یہ دوپہر دو بجے کا وقت تھا، شکار پور کے تعلقہ گڑھی یاسین گوٹھ اورنگا آباد سے تعلق رکھنے والی کمسن بچی کی غیر حالت ماں نے دیکھی، تو اس سے رہا نہ گیا۔ ماں نے فوری طور پراپنے پاس جمع کچھ پیسوں سے رکشہ کیا اور بچی کو کراچی کے جناح اسپتال لے کر پہنچی۔
اسپتال کے عملے نے پولیس کو اطلاع دی اور پھر معلوم ہوا کہ اس بچی کو نامعلوم کار سوار جھانسے سے اپنے ساتھ کار میں سوار کرکے ساتھ لے گئے تھے جب کہ اس کو اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا اور پھر اسے کراچی میں کلفٹن میں ایک شاپنگ مال کے پاس انتہائی بری حالت میں چھوڑ کر فرار ہوگئے۔
متاثرہ بچی کی بیوہ والدہ نے پولیس کو بتایا کہ وہ سیلاب میں گھر بار تباہ ہونے کے بعد چھ چھوٹے بچوں کے ہمراہ کراچی چلی آئیں۔ شوہر کی وفات اور پھر سیلاب کی تباہ کاریوں کے باعث وہ اپنے بچوں کو بھوک سے بچانے کے لیے مشہور درگاہ حضرت عبداللہ شاہ غازی کے قریب فٹ پاتھ پر کھلے آسمان تلے رہنے پر مجبور تھیں، جہاں اس کا اور بچوں کا پیٹ درگاہ کے لنگر سے بھرتا تھا۔
وائس آف امریکہ نے اسی خاندان کے ایک قریبی فرد سے جب رابطہ کیا تو انہوں نے بتایا کہ اس وقت ان کا خاندان ایک کرب کی کیفیت سے گزر رہا ہے اور انہوں نے اس سب کا کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ پہلے ہی وہ سیلاب کی تباہ کاریوں سے اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوئے، اپنے گاؤں سے سینکڑوں کلومیٹر کا فاصلہ طے کر کے کراچی پہنچے تاکہ رات بھوکا نہ سونا پڑے مگر یہاں امداد کے بہانے سے بچی کے ساتھ درندگی کی گئی۔
پولیس کا دعویٰ ہے کہ سی سی ٹی وی فوٹیجز اور دیگر شواہد کی مدد سے دو ملزمان کو گرفتار کیا گیا ہے۔ پولیس نے ان ملزمان کی شناخت غلام رسول اور خالد کے نام سے کی ہے جب کہ وہ گاڑی بھی برآمد کر لی گئی ہے جس میں یہ واردارت ہوئی تھی۔
کراچی کی پولیس کے چیف ایڈیشنل انسپکٹر جنرل (اے آئی جی) جاوید عالم اوڈھو کہتے ہیں کہ ملزمان میں سے ایک ڈیفنس میں ایک بنگلے میں ڈرائیور تھا جس کو گرفتار کیا جا چکا ہے جب کہ دوسرا ملزم واردات کے بعد ٹنڈو الہ یار فرار ہو گیا تھا البتہ پولیس نے اس کی وہاں شناخت کی اور اسے بھی گرفتار کر لیا گیا ہے۔
ایڈیشنل آئی جی کا کہنا تھا کہ بچی کو ڈیفنس میں دو دریا کے قریب مقام پر لے جایا گیا اور تقریبا 40 منٹ تک گاڑی میں رکھا گیا۔ پولیس کے مطابق ملزمان سے مزید تفتیش جاری ہے۔
سیلاب سے متاثرہ لڑکی کے ساتھ اجتماعی زیادتی کے واقعے پر سوشل میڈیا پر بھی مذمت کی جا رہی ہےجب کہ واقعے میں ملوث ملزمان کے خلاف سخت کارروائی کے مطالبات کیے جا رہے ہیں۔
سندھ میں سیلاب زدہ خاتون کے ساتھ زیادتی کا ایسا ایک واقعہ پہلے بھی پیش آچکا ہے۔سیلاب سے شدید متاثرہ صوبے کے ضلع سانگھڑ میں ایک لڑکی کو راشن دینے کا جھانسہ دے کر ملزمان گاڑی میں ساتھ بٹھا کر لے گئے۔
بعد ازاں اس لڑکی کو نشہ آور چیز دی گئی اور اسے خالی مکان میں لے جاکر اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔
بچوں کو جنسی استحصال سے بچانے کے لیے قائم غیر سرکاری ادارے 'ساحل' کے مطابق پاکستان بھر میں 2021 میں تین ہزار 852 کیسز رپورٹ ہوئے تھے، جس میں سب سے زیادہ تعداد پنجاب سے تھی اور یہ تعداد ہر سال بڑھتی جا رہی ہے۔
بچوں کے حقوق کے لیے سرگرم کارکنوں کا کہنا ہے کہ رواں برس بھی ملک میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے ایک ہزار کے لگ بھگ واقعات پیش آئے ہیں۔ سماجی کارکنوں کا کہنا ہے کہ سیلاب سے بے گھر ہونے والے اور دیگر عوامل کے سبب چھوٹی عمر کے بچوں کے حوالے سے خطرات کئی گنا بڑھ گئے ہیں۔
بچوں کے حقوق کے لیے سرگرم کارکن اور ّانیشئیٹر ہیومن ڈویلپمنٹ فاؤنڈیشن کے سربراہ رانا آصف کہتے ہیں کہ حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں سیلاب کی وجہ سے تین کروڑ 30 لاکھ سے زائد افراد متاثر ہوئے۔ ان میں سے بچوں کی تعداد 40 فی صد یعنی ایک کروڑ 30 لاکھ کے لگ بھگ بنتی ہے اور ان میں زیادہ تر خطرے میں وہ بچے ہیں، جن کی عمروں کی حد چھ سے 16 برس ہے۔
انہوں نے کہا کہ بچوں کے لیے جنسی استحصال کے خطرات ایسی آفات میں مزید بڑھ جاتے ہیں۔ ایسے میں بچوں کے لیے خطرات اس لیے بھی بڑھ جاتے ہیں کیوں کہ انہیں خوراک کے حصول کے لیے دیگرافراد پر انحصار کرنا پڑتا ہے اور کراچی میں زیادتی کے حالیہ کیس میں بھی بچی کو راشن کا جھانسہ دے کر درندگی کا نشانہ بنایا گیا۔
رانا آصف نے مزید بتایا کہ بچوں کے تحفظ کے لیے صوبائی سطح پر سندھ چائلڈ پروٹیکشن اتھارٹی کا قیام 2011 میں عمل میں لایا گیا تھا البتہ 11 سال بعد بھی اس کے لیے خصوصی تربیت کے حامل اسپیشلائزڈ چائلڈ پروٹیکشن افسران کی تعیناتی کا عمل مکمل نہیں ہوسکا اور یہ کام ایڈہاک بنیادوں پر محکمہ سماجی تحفظ کے ارکان چلا رہے ہیں جن کے پاس اس قسم کی کوئی تربیت نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ جو سرکاری و غیر سرکاری ادارے سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں کام کر رہے ہیں، وہاں کوئی ایسی مہمات دیکھنے میں نہیں آ رہیں جس میں بچوں کو اس حوالے سے کوئی شعور دیا جائے کہ گُڈ ٹچ یا بیڈ ٹچ کیا ہوتا ہے اور اس حوالے سے اگر کوئی منفی صورتِ حال پیدا ہو جائے تو اس میں کیا کرنا چاہیے۔
ایسے واقعات کی رپورٹنگ کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ بہت سارے علاقوں میں تو صورتِ حال یہ ہے کہ ابھی تک ایسے واقعات کی رپورٹنگ کا طریقہؑ کار ہی موجود نہیں ہے۔ سندھ چائلڈ پروٹیکشن کی ہیلپ لائن 1121 کئی اضلاع میں فعال ہی نہیں۔ یہی نہیں بلکہ پاکستان نے اقوامِ متحدہ کے کنونشن برائے بچوں کے حقوق پر اب تک دستخط نہیں کیے، جس کے تحت بچے خود قانونی طور پر شکایت درج نہیں کرا سکتے۔
رانا آصف کا کہنا تھا کہ ایسے نہ جانے کتنے کیسز ہوں گے، جو رپورٹ بھی نہیں ہوتے ۔
ان کے مطابق حالیہ سامنے آنے والا کیس کراچی کے انتہائی پوش علاقے میں ہوا ہے جہاں جگہ جگہ کیمرے لگے ہوئے ہیں۔ اس کے باوجود یہاں اس طرح کا جرم سرزد ہونے سے نہیں روکا جاسکا ۔اندازہ کریں کہ کراچی کے دیگر علاقوں اور صوبے کے دیگر اضلاع میں کیا حال ہوگا۔
رانا آصف نے قانون سازی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ قومی اسمبلی نے 'زینب الرٹ بل' کے تحت اتھارٹی بنائی تھی، جس کا کام یہ تھا کہ اگر اس طرح کا کوئی واقعہ ہوتا ہے اور متعلقہ ایس ایچ او اس پر کوئی قانونی کارروائی دو گھنٹے میں نہیں کرتا، تو اس کے خلاف تادیبی کارروائی کی جائے گی البتہ آج تک کسی بھی ایس ایچ او کے خلاف کارروائی نہیں کی گئی۔
ان کے مطابق پولیس کو ایسی کسی کارروائی کا کوئی خوف نہیں جب کہ صوبوں میں اب تک تو اس قانون کا اطلاق بھی نہیں ہوسکا۔ ان کے خیال میں اس طرح ریاستی مشینری کھوکھلے دعوؤں کے علاوہ زمین پر کہیں نظر نہیں آتی۔
ادھر وزیرِ اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے واقعے کا فوری طور پر نوٹس لیتے ہوئے پولیس کو اس کیس کی تفتیش جلد سے جلد مکمل کرنے کی ہدایت کی ہے۔
واقعے کا چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ نے بھی نوٹس لیتے ہوئے پولیس حکام سے رپورٹ طلب کرلی ہے۔
ایڈیشنل آئی جی کراچی کا کہنا ہے کہ سیلاب اور پھر خراب معاشی حالت کی وجہ سے اس طرح کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔