھر کے 125 سے زائد ماہرین کے تعاون سے عالمی سطح پر جنگلی حیات کی آبادی کے رجحانات میں تیزی سے آنے والی کمی کو ظاہر کرتی ہے۔
جنگلی حیات کی آبادی میں آنے والی ڈرامائی کمی کی سب سے بڑی وجہ ان کے فطری مقامات کا خاتمہ، جنگلات کی بے دریغ کٹائی اور انسانی خوراک کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے زمین کے استعمال میں تبدیلی ہے۔
رپورٹ میں ایسی 21 ہزار جنگلی حیاتیات کی بھی نشاندہی کی گئی ہے، جن کی آبادی میں گزشتہ 46 سال کے دوران 84 فی صد تک کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔
جنگلات کی کٹائی اور خوراک کا نظام
ڈبلیو ڈبلیو ایف انٹرنیشنل کے ڈائریکٹر جنرل مارکو لیمبرٹینی کا کہنا ہے کہ یہ جائزہ ان اہم شواہد کو سامنے لاتا ہے کہ اگر ہمیں موجودہ اور آئندہ نسلوں کو بہتر ماحول کی فراہمی اور ماحولیات کی بحالی کی کوئی امید ہے تو عالمی رہنماؤں کو تحفظ کے اقدامات سمیت جنگلی حیات کی نسل میں کمی کا باعث بننے والی اہم وجہ جنگلات کی کٹائی کے سلسلے کو بند کرنے اور خوراک کے نظام کو مزید پائیدار بنانا ہو گا۔
دنیا کے ماحولیاتی نظام کو خطرہ
اس رپورٹ میں لندن کی زولوجیکل سوسائٹی کے ڈائریکٹر ڈاکٹر اینڈریو ٹیری کا کہنا ہے کہ عالمی حیاتیات کے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ 50 برس میں ہونے والی 68 فی صد کمی انتہائی تباہ کن اور انسان اور قدرتی ماحول کو پہنچنے والے نقصان کا واضح ثبوت ہے۔
ان کے مطابق اگر اب بھی کچھ نہیں بدلا تو اس نسل کا خاتمہ یوں ہی جاری رہے گا جو جنگلی حیات کی نسلوں کو معدومیت کی جانب لے جا رہا ہے اور اس سے دنیا کے ماحولیاتی نظام کو خطرہ ہے۔ جس پر ہم سب کا انحصار ہے۔
لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ جنگلی حیات کا تحفظ کر کے انہیں تباہی کے دہانے تک جانے سے بچانے کے لیے مہارت، عزم اور سرمایہ کاری کے ساتھ تباہ کن رجحانات کو بدلا جا سکتا ہے۔
رپورٹ بتاتی ہے کہ جنگلی حیات کے رہائشی مقامات کو پہنچنے والے نقصانات کے ازالے کے لیے اقدامات نہ کیے گئے تو ان کی آبادی کے تناسب میں تنزلی جاری رہے گی۔ اس تنزلی میں کمی کے لیے ایک مربوط حکمت عملی کی ضرورت ہے۔
رپورٹ کے مطابق انسانوں کی جانب سے فطرت میں دخل اندازی اور قدرتی مقامات کو پہنچنے والے نقصانات میں بدلاؤ صرف اسی صورت ممکن ہے کہ جب اس کے تحفظ کے لیے دلیرانہ کوششیں کی جائیں اور خوراک کی ضروریات میں تبدیلی لائی جائے۔
یہ تحقیق ظاہر کرتی ہے کہ ان اقدامات پر عمل درآمد کر کے جنگلی حیات کے مقامات پر بڑھتے ہوئے دباؤ اور نقصانات کو کم کرنے میں مدد ملے گی۔ یوں ان رجحانات کو بدلا جا سکتا ہے۔
دوسری صورت میں اگر یہی معمول رہا تو 1970 سے جاری عالمی حیاتیات کی تباہی اور تنزلی جاری رہے گی۔
بین الاقوامی انسٹی ٹیوٹ آف اپلائیڈ سسٹم کے ریسرچ اسکالر ڈیوڈ لیکلر نے کہا ہے کہ ان نقصانات کو کم کرنے میں برسوں لگیں گے۔
ان کے مطابق ماحولیاتی نظام کو ناقابلِ تلافی نقصانات پہنچنے کا امکان موجود ہے۔ جس سے اس نظام کو خطرات لاحق ہیں، جس پر انسانوں کا انحصار ہے۔
'فطرت اور انسان کے لیے نئے معاہدے'
یہ رپورٹ اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 75 ویں اجلاس سے ایک ہفتہ پہلے پیش کی گئی ہے۔ جب عالمی رہنماؤں کا پائیدار ترقی کے اہداف، پیرس معاہدے اور بائیولوجیکل ڈائیورسٹی کے کنونشن (سی بی ڈی) پر ہونے والی پیش رفت کا جائزہ متوقع ہے۔
اقوامِ متحدہ کا سالانہ اجلاس تمام عالمی رہنماؤں، اداروں اور سول سوسائٹی کے ارکان کو اقدامات کرنے اور 2020 کا فریم ورک تیار کرنے کے لیے اکٹھا کرے گا اور 'فطرت اور انسان کے لیے نئے معاہدے' کی فوری ضرورت کے قیام کے لیے ایک سنگ میل کا تعین کرے گا۔
واضح رہے کہ اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے رہنما چند روز میں ورچوئل پلیٹ فارم کے ذریعے جمع ہوں گے۔
اس رپورٹ کے مصنفین اور دیگر ماہرین نے اس امید کا اظہار کیا ہے کہ یہ تحقیق 'انسان اور قدرت کے نئے معاہدے' کے لیے مددگار اور جنگلی حیات، پودوں اور کیڑے مکوڑوں کی افزائش نسل اور انسانی زندگی کی طویل مدتی بقا کے لیے اہم ثابت ہو گی۔