پاکستان کے وزیرِ داخلہ شیخ رشید احمد نے اعلان کیا ہے کہ ملک میں موجود تمام غیر ملکیوں کی رجسٹریشن کی جائے گی جس کے بعد 'ایلین کارڈ' کے ذریعے غیر ملکیوں کو بینک اکاؤنٹ کھولنے، کاروبار شروع کرنے، سم کارڈ حاصل کرنے اور سفری سہولیات فراہم کی جا سکیں گی۔
شیخ رشید احمد کا کہنا تھا کہ گزشتہ 70 برسوں کے دوران پاکستان میں ہزاروں شہری داخل ہوئے، لیکن اُن کا ریکارڈ تک موجود نہیں ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں مقیم غیر ملکیوں کی رجسٹریشن کا عمل 21 برس سے جاری ہے۔ پہلے اس مقصد کے لیے نیشنل ایلیشن رجسٹریشن اتھارٹی کے نام سے ادارہ بنایا گیا جو اب نیشنل ڈیٹا بیس رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) میں ضم ہو چکا ہے۔
لہذٰا، ماہرین یہ سوال اُٹھا رہے ہیں کہ حکومت کی جانب سے غیر ملکیوں کی رجسٹریشن کے فیصلے میں نیا کیا ہے؟
جمعرات کو اسلام آباد میں نیشنل فرانزک سائنس ایجنسی کے دورے کے موقع پر میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے شیخ رشید نے کہا کہ غیر ملکیوں کو 'ایلین کارڈ' کےذریعے بینک اکاوَنٹس کھولنے کی اجازت ہو گی۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں غیر ملکیوں کے حوالے سے ڈیٹا بیس نہیں ہے اور گزشتہ 70 برسوں میں 40 سے 50 ہزار افراد ایسے ہیں جن کا کوئی ریکارڈ نہیں ہے۔ اس وجہ سے تمام غیرملکیوں کی رجسٹریشن کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ آن لائن ویزا سروس شروع کر دی گئی ہے جس کے ذریعے 30 دن کے اندر درخواست گزاروں کو ویزا جاری کیا جائے گا۔
شیخ رشید احمد کا کہنا تھا کہ افغانستان میں کرونا کا مسئلہ بدستور برقرار ہے جب کہ طورخم بارڈر پر مشرقِ وسطیٰ جانے کے خواش مند چار سے پانچ ہزار افراد پھنسے ہوئے ہیں جن کو نکالنے کے لیے جلد لائحہ عمل طے کریں گے۔
کیا پاکستان میں غیر ملکیوں کی رجسٹریشن پہلی مرتبہ ہو رہی ہے؟
وفاقی وزیرِ داخلہ شیخ رشید احمد نے غیر ملکیوں کی رجسٹریشن کا اعلان تو کیا ہے لیکن ماہرین کے بقول یہ کام پاکستان میں پہلے بھی کیا جا چکا ہے اور سن 2000 میں اس مقصد کے لیے 'نیشنل ایلین رجسٹریشن اتھارٹی' کا باقاعدہ قیام عمل میں آیا تھا۔
یہ اتھارٹی اگلے 14 برس تک قائم رہی اور پھر 20 مئی 2014 کو وزارتِ داخلہ نے اسے نادرا میں ضم کر دیا۔
نادرا ویب سائٹ کے مطابق اس پروگرام کا مقصد غیر ملکیوں کو قانونی طور پر رجسٹرڈ کرنا ہے۔ نادرا اس ضمن میں ایسے غیر ملکی جو یہاں کام کر رہے ہیں لیکن ان کا کوئی قانونی ریکارڈ موجود نہیں انہیں رجسٹرڈ کر کے بائیو میٹرک تفصیلات جمع کرتا ہے۔
شیخ رشید کا کہنا تھا کہ ان غیرملکیوں کی رجسٹریشن کے بعد ان کو بینک اکاؤنٹ کھولنے اور کاروبار کی اجازت دی جائے گی لیکن وائس آف امریکہ کے پاس موجود دستاویزات کے مطابق چار جون 2004 میں اسٹیٹ بینک کی طرف سے تمام بینکوں کو ایک مراسلہ بھیجا گیا تھا جس میں ہدایت کی گئی تھی کہ قومی شناختی کارڈ کی جگہ اگر کوئی شخص ایلین رجسٹریشن کارڈ پیش کرے تو بھی اس کا بینک اکاؤنٹ کھول دیا جائے۔
اس وقت کی شائع ہونے والی خبروں کے مطابق نادرا نے حکومت کو آگاہ کیا تھا کہ پاکستان میں غیر ملکیوں کی تعداد 40 لاکھ سے زائد ہے جن میں بڑی تعداد میں بنگالی شہری پاکستان میں مقیم ہیں۔
ان 40 لاکھ غیر ملکیوں میں بنگالیوں کے ساتھ ساتھ برما، افریقہ، عرب اور دیگر ممالک کے شہری کراچی شہر میں مقیم تھے جن کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں تھا۔
اس کے علاوہ پاکستان میں 13 لاکھ کے قریب ایسے افغان شہری بھی موجود ہیں جن کا کوئی ریکارڈ نادرا کے پاس موجود نہیں تھا۔
'ایلین رجسٹریشن اتھارٹی' کے حوالے سے بات کرتے ہوئے سابق سیکرٹری داخلہ تسنیم نورانی نے کہا کہ 2000 میں کراچی کی صورتِ حال کے باعث یہ ادارہ بنانے کی ضرورت پیش آئی تھی کیوں کہ کراچی میں لاکھوں کی تعداد میں غیر ملکی موجود تھے جن کے پاس دستاویزات موجود نہیں تھیں۔
اُن کے ان غیر ملکیوں کو رجسٹرڈ کرنے کے لیے یہ ادارہ بنایا گیا تھا اور اس ادارہ نے بہت اچھا کام کرتے ہوئے لاکھوں افراد کی تفصیلات جمع کی تھیں۔
تسنیم نورانی نے کہا کہ جب یہ ادارہ بنا تو لوگوں کو رجسٹریشن پر مائل کرنے کے لیے انہیں مختلف سہولیات مہیا کی گئی تھیں اور انہیں بینک اکاؤنٹ کھولنے کی بھی اجازت دی گئی تھی۔
انہوں نے کہا کہ موجودہ حالات میں صرف افغان مہاجرین کا مسئلہ ہے اس کے علاوہ غیر ملکیوں سے متعلق کوئی اہم ایشو نہیں ہے اور افغان مہاجرین کے لیے عرصۂ دراز سے افغان کمشنریٹ کام کرتا ہے۔