منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کے لیے مالی وسائل کی روک تھام سے متعلق عالمی ادارے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کا ورچوئل اجلاس رواں ماہ 21 اکتوبر سے 23 اکتوبر کے درمیان منعقد ہو گا۔ جس میں پاکستان کو گرے لسٹ سے نکالنے کے بارے میں فیصلہ متوقع ہے۔
مبصرین کا کہنا ہے 'ایف اے ٹی ایف' کا پاکستان پر دباؤ برقرار رہے گا اور پاکستان کا گرے لسٹ سے نکلنا مشکل ہو گا۔
خیال رہے کہ ایف اے ٹی ایف نے پاکستان کو 27 نکات پر مشتمل ایک فہرست فراہم کی تھی۔ رواں برس فروری تک پاکستان ان میں سے 14 نکات پر عمل کر چکا تھا۔ تاہم ایف اے ٹی ایف نے پاکستان کو گرے لسٹ میں برقرار رکھتے ہوئے باقی 13 نکات پر عمل درآمد کی ہدایت کی تھی۔
ایف اے ٹی ایف نے پاکستان پر زور دیا تھا کہ وہ تیزی سے اپنے پورے ایکشن پلان کو رواں سال جون تک مکمل کرے۔ ورنہ اسے نگرانی کے دائرۂ اختیار کی فہرست میں شامل کر دیا جائے گا جسے عام طور پر واچ ڈاگ کی 'بلیک لسٹ' کہا جاتا ہے۔
حکومتِ پاکستان کے اقدامات
پاکستان کی حکومت نے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کو یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ مقررہ مہلت کے دوران ضروری قانون سازی سمیت دیگر معاملات کی جانچ پڑتال کے لیے ایک مؤثر نظام تیار کر لے گا۔
پاکستان کی حکومت نے رواں برس 28 جولائی کو پارلیمنٹ کو 27 نکات میں سے 10 نکات کی تکمیل اور صورتِ حال سے آگاہ کیا تھا۔
گزشتہ ماہ ہونے والے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں ایف اے ٹی ایف کی شرائط پر غور کیا گیا اور پاکستان کے قانونی نظام کو بین الاقوامی معیار اور ایف اے ٹی ایف کے تقاضوں کے مطابق بہتر کرنے پر اتفاق کیا گیا۔ اسی ضمن میں پارلیمنٹ نے 15 قوانین میں ترمیم کی منظوری بھی دی ہے۔
ان تمام اقدامات کے باوجود تجزیہ کار یہ پیش گوئی کر رہے ہیں کہ ایف اے ٹی ایف کے اگلے ہفتے ہونے والے 'ایشیا پیسیفک اجلاس' میں پاکستان کی مشکلات قدرے کم تو ہو سکتی ہیں لیکن ختم نہیں ہو سکتیں۔
'بھارت کی کوشش ہے کہ پاکستان کو گرے لسٹ میں ہی رکھا جائے'
لاہور یونیورسٹی آف مینیجمنٹ سائنسز (لمز) میں پولیٹیکل سائنس کے پروفیسر اور تجزیہ کار ڈاکٹر رسول بخش رئیس سمجھتے ہیں کہ پاکستان نے گرے لسٹ سے نکلنے کے لیے جو اقدامات اور قانون سازی کی ہے وہ کافی حوصلہ افزا ہیں۔ لیکن جو فیصلہ ہونا ہے اس میں ان کے بقول بھارت کی کوشش ہے کہ پاکستان کو گرے لسٹ میں ہی رکھا جائے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے پروفیسر ڈاکٹر رسول بخش رئیس نے کہا کہ اُن کے خیال میں پاکستان پر ایف اے ٹی ایف کا دباؤ برقرار رہے گا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر پاکستان گرے لسٹ سے نکل جائے تو یہ بہت بڑی کامیابی ہوگی۔ ہو سکتا ہے کہ ایف اے ٹی ایف کہے کہ پاکستان نے جو اقدامات کیے ہیں، وہ کافی نہیں ہیں۔
عالمی امور کے تجزیہ کار پروفیسر ڈاکٹر حسن عسکری کہتے ہیں کہ پاکستان نے ایف اے ٹی ایف کے کہنے پر اقدامات اور کچھ قانون سازی تو کی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ایف اے ٹی ایف پاکستان کے اقدامات پر اطمینان کا اظہار تو کرے گا۔ لیکن بین الاقوامی قوتیں دباؤ برقرار رکھنا چاہیں گی۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے پروفیسر ڈاکٹر حسن عسکری نے کہا کہ ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ ایف اے ٹی ایف پاکستان کی جانب سے اٹھائے گئے اقدامات کو سراہنے کے باوجود بھی اسے گرے لسٹ میں ہی رکھے۔
ان کا مزید کہنا تھا ایف اے ٹی ایف پاکستان کے اقدامات کو سراہے گا ضرور لیکن تعریف نہیں کرے گا۔
حافظ سعید کے خلاف مقدمات
حکومتِ پاکستان نے ایف اے ٹی ایف کی شرائط کے مطابق کالعدم تنظیم جماعت الدعوة کے سربراہ حافظ محمد سعید کے خلاف پاکستان کے صوبہ پنجاب کے مختلف شہروں میں کل سات مقدمات درج کیے ہیں۔ ان میں سے تین مقدمات لاہور میں، ایک ملتان میں، دو ساہیوال اور ایک مقدمہ گوجرانوالہ میں درج ہے۔
حافظ سعید کو محکمۂ انسدادِ دہشت گردی پنجاب نے جولائی 2019 میں لاہور سے گوجرانوالہ جاتے ہوئے گرفتار کیا تھا۔
جماعت الدعوة کے سربراہ کے خلاف درج کیے گئے سات مقدمات میں سے دو میں انہیں سزائیں سنائی جا چکی ہیں۔
جماعت الدعوة کی مرکزی قیادت کے خلاف مقدمات
محکمۂ داخلہ پنجاب کے مطابق حافظ محمد مکّی اور یحییٰ مجاہد سمیت جماعت الدعوۃ کی مرکزی قیادت پر پنجاب بھر میں مجموعی طور پر 41 مقدمات درج کیے گئے ہیں جن میں سے 37 مقدمات میں ملزمان کے خلاف چالان جمع ہو چکا ہے۔
محکمۂ داخلہ پنجاب کے مطابق 13 مقدمات جماعت الدعوة کی مرکزی قیادت کو سزائیں سنائی جا چکی ہیں۔ محکمے کے مطابق حافظ محمد سعید سمیت دیگر قیادت کے خلاف منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی مالی معاونت سے متعلق دفعات کے تحت مقدمات درج کیے گئے ہیں۔
کالعدم جماعت کے اداروں کی تحویل
حکومتِ پنجاب نے جماعت الدعوة، لشکرِ طیبہ اور فلاحِ انسانیت فاؤنڈیشن کے زیرِ سایہ چلنے والے اسکولوں، مدارس، اسپتالوں، ایمبولینسز، ڈسپینسریوں، بلڈ بینکس اور لیبارٹریوں سمیت دیگر اداروں کو اپنی تحویل میں لے لیا ہے۔
حکومت کی طرف سے ان اداروں میں ایڈمنسٹریٹرز مقرر کیے گئے ہیں۔ یہ تمام ادارے اب عملی طور پر حکومت کے کنٹرول میں ہیں اور حکومت ہی ان اداروں کا نظم و نسق چلا رہی ہے۔
مقدمات اور سزائیں
ایف اے ٹی ایف کی جانب سے پاکستان کو کہا گیا ہے کہ کالعدم تنظیموں اور ان سے منسلک لوگوں کے خلاف قانونی کارروائیاں کرتے ہوئے انہیں عدالتوں سے سزائیں دلوائی جائیں۔
ایف اے ٹی ایف کی شرائط کو سامنے رکھتے ہوئے پاکستان کی حکومت نے رواں برس اگست میں ایسے 88 افراد پر پابندیاں عائد کرنے کا اعلان کیا۔ جن کے مبینہ طور پر شدّت پسند تنطیموں سے تعلقات تھے۔ ان شدّت پسند تنظیموں میں دولتِ اسلامیہ (داعش)، القاعدہ اور تحریکِ طالبان پاکستان بھی شامل ہیں۔
حافظ محمد سعید سمیت جماعت الدعوة کی مرکزی قیادت کے خلاف 37 مقدمات انسدادِ دہشت گردی کی عدالت میں زیرِ سماعت ہیں۔
ایف اے ٹی ایف ہے کیا؟
فنانشل ایکشن ٹاسک فورس ایک بین الاقوامی ادارہ ہے جس میں مختلف ممالک کی نمائندہ تنظیمیں شامل ہیں۔ اس ادارے کا بنیادی مقصد بین الاقوامی مالیاتی نظام کو انتہا پسندی اور دہشت گردی کے لیے استعمال ہونے سے روکنا ہے۔
ایف اے ٹی ایف نے جون 2018 میں پاکستان کو اپنی گرے لسٹ میں شامل کیا تھا۔ جس کا مقصد یہ جانچنا تھا کہ پاکستان انتہا ہسندوں، دہشت گردی اور دہشت گردوں کی مالی معاونت کو روکنے کے لیے کیا عملی اقدامات کر رہا ہے۔
ایف اے ٹی ایف نے اس سلسلے میں پاکستان کو اکتوبر 2019 تک کا وقت دیا تھا۔ جس میں بعدازاں چار مہینے کی توسیع کر دی گئی تھی۔ فروری 2020 میں ایف اے ٹی ایف نے یہ تسلیم کیا تھا کہ پاکستان نے ایف اے ٹی ایف کی جانب سے دیے گئے 27 مطالبات میں سے 14 مطالبات پر عمل کیا ہے۔ اِس کے باوجود ایف اے ٹی ایف نے نے اس بات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے پاکستان کو گرے لسٹ ہی میں رکھا کہ اس حوالے سے کئی اہم اقدامات نہیں اُٹھائے گئے۔
'عالمی سیاست ہمیشہ سے ایف اے ٹی ایف کے اجلاس میں اثرانداز رہی ہے'
ڈاکٹر رسول بخش رئیس کے مطابق پاکستان نے افغانستان اور امریکہ کے درمیان مذاکرات میں اہم کردار ادا کیا ہے اور اِس کا فائدہ بھی پاکستان کو ملنا چاہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ایشیا پیسیفک گروپ میں امریکہ کا کتنا کردار ہو گا ابھی کچھ نہیں کہا جا سکتا کیوں کہ اِس گروپ میں سعووی عرب، ملائیشیا، چین ہے جو اپنا کردار تو ادا کر سکتے ہیں لیکن بھارت کا اثر و رسوخ بہت زیادہ ہے۔
ڈاکٹر رسول بخش کی رائے میں پاکستان نے انتہا پسند اور کالعدم تنظیموں کے خلاف جو کارروائیاں کی ہیں اُس کا فائدہ تو پاکستان کو ملنا چاہیے، لیکن ایف اے ٹی ایف کے اجلاس میں سارے فیصلے میرٹ پر نہیں ہوتے۔
رسول بخش رئیس کے بقول عالمی سیاست ہمیشہ سے ایف اے ٹی ایف کے اجلاس میں اثر انداز رہی ہے اور یہ اب بھی اثر انداز ہو گی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اُس کا بیرومیٹر یہی ہے کہ امریکہ کس حد تک پاکستان کی مدد کر سکتا ہے۔ اگر امریکہ کی مدد شامل ہے تو پاکستان نکل جائے گا اور اگر نہیں ہے تو پھر مشکل ہو جائے گا۔
ڈاکٹر حسن عسکری سمجھتے ہیں کہ پاکستان نے طالبان اور امریکہ کے درمیان مذاکرت میں جو کردار ادا کیا ہے اُس کا پاکستان کو کوئی براہِ راست فائدہ نہیں ہو گا لیکن امریکہ کا ایک مثبت تاثر پاکستان کے ساتھ ہے۔
اُن کے بقول امریکہ کو پاکستان بارے اِس اجلاس سے پہلے ایک پالیسی فیصلہ کرنا ہو گا۔ پاکستان نے افغانستان میں تعاون کیا ہے اور اب پاکستان کو تعاون کی ضرورت ہے معاہدے کے لیے اور پاکستان نے کچھ اقدامات بھی کیے ہیں۔
ڈاکٹر حسن عسکری کے مطابق انتہا پسند اور کالعدم تنظیموں کے خلاف جو اقدامات کیے ہیں اُس کا فائدہ تو یہ ہے کہ پاکستان اپنی رپورٹ ایف اے ٹی ایف میں پیش کرے گا جس کو وہ سراہیں گے بھی، لیکن بین الاقوامی سیاست اِس وقت ایسی ہے کہ پاکستان پر امریکہ اپنا دباؤ رکھنا چاہے گا۔
گرے لسٹ اور وائٹ لسٹ
رواں سال اکتوبر میں ہونے والے اجلاس میں یہ فیصلہ ہو گا کہ پاکستان کو گرے لسٹ ہی میں رکھا جائے یا وائٹ لسٹ میں شامل کر لیا جائے، یعنی پاکستان کو ایک ایسا ملک قرار دے دیا جائے جہاں منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی مالی معاونت نہیں ہوتی یا پھر شمالی کوریا اور ایران کی طرح بلیک لسٹ میں شامل کر کے پاکستان پر سخت اقتصادی پابندیاں عائد کر دی جائیں۔
ڈاکٹر رسول بخش کی رائے میں اگر پاکستان گرے لسٹ سے نکل کر وائٹ لسٹ میں آتا ہے تو پاکستان میں سرمایہ کاری کی کافی حوصلہ افزائی ہو گی اور ایک مثبت پیغام پاکستان کے بارے میں دنیا بھر میں جائے گا۔
انہوں نے مزید کہا کہ اگر پاکستان گرے لسٹ سے نکل کر بلیک لسٹ میں چلا جاتا ہے تو پاکستان کے لیے تجارت، بیرونی سرمایہ کاری اور غیر ملکی زرِ مبادلہ کے لیے بہت زیادہ پیچیدگیاں پیدا ہوں گی۔
ڈاکٹر حسن عسکری کے بقول اگر پاکستان بلیک لسٹ میں جاتا ہے اور اِس کا نقصان اُس وقت ہوتا ہے جب دوسرے ملک پاکستان سے کاروبار کرنا بند کر دیں، جس کی اُمید تو نہیں کی جا سکتی۔ لیکن ایسا ہو سکتا ہے کہ اگر پاکستان گرے لسٹ سے نکل کر وائٹ لسٹ میں آتا ہے فوری طور پر تو کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا کیوں کہ پاکستان کی تجارت ایک محدود پیمانے پر پوری دنیا سے ہے اور یہ اِسی طرح چلتی رہے گی۔
ان کے بقول پاکستان کا بلیک لسٹ میں جانے کا ایک نقصان یہ بھی ہو سکتا ہے کہ پاکستان کے خلاف بھارت کے لیے پراپیگنڈہ کرنا زیادہ آسان ہو جائے گا۔ اِس طرح ایک سفارتی تنازع بڑھتا ہے۔
ایف اے ٹی ایف کے تقاضوں کے مطابق پاکستان نے کالعدم تنظیموں کے اثاثے منجمند کر دیے ہیں اور اِن تنظیموں سے وابستہ کئی سرکردہ افراد کے خلاف بھی سخت کارروائیاں کی گئی ہیں۔ پاکستان نے اِن تنظیموں کے خلاف بھی سخت کارروائیاں کی ہیں جن کی نشاندہی امریکہ نے کی تھی۔
واضح رہے ایف اے ٹی ایف نے پاکستان کو جون 2018 میں گرے لسٹ میں شامل کیا تھا۔