چار سال پہلے اپنی "اسکول سٹرائیک فار دی کلائمیٹ" نامی تحریک شروع کرنے والی سویڈن کی کارکن گریٹا تھنبرگ اب 19 برس کی ٹین ایجر ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ اب وہ اس تحریک کا پرچم آب و ہوا کی تبدیلی کی فرنٹ لائن پر کام کرنے والوں کو دینے کے لیے تیار ہیں۔
پچھلے چار سالوں میں، تھنبرگ کی سویڈش پارلیمنٹ کے باہر ایک فرد کی ہڑتال ایک بڑی عالمی تحریک میں تبدیل ہو چکی ہے جس میں اب لاکھوں نوجوان شامل ہیں اور آب و ہوا کی تبدیلی کے خطرات پر بحث کا ایک عالمی سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ایجنسی کے مطابق، گریٹا نے سویڈش نیوز ایجنسی ٹی ٹی کو ایک انٹرویو میں بتایا کہ ’’ہمیں ان لوگوں کی رپورٹس اور تجربات بھی سننے چاہئیں جوماحولیاتی بحران سے سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ یہ میگا فون ان لوگوں کے حوالے کرنے کا وقت ہے جن کے پاس حقیقت میں سنانے کے لیے کہانیاں ہیں‘‘۔
لیکن اس سے پہلے کہ ہم اس ا نٹرویو کے بارے میں مزید بات کریں، اوپر لگی تصویر کو غور سے دیکھیں، یہ سمجھنے کے لیے باڈی لینگویج کا ماہر ہونا ضروری نہیں کہ ماحولیات کی نوعمر سرگرم کارکن یورپی پارلیمنٹ کے اس وقت کے صدر ڈیوڈ ماریا ساسولی سے مصافھہ کرنے سے ہچکچا رہی ہیں۔
یورپی کمیشن نے اس سال آب و ہوا کی تبدیلی سے متعلق نیا مسودہ قانون پیش کیا تھا جس میں 2050 تک تنظیم کے رکن ملکوں کو گرین ہاؤس گیسوں کا اخراج صفر کرنے کے لیے قانونی طور پر پابند کیا گیا تھا۔
یورپی یونین کی انتظامیہ نےاس قانون کی منظوری ایک اجلاس میں دی جس میں تھنبرگ نے بھی شرکت کی۔
گریٹا تھنبرگ اور 33 دوسرے نوجوان سرگرم کارکنوں نے ایک خط میں قانون پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ 2050 تک اخراج کو صفر کرنے کا ہدف ہتھیار ڈالنے کے مترادف ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ آپ نے کوشش ترک کردی۔
خط میں کہا گیاتھا’’ہمیں 2030 یا 2050 کے لیے اہداف کی ضرورت نہیں بلکہ ہمیں 2020 میں عملی کوششوں کی ضرورت ہے۔‘‘۔
اس وقت 17 سال کی گریٹا تھنبرگ اور آب و ہوا کی تبدیلی کے لیے مہم چلانے والے دوسرے لوگوں کا کہنا تھا کہ ماحولیاتی بحران سے نمٹنے کے لیے طویل المدتی اہداف مقرر کرنے کے بجائے فوری اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔
اور اب ان کا تازہ انٹرویو اسی مایوسی کا مظہر نظر آتا ہے۔.تتھن برگ جو حالیہ برسوں میں عوام پر زور دیتی رہی ہیں کہ ’’سائنس کو سنیں‘‘۔ انہوں نے انٹرویو میں کہا کہ دنیا کو اب ’’نئے تناظر‘‘ کی ضرورت ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ایجنسی کا کہنا ہے کہ تھنبرگ نے کہا کہ ابتدائی طور پر وہ سمجھتی تھیں کہ آنے والی نسلوں کے لیے دنیا کو محفوظ بنانے کے لیے ماحولیات پر ایک فوری بحث کی ضرورت ہے۔
لیکن وقت گزرنے کے ساتھ، بقول ان کے، وہ سمجھ گئی ہیں کہ ماحولیاتی بحران کے پہلے ہی لوگوں کی زندگیوں پر تباہ کن اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔
گریٹا کہتی ہیں ’’لہذا یہ اس وقت اور بھی منافقانہ بات ہو جاتی ہے جب مثال کے طور پر سویڈن میں لوگ کہتے ہیں کہ ہمارے پاس انہیں(تبدیلیوں کو) اپنانے کے لیے وقت ہے اور ہمیں ڈرنا نہیں چاہیے کہ مستقبل میں کیا ہو گا‘‘۔
تھنبرگ اس سے پہلے کہہ چکی تھیں کہ وہ شرم الشیخ میں پیر سے شروع ہونے والے COP27 مذاکرات میں شرکت نہیں کریں گی۔انہوں نے اسے ’’گرین واشنگ فورم ‘‘ سے تعبیر کرتے ہوئے تنقید کا نشانہ بنایا۔
انہوں نے گزشتہ برس اپنی ایک ٹویٹ میں یہی بات کہی تھی کہ صاحب اقتدار افراد کو ماحولیات کے بارے میں کسی حقیقی اقدام کے لیےکانفرنسوں، معاہدوں یا سمجھوتوں کی ضرورت نہیں، وہ آج ہی اس کا آغاز کر سکتے ہیں۔‘‘
گریٹا کے اپنے الفاظ میں،’’امید تلاش کرنے کے بجائے، اے تخلیْق کرنا شروع کریں۔‘‘
انہوں نے ٹی ٹی کو بتایا کہ عالمی رہنماؤں کے ساتھ بات چیت نے اس مسئلے پر پیش رفت کرنے کی ان کی اہلیت کے بارے میں انہیں مایوس کر دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ’’ کچھ باتیں جو عالمی رہنماؤں اور سربراہان مملکت نے (اس وقت)کہی ہیں جب مائیکروفون بند ہوتا ہے اورجب آپ لوگوں کو بتاتے ہیں تو ان پر یقین کرنا مشکل ہوتا ہے‘‘۔
’’جیسے، 'اگر مجھے معلوم ہوتا کہ جب ہم پیرس معاہدے پر دستخط کرتے ہوئے ، ہم کس چیز پر رضامند ہو رہے ہیں، تومیں کبھی دستخط نہ کرتا'، یا ’’آپ بچے اس معاملے میں مجھ سے زیادہ باخبر ہیں‘‘ ،گریٹا نے بتایا نے کہا۔’’دنیا کے طاقتور ترین لوگوں میں علم کی کمی حیران کن ہے‘‘۔
تھنبرگ نے، جو اسٹاک ہوم میں ہائی اسکول کے اپنے آخری سال میں ہیں، کہا کہ انہوں نے ابھی تک یہ فیصلہ نہیں کیا ہے کہ وہ گریجویشن کے بعد کیا کریں گی۔
’’دیکھا جائے گا، اگر مجھے آج کا انتخاب کرنا پڑا تو میں اپنی پڑھائی جاری رکھنے کا انتخاب کروں گی۔ ترجیحاً کوئی ایسی چیز جس کا سماجی مسائل سے تعلق ہو‘‘،گریٹانے کہا۔
(اس رپورٹ کے لیے کچھ مواد فرانسیسی خبر رساں ایجنسی سے لیا گیاہے)